الیکشن کی چہ میگوئیاں چہ معنی دارد؟

الیکشن کی چہ میگوئیاں چہ معنی دارد؟

Dubai Naama

الیکشن کی چہ میگوئیاں چہ معنی دارد؟

یہ پہلے عام انتخابات ہیں جس میں اتنی بے یقینی اور تذبذب پایا جا رہا یے کہ الیکشن کے انعقاد میں دو ہفتوں سے بھی کم وقت رہ گیا ہے مگر عوام کو ابھی تک یقین نہیں آ رہا ہے کہ انتخابات کی بیل منڈھے چڑھے گی یا نہیں۔ اس پر مستزاد دو اور واقعات پیش آ گئے ہیں کہ پہلے پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) میں گزشتہ 10دن کے اندر الیکشن کو ملتوی کرانے کے لیئے اوپر نیچے 3قرار دادیں جمع کروائی گئیں اور ایران اور پاکستان کے ایک دوسرے پر حملے کی وجہ سے جنگ کی سی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ سینیٹ میں تیسری قرار داد دوسری قرار داد کے صرف دو دن بعد سینیٹ سیکریٹیریٹ میں جمع کروائی گئی تھی۔5جنوری کو پیش کی گئی یہ قرارداد تو اس قدر نامعقول تھی کہ ایوان میں صرف 14 ارکان موجود تھے اور اجلاس کا کورم بھی پورا نہیں تھا مگر کسی رکن نے اس طرف توجہ نہیں دلائی اور نہ صرف الیکشن ملتوی کرنے کی اس قرار داد کو منظور کر لیا گیا بلکہ اسے فوری طور پر صدارتی دستخطوں کے لیئے ایوان صدر بھی بھجوا دیا گیا۔ اس کے چند روز بعد سینٹ میں الیکشن کے التوا کے لیئے تیسری قرار داد بھی جمع کروا دی گئی! حالانکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے سینیٹ میں پیش کی گئی التوا کی پہلی قرار داد کو آئین اور قانون سے ماوراء ٹھہرانے کے باوجود اس سلسلے کا جاری رہنا ناقابل فہم ہے۔ عوام میں سیاسی شک شبہ کی یہ فضا کیوں قائم کی جا رہی ہے اور اس کی درپردہ اصل وجہ کیا ہے، یہ بات ہر کس و ناقص کی سمجھ سے بالکل بالاتر ہے۔

سیاسی و معاشی عدم استحکام، بدامنی، بے روزگاری اور آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی کی وجہ سے عوام کے اذہان پہلے ہی ماؤف ہیں، غریب عوام کے چولہے نہیں جل رہے، بددیانتی اور چور بازاری میں مزید اضافہ ہوا ہے، لوگ باہر کے ملکوں کی طرف بھاگ رہے ہیں،
اس پر سینیٹ میں پیش ہونے والی ان پراسرار قرار دادوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور عوام کو اور بھی زچ کر دیا ہے۔ یہ ایسی گومگو کی حالت ہے جو عوام کے درمیان ابھی تک قائم ہے اور جوں جوں الیکشن کے دن قریب آ رہے ہیں یہ مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ اس سے عوام کا مورال کافی ڈاؤن ہوا ہے۔ سنجیدہ طبقہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ گومگو کی ایسی پیچیدہ صورتحال پیدا کر کے آخر عوام کے اعتماد کو اس میں خواہ مخواہ کیوں گھسیٹا جا رہا ہے؟

ملک میں سیاسی عدم استحکام کی خاص وجوہات میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی، 9مئی کے ملک دشمن واقعات، سابق چیف جسٹس اور عدلیہ کے متنازعہ فیصلے اور ججز کے حالیہ استعفے شامل ہیں۔ عوام کے اندر یہ سوال ابھی تک کلبلا رہا ہے کہ آگے کیا ہونے جا رہا ہے؟ اس سلسلے میں عوام میں چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ ابھی تک الیکشن مہم میں وہ گہما گہمی کیوں نظر نہیں آ رہی ہے جو اس سے قبل کے عام انتخابات کا خاصا ہوا کرتی تھی۔ گو کہ پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں ملک بھر میں جلسے جلوس کر رہی ہے مگر نون لیگ نے ابھی تک ایک بھی جلسہ جلوس نہیں کیا ہے۔ کیا نون لیگ کی اندرون خانہ مقتدرہ سے کوئی بڑی ڈیل ہو گئی ہے یا اسے معلوم ہے کہ سیاسی شطرنج میں جو بازی بچھائی گئی ہے اس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، جس وجہ سے اس نے الیکشن مہم میں یکسر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔

قومی سطح پر ایسی تشویش اور مایوسی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی حتیٰ کہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد بھی جب ملک دولخت ہوا اور اس سانحہ کے بعد ملکی معیشت تباہ و برباد ہو گئی تو تب بھی بقیہ پاکستان کی بقا اور سلامتی کے بارے میں ایسے خدشات ظاہر نہیں کئے گئے تھے جن کا اظہار آج دیکھنے کو مل رہا ہے۔ آج ہم سیاسی ابتری، معاشی بدحالی اور ایک دوسرے کے خلاف تعصب و نفرت کی اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ جس سے ہمارے مستقبل قریب کا نقشہ مزید دھندلا نظر آ رہا ہے۔ کوئی نہیں جانتا ہے کل کیا ہونے جا رہا یے۔ بہت سے لوگ “ایمرجنسی” کی پیش گوئی کر رہے ہیں، کچھ کہتے ملک میں سول مارشل لاء لگا ہوا یے اور کچھ کا خیال ہے کہ ہمارے تباہ شدہ نظام کو مزید تباہ کرنے کے لیئے یہ صورتحال پیدا کی گئی ہے کیونکہ جب ادارے ایک دوسرے سے ٹکرانے لگیں یا بلکل منہدم ہو جائیں تو پھر بیرونی دشمن کے جارحانہ حملوں کے بغیر اندرونی خلفشار ہی ملک کو برباد کر دیتی ہے۔ دوست نما دشمن ہی مہلک خانہ جنگی کو فروغ دیتے ہیں جیسا کہ ایران نے بلوچستان میں میزائل حملہ کر کے دو برادر اسلامی ممالک کے سفارتی تعلقات کو وقتی طور پر ختم کروایا ہے۔ جب ملک کے اندر اور باہر اس قسم کی بدگمانیوں اور غیر یقینیوں کو فروغ ملنے لگے تو ملک و قوم اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ عوام کا ذہنی اور روحانی اعتماد و اتحاد پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔

کچھ عرصہ قبل بھارتی پردھان منتری نریندر مودی نے ایسے ہی مہربانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت کو پاکستان پر حملہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے یہ ملک خود اپنے ہی ہاتھوں سے برباد ہونے میں خود کفیل ہو چکا یے۔ یہ صورتحال 25کروڑ عوام کی زندگیوں کو جہنّم بنا سکتی ہے۔ موجودہ ناپختہ اور ڈانواں ڈول سیاسی و معاشی حالات ریاست کے وجود پر بھی سوالیہ نشان بن سکتے ہیں۔ ہم حالت نزاع میں ہیں، عدلیہ، سینیٹ اور دیگر سٹریٹیجک اداروں کو ہوش کے ناخن لینے چایئے۔ ایسے ہی کسی موقعہ پر ریاست کے تمام ادارے ایک بند گلی میں پہنچ جاتے ہیں جس سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈنے ڈھونڈتے کوئی بھی نئی تشویشناک صورتحال پیدا ہو جاتی ہے جو نئے اور اچھے یا برے ہنگامی فیصلے کرنے کا جواز پیدا کرتی ہے۔

اللہ نہ کرے یہ مخدوش صورتحال کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہو۔ آنے والا ہر لمحہ اس بے چینی، اضطراب اور غیر یقینی صورتحال کو بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ سب اداروں نے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے خوفزدہ ہے اور بے یقینی کے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے۔ ایسے خوف کے عالم میں کسی بھی غلط فیصلے کا ایک شعلہ، خاموشی کے بارود میں خوفناک آگ لگا سکتا ہے۔ اگرچہ ملک میں 8فروری کو انتخابات کرانے کے لیئے فوج اور عدلیہ پرعزم ہے لیکن دو ہفتوں کے بعد ہونے والے اس مجوزہ الیکشن کے انعقاد پر ابھی تک بے یقینی کے گھمبیر سائے منڈلا رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کے الیکشن ملتوی کرنے کے مایوس کن اعلانات ہوں، سینٹ میں الیکشن کو ملتوی کرانے کی یہ انہونی قرار دادیں ہوں یا پاک ایران کشیدگی ہو مقتدرہ کو اس کا فوری نوٹس لینا چاہئے تاکہ اگلے چند دنوں یا ہفتوں میں کچھ غیر معمولی اور خطرناک واقعات کو روکا جا سکے۔

یاد رہے کہ نون لیگ جس کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کو بڑے چاو’ سنگار کے ساتھ وطن لایا گیا تھا اور جس کی جھولی میں خراماں خراماں “الیکٹیبلز” ڈالے گئے تھے اس نے اب تک نہ تو اپنا الیکشن منشور جاری کیا ہے اور نہ ہی الیکشن مہم میں عوام کو متحرک کرنے کی کوئی ایک بھی سنجیدہ کوشش کی ہے۔ جبکہ ایران کے ساتھ کشیدگی نے الیکشن کو مزید مشکوک بنا دیا ہے۔ آگے آنے والے وقت میں کیا ہونے جا رہا ہے اس کی قبل از وقت پیش گوئی انتہائی مشکل ہے۔ الیکشن پر نئی چہ می گوئیاں ہونے لگی ہیں اور ان کے معنی یا نتائج کیا نکلیں گے، خدا جانے یا وہ جانیں۔

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

شعری مجموعہ "راز" کا فنی و فکری جائزہ

جمعہ جنوری 19 , 2024
پنجاب کے دل ملتان کے ادبی منظرنامے میں ایک ادبی جوہر ارسلان کبیر کمبوہ کے نام سے ادبی منظر نامے میں جگمگا رہا ہے
شعری مجموعہ “راز” کا فنی و فکری جائزہ

مزید دلچسپ تحریریں