زندگی کے روشن اور تاریک پہلوؤں کی حقیقت
زندگی ایک متنوع اور خوبصورت ترین احساس ہے. زندگی مشکلات، ناکامیوں اور تکالیف وغیرہ کی وجہ سے جتنی بھی تلخ اور کٹھن ہو، وہ بہرکیف جان لیوا اور تکلیف دہ موت سے بدرجہا بہتر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی دن اور رات کی مانند ہے جس میں جتنی اہمیت روشنی کی ہے اتنی ہی افادیت اندھیرے کی ہے۔
دنیا میں کتنے ہی ایسے پرامید اور روشن خیال (Optimistic) لوگ موجود ہیں جو مشکل حالات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں۔ دراصل زندگی کی حقیقت یہ ہے کہ یہ روشنی اور اندھیرے جیسی ہے یعنی زندگی کے دو رخ ہیں اس کا ایک رخ روشنی ہے اور دوسرا رخ اندھیرا ہے جس میں زندگی کے روشن حصے کو زندگی اور اندھیرے حصے کو موت کہا جاتا ہے۔ اس بنیاد پر انسانی معاشرے کے حوصلہ مند، بہادر اور جری افراد درد اور تکلیف سے بھی اتنا ہی بھرپور لطف اٹھاتے ہیں جتنا وہ وہ آرام اور آسائش کے دوران محسوس کرتے ہیں۔ اسی لیئے وہ زندگی سے گزر بھی جائیں تو بعض لوگ دنیا میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے وہ زندگی اور موت کو برابر اہمیت دیتے ہیں۔ غم و آلام کے بغیر آسائشات اور خوشیوں کو محسوس کرنا تقریبا محال ہے۔ ایسے لوگ مقاصد کے لیئے جیتے ہیں اور مقاصد کے حصول کے لیئے مرتے ہیں۔
دنیا کے چند ترقی یافتہ ممالک میں کچھ صورتوں میں خودکشی کرنے کی قانونا اجازت ہے۔ لیکن یہ ایسا قانون ہے جو زندگی کے تاریک پہلوؤں کی نمائندگی کرتا ہے۔ جو لوگ غمگین اور ناامید ہوتے ہیں وہ قنوطیت پسند (Sadist) کہلاتے ہیں۔ ناامیدی یا مایوسی کو اسی لیئے "گناہ” قرار دیا گیا ہے کہ یہ زندگی کے بارے ناشکران نعمت ہے۔ انسانی زندگی میں غمزدگی کا ایسا انداز اور رویہ "ظلم پسندی” کے زمرے میں آتا ہے۔ اس فلسفہ زندگی کا ہی نتیجہ ہے کہ دنیا کے جرائم پیشہ افراد برائی کرنے، دوسروں کا حق کھانے، جھوٹ بولنے اور یہاں تک کہ "منافقت” جیسے بدترین اعمال کو جاری رکھنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں۔ اس کے برعکس دنیا بھر میں تعلیم یافتہ اور اعلی اخلاقی اقدار کا حامل ایک کثیر طبقہ ایسا موجود ہے جو غم اور خوشی کو برابر اہمیت دیتا ہے۔ اس طبقے میں شامل افراد مشکلات میں گھبراتے ہیں اور نہ ہی جدوجہد کرنا ترک کرتے ہیں۔ ایسے مثبت اور تعمیری کردار رکھنے والے لوگ کامیابیاں ملنے پر تفاخر محسوس نہیں کرتے ہیں بلکہ اس سے وہ احساس تشکر سے سرشار ہو جاتے ہیں جس سے وہ مزید مضبوط اور طاقتور بن جاتے ہیں۔
زندگی کے اس تعمیری نقطہ نظر کے مطابق جیسے روشنی کی اہمیت کا احساس اندھیرے کے بغیر ناممکن ہے اسی طرح غم برداشت کیئے بغیر خوشی کو محسوس کرنا محال ہے۔ اصل بات یہ یے کہ ہمارے ناخوشگوار اور تکلیف دہ لمحات ہمارے اندر خوشی کے جذبات کو بیدار کرنے اور ابھارنے کے لیئے آتے ہیں تاکہ ہم زندگی کے تاریک اور روشن دونوں پہلوؤں سے زندگی کا بھرپور لطف اٹھا سکیں۔ انگریزی زبان میں اسے Live life to its full extent کہتے ہیں یعنی زندگی جیسی یے اور جس حالت میں بھی یے اس سے مکمل استفادہ کر کے خوش و خرم زندگی گزاری جائے۔
دنیا میں بے شمار ایسے عظیم افراد گزرے ہیں اور اب بھی ہیں جنہوں نے جسمانی معذوری کے باوجود نہ صرف کامیاب اور بھرپور زندگی گزاری بلکہ دولت و ذرائع بھی جمع کیئے اور پوری دنیا میں اپنی بلند استقامت اور جدوجہد کی وجہ سے نام بھی کمایا۔ ہمارے نظام شمسی کا سورج روزانہ نئی روشنی اور مواقع لے کر ابھرتا ہے۔ کچھ لوگ تکلیف دہ حالات و واقعات سے گزرتے ہیں تو زندگی سے تنگ آ کر ان کے منہ سے نکل جاتا ہے کہ، "اس زندگی سے تو موت بہتر ہے۔” لیکن یہ زندگی کے بارے میں ایک قنوطی اور پژمردہ نقطہ نظر ہے حالانکہ زندگی سے تنگ لوگ بھی اندر سے بہتر زندگی جینا چاہتے ہیں۔
دنیا میں ایسا کونسا انسان ہے جو کامیاب، بہتر اور خوبصورت زندگی گزارنے کا متمنی نہیں ہے؟ زندگی کا تو مطلب ہی "دیکھئیے جا کر ٹھہرتی ہے نظر کہاں” کے مصداق حسن اور آسائش کی بہتر سے بہتر تلاش ہے۔ زندگی جیسی اور جیسے بھی حالات میں ہو اسے بھرپور طریقے سے جینا اور لطف اندوز ہونا آ جائے تو یہ ایسی عالیشان نعمت ہے کہ جسے لفظوں میں بیان کرنا تقریبا ناممکن ہے۔ ہم عام انسانوں کا واسطہ عموما زندگی کے عام معمولات سے رہتا ہے اور ہم روزمرہ کی مصروفیات میں اتنے مگن ہو جاتے ہیں کہ ہم زندگی سے لطف تو اٹھاتے ہیں مگر اس طرف ہمارا دھیان ہی نہیں جاتا کہ زندگی کے ہر لمحہ میں ہم کیسی متنوع اور خوبصورت کیفیات سے گزرتے ہیں چہ جائیکہ ابھی تک انسان یہ تک معلوم نہیں کر سکا ہے کہ خود زندگی کیا چیز ہے یا اس کے قائم ہونے سے انسان یا دیگر جانداروں میں جو شعور پیدا ہوتا ہے وہ کیا چیز ہے؟

زندگی ایسی حسین اور یادگار ہے کہ اس کی ایک ایک کیفیت میں جاں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے۔ اس بات کو وہی محسوس کر سکتا ہے جس کا علم، ادراک اور شعور بدرجہا بیدار ہو جاتا ہے۔ زندگی کا یہ معیار ہر انسان کے تفکر اور آگہی کے لیول پر منحصر ہے۔ ایک یونانی فلسفی اور دانشور کا قول ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی بھی بڑے کام کو انجام دینے کے لیئے تھوڑے بہت پاگل پن کا ہونا لازمی ہے۔ اس مقولے کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا یے کہ کوئی بڑا کام یا کارنامہ پاگل پن کے بغیر کیا ہی نہیں جا سکتا ہے۔
یہ 1929 کی بات ہے جب برلن کے ایک ہسپتال میں ایک نوجوان جرمن ڈاکٹر نے ایک ایسا تجربہ کیا جس نے طب کی دنیا کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔ اس کا نام تھا: ڈاکٹر ورنر فورسمین (Werner Forssmann) تھا۔ تب تک میڈیکل ڈاکٹروں کا ماننا تھا کہ دل تک کوئی نلکی (کیتهیٹر) پہنچانا جان لیوا ہو سکتا ہے، لیکن فورسمین کے دل میں ایک اور ہی جستجو دھڑک رہی تھی۔ اس کو محاورتا یقین تھا کہ جان بچانے کے لئے پہلے خود جان دینا پڑتی ہے۔
ہسپتال کی انتظامیہ نے اسے اس تجربے کی اجازت نہ دی، مگر وہ رکا نہیں۔ اُس نے اپنی نرس کو قائل کیا کہ وہ اس پر یہ تجربہ کرے۔ جب وہ نرس نلکی لے کر پلٹی، تو فورسمین نے کہا، "نہیں، میں خود پر یہ تجربہ کروں گا۔” اور پھر اس نے خود اپنی کہنی کی رگ میں ایک لمبی نلکی داخل کی اور اسے دل کی طرف بڑھایا۔ وہ ہسپتال کے ایکسرے روم تک چلا گیا، جہاں اس نے خود اپنے سینے کا ایکسرے کروایا۔
تصویر میں صاف نظر آیا کہ نلکی سیدھی اس کے دل کے قریب پہنچ چکی تھی۔
تصور کیجیے کہ ایک نوجوان ڈاکٹر، اپنے جسم پر تجربہ کر رہا ہے، صرف اس لئے کہ آنے والے وقتوں میں دل کی بیماریاں بغیر چاک کئے دیکھی اور سمجھی جا سکیں۔ اسے پاگل کہا گیا۔ ہسپتال سے نکال دیا گیا۔ برسوں تک کسی نے اس کی بات نہ مانی۔ مگر وقت نے ثابت کیا کہ وہ پاگل نہیں بلکہ پیش رو تھا۔ کئی سال بعد، اس کے تجربے کو بنیاد بنا کر کارڈیک کیتھیٹرائزیشن عام ہو گئی، وہی عمل جس سے آج لاکھوں جانیں بچائی جاتی ہیں۔
اور پھر اُسے وہ اعزاز ملا جس کا ہر سائنسدان خواب دیکھتا ہے یعنی اسے سنہ 1956ء میں
"نوبیل انعام” برائے طب سے نواز گیا۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |