ایک گمنام قیدی کی کہانی
یہ اسی کی دہائی تھی جب باہر جانے کا شوق لوگوں کو نیا نیا چرایا تھا۔ وہ اعلی تعلیم یافتہ تھا اور ساتھ میں بلا کا ذہین بھی تھا۔ اس نے سرکاری نوکری کرنے کی بجائے ایک خلیجی ملک کا رخ کیا اور وہاں کاروبار میں قسمت آزمائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ 27 سال عمر کا نوجوان تھا، جذبہ اور حوصلہ تھا، وہ آگے سے آگے بڑھنے کا ایک مقصد لے کر آیا تھا، باہر آ کر اس نے ایک کنسٹرکشن کمپنی بنائی، عملہ بھرتی کیا اور شروع میں بلڈنگ مینٹینس کے کام پکڑنے لگا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ اس نے اپنی کمپنی میں پبلک ریلشن آفیسر (پی آر او) کی سیلیکشن کرنے کے لیئے اشتہار دیا، وہ مردم شناس تھا، مختلف قومیتوں کے بہت سارے امیدوار آئے مگر اس کی نظر ایک خوبصورت پاکستانی نوجوان پر ٹھہر گئی۔ نیا بھرتی ہونے والا پی آر او بھی حد درجہ ذہین تھا، بس وہ دن اور آج کا دن اس نے واپس مڑ کر نہیں دیکھا، جیسے اس پی آر او کو ریکروٹ کرنے سے اس کی قسمت ہی بدل گئی ہو۔
خلیجی ممالک میں کنسٹرکشن اور بلڈنگ مینٹیننس کا کام مٹی کو سونا بنانے جیسا ہے۔ اگر آپ کے پاس صرف 10 بندے بھی ہوں تو آپ آرام سے رائج الوقت کرنسی میں 60 سے 70 ہزار کی اِنوائس ڈال سکتے ہیں جس میں سارے خرچے نکال کر آپ آرام سے اوسطا 30 ہزار تک ماہانہ جیب میں ڈال سکتے ہیں۔ ایک دن اس نے اپنے پی آر او کو اعتماد میں لیا اور اس کی آل راؤنڈ صلاحیتوں کو مدنظر رکھ کر اسے ریکروٹنگ کی اضافی ذمہ داری بھی تفویض کر دی، بلکہ وہ اس سے اپنے مشیر کا کام بھی لینے لگا، دونوں مل کر اپنی مرضی کے انجنیئر، کاریگر اور مزدور بھرتی کرتے، پی آر او اکانومی ڈیپارٹمنٹ، لیبر آفس اور امیگریشن جاتا، دفتری عملے اور کنسٹرکشن کاریگروں اور مزدوروں کے ویزے پراسیس کرتا اور مارکیٹنگ منیجر کے طور پر کنسٹرکشن کے نئے پراجیکٹ بھی پکڑتا، جس سے اس کی کمپنی کو اتنا کام ملنے لگا کہ وہ سول اور الیکٹریکل و مکینیکل کے اچھے نرخوں پر بڑے بڑے ٹھیکے پکڑتا اور اپنا منافع رکھ کر کام آگے ٹیکنیکل سروسز کی کمپنیوں کو دے دیتا۔
کنسٹرکشن کی کمپنی چلاتے ہوئے اسے کم و بیش 25 سال ہو گئے اور اس کا ماہانہ منافع 60 سے 70 ہزار کے آکاڑہ میں پہنچا تو ایک دن اس کے دماغ میں ایک اچھوتا خیال آیا۔ اس نے اپنے پی آر او کو بلایا اور کسی نوجوان خوبصورت "ٹک ٹاکر” کو اپنی کمپنی میں سیکریٹری کے طور پر رکھنے کا مشورہ مانگا، پی آر او تو جیسے پہلے ہی اس موقعہ کے انتظار میں تھا، وہ ایک نئی نویلی اور نوجوان حسینہ کو ڈھونڈ لایا، جس کے بعد اس کا کام مزید چمکنے لگا۔
کہتے ہیں کہ، "لالچ بری بلا ہے۔” جب اس کے پی آر او، فی میل سیکریٹری اور اس کا "ٹرائیکا” بنا تو جہاں کاروبار میں چاندی ہونے لگی اور اس کے منافع کی شرح بڑھ کر ایک لاکھ تک ماہوار کی انتہائی حد کو پہنچی، اور پیسوں کی ریل پیل ہوئی تو وہ اپنی سیکریٹری کی زلفوں کا اسیر ہو گیا، اس نے اسے ایک الگ بنگلہ لے کر دیا، کار خرید کر دی اور دیگر ساری پرتعیش سہولتیں بہم پہنچائیں، اور ایک دن اچانک اپنی بیوی کو بتائے بغیر اپنی اس خوبرو ٹک ٹاکر سیکریٹری سے نکاح کر لیا، جو اس کی بیٹی سے 20 سال چھوٹی تھی۔ نکاح کرنا جائز ہے۔ لیکن لالچ دہرا ہو تو اس کی سزا بھی دہری ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت میں انسان غلطیاں کرنے سے نہیں بچ سکتا ہے۔ جب اس کے خرچے بڑھے اور آمدن میں تفریق پیدا ہونے لگی تو اس کے پی آر او نے اسے بنک سے قرضہ لینے اور "پیٹی” ٹھیکیداروں کے پیسے نیچے لگانے کا مشورہ دیا جس کا بلآخر نتیجہ یہ نکلا کہ وہ 10 ملین کے فراڈ اور چیک ریٹرن کے کیسوں میں جیل چلا گیا۔
یوں جس پی آر او نے اسے عروج پر پہنچایا تھا وہی اسے جیل بھجوانے کی وجہ بنا جس سے یہ تین سبق ملتے ہیں کہ اول اپنے عملے، دوستوں اور شریک حیات کا انتخاب کرتے وقت احتیاط سے کام لیں، دوم کامیابی ملے تو لالچ کرنے کی بجائے صبر اور شکر سے کام لیں اور سوم جب پیسہ آئے تو اپنی "اوقات” اور "مشکل وقت” کو کبھی نہ بھولیں جس سے پیسہ آپ کا دماغ خراب نہیں کر سکے گا۔
یہ ایک فرضی کہانی ہے جس میں ایک ایسا کردار شامل ہے جو اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیئے اپنی محنت اور ذہانت کے بل بوتے پر ترقی تو کرتا ہے مگر پیسے اور لڑکی کے لالچ میں آ کر وہ زوال کا شکار ہو جاتا ہے اور جیل چلا جاتا یے۔ آپ خلیجی ممالک اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں مثلا امریکہ، برطانیہ، کنیڈا، آسٹریلیا اور یورپ وغیرہ میں جیلوں کا وزٹ کریں تو وہاں آپ کو ایسے بے شمار کردار ملیں گے جو کاروبار میں "دھوکہ دہی” اور "بنک فراڈز” کی مد میں جیل کاٹ رہے ہوتے ہیں۔ ایسے کیسوں میں انڈین، پاکستانیوں، بنگلہ دیشیوں اور مصریوں وغیرہ کی اکثریت ہوتی ہے۔
یہاں میرا مقصد کسی ملک یا فرد کو "ٹارگٹ” کرنا نہیں ہے بلکہ ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کرنا مقصود ہے جو اس طرح کے بدنام زمانہ بنک فراڈ وغیرہ کے کیسوں میں جیل جاتے ہیں۔ جب میں 2008ء میں دبئی آیا تو تب لوگ اپنے آفس کے بڑے پروفیشنز کے قابل اعتماد ویزہ داروں مثلا جنرل منیجر، آفس انچارج، منیجر، اکاؤنٹنٹ اور انجینئر وغیرہ کی ماہانہ تنخواہیں 10 سے 15 ہزار تک ڈالتے تھے تاکہ اس پر وہ بنکوں سے "لون” اور "کریڈٹ کارڈ” اور دیگر سہولیات لے سکیں۔ خلیجی حکومتوں کی طرف سے سختی کے باوجود تمام خلیجی بنک آج بھی قرضے اور کریڈت کارڈ اسی بنیاد پر دیتے ہیں جس کا انجام آخر میں ملک بدری یا لمبی جیل کی صورت میں نکلتا ہے۔
ہمارے لئے روزگار کی خاطر سمندر پار آنے کا رجحان، انتہائی قابل فخر اور باعث رحمت و برکت ہے۔ دیار غیر میں رہنے والے ہمارے لاکھوں کروڑوں پاکستانی نہ صرف اپنے خاندانوں میں خوشحالی لاتے ہیں بلکہ وہ کروڑوں اربوں ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان بھیج کر پاکستان کی معیشت کا بھی سہارا بنتے ہیں۔ اگر ہم اسی قابل ستائش کام تک محدود رہیں تو ٹھیک ہے مگر ہم جعل سازی کر کے یا کسی ادارے یا فرد کو دھوکہ فریب دے کر "گمنام قیدی” بنیں گے یا بلآخر ڈپورٹ ہوں گے تو اس سے نہ صرف پاکستان کی بدنامی ہو گی، بلکہ ہم خود بھی کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |