پاک بھارت فضائی جنگ میں حکمت عملی کا کردار
جو شہر اور قصبے جنگی ہوائی اڈوں کے قریب واقع ہوں وہ زیادہ جانی اور مالی نقصان کے خطرے کی زد میں ہوتے ہیں۔ جن لوگوں نے 1971ء کی آخری بڑی جنگ کو آنکھوں سے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ کس طرح دن کی روشنی اور رات کی تاریکی میں ہندوستانی جنگی جہاز ان اڈوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتے تھے۔ اس پرانی جنگی حکمت عملی کا مطالعہ کریں تو پتہ چلے گا کہ انڈین حملہ آور جہازوں کی پروازیں بہت نیچی ہوتی تھیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نیچی پروازوں میں جنگی جہازوں کو نظر نہ آنے کی وجہ سے ڈیفیس سسٹم اور ریڈار وغیرہ کے زریعے جانچنا اور ڈیٹیکٹ کرنا کافی مشکل ہوتا ہے۔
اس کے باوجود پاکستانی ایئر فورس نے کمال مہارت کے ساتھ فرانس سے حاصل کیئے گئے جدید ترین بھارتی جنگی جہازوں "رافیل” کو مار گرایا۔ بھارت کے اس نقصان کی تصدیق خود رافیل جنگی جہاز بنانے والی فرانسیسی کمپنی "ڈسالٹ ایوی ایشن” (Dassault Aviation) نے کی ہے جس کے شیئرز میں نمایاں کمی واقع ہو گئی ہے۔
پاکستان کی جانب سے حالیہ دفاعی کارروائی میں بھارتی فضائیہ کے 3رافیل طیاروں سمیت مجموعی طور پر 5جنگی طیارے تباہ کئے جانے کی اطلاعات ہیں۔ بین الاقوامی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق، یورپی اسٹاک مارکیٹ میں ڈسالٹ کمپنی کے شیئرز منفی رجحان کا شکار ہو گئے ہیں، جسے تجزیہ کار بھارتی فضائیہ کی رافیل طیاروں میں ناکامی سے جوڑ رہے ہیں۔
رافیل طیارے جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل جنگی طیارے تصور کئے جاتے ہیں، جو بھارتی فضائیہ کے زیرِ استعمال ہیں۔ تاہم پاکستان کی جانب سے ان طیاروں کو مؤثر فضائی دفاعی نظام کے تحت نشانہ بنانا اس بات کی علامت ہے کہ خطے میں اسلحہ کی دوڑ میں صرف مہنگی ٹیکنالوجی فتح کی ضمانت نہیں ہے بلکہ پائلٹس کی بہادری اور مہارت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان نے حالیہ دفاعی کارروائی میں انتہائی مہارت کے ساتھ دشمن کے 5 طیارے مار گرائے، جن میں 3 رافیل شامل ہیں۔ اس واقعہ کے بعد انٹرنیشنل میڈیا سمیت بھارت کی دفاعی پالیسی پر بھی سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں، جبکہ بھارت میں سوشل میڈیا اور بعض عسکری تجزیہ نگاروں نے بھی اس ناکامی پر بھارت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے آڑے ہاتھوں لیا ہے۔
چہ جائیکہ کے اب تک پاکستان کو اس فضائی جنگ میں بھاری برتری حاصل ہے اور پاکستان 7مئی کے بھارتی حملوں کا منہ توڑ جواب بھی دے چکا ہے جس میں انڈین فوجی چوکیوں اور اسلحہ کے ٹھکانوں کو تباہ کیا گیا اور ابھی تھوڑی دیر پہلے پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں بھی بھارتی فوجی چوکیوں پر شدید حملہ کیا ہے لیکن حیرت کا مقام ہے کہ پاکستان کی سٹریٹیجک وار پالیسی کے بارے میں کچھ حلقے سوالات اٹھا رہے ہیں کہ جب پاکستان کے بہاولپور، لاہور، کراچی، گوجرانوالہ اور راولپنڈی سمیت کم و بیش 7 شہروں پر بھارت نے میزائل حملے کیئے تو پاکستان کا ایئرڈیفینس ڈیٹیکٹو سسٹم کہاں اور کیوں سویا ہوا تھا اور ان میزائلوں کو ہوا ہی میں کیوں تباہ نہیں کیا گیا کہ پاکستان کو ان حملوں کی وجہ سے 25 شہادتوں کا نظرانہ پیش کرنا پڑا؟
اطلاعات کے مطابق بھارت نے پاکستان سول آبادی پر جو میزائل داغے یا ڈرونز بھیجے وہ اسرائیلی ساخت کے تھے جن کے بارے اطلاعات ہیں کہ وہ "ہاروپ” (Harop) ڈرونز ہیں جو جدید ترین لوئٹرنگ مونیشنز (Loitering Munitions) میں شمار ہوتے ہیں، جن کا بنیادی مقصد دور دراز کے علاقوں میں نگرانی کرنا اور انتہائی درستگی کے ساتھ ہدف کو نشانہ بنانا ہے۔ ہاروپ ڈرونز کو خاص طور پر خطرناک بنانے والی بات یہ ہے کہ ان کا کنٹرول ہیڈکوارٹر، جو بھارت میں واقع ہے، سے مسلسل بروقت ڈیٹا لنک قائم رہتا ہے۔ جیسے ہی یہ ڈرون کسی فوجی یا حساس تنصیب کا سراغ لگاتے ہیں، یہ چند سیکنڈز میں ہائی ڈیفینیشن انٹیلی جنس، مقام، ساخت (Configuration)، اور نقل و حرکت کی معلومات کمانڈ سینٹر کو منتقل کر دیتے ہیں۔ ایسے ڈرونز کی اطلاعات پر اپنے دفاعی نظام کو متحرک (Activate) کرنا خود پاکستان کے دفاعی نظام پر مزید خطرناک حملوں کا باعث بن سکتا تھا جس وجہ سے پاکستان نے انہیں براہ راست فضا سے فضا میں گرانے کی بجائے انہیں اپنی "اسمارٹ دفاعی حکمتِ عملی”
کا استعمال کر کے تباہ کیا۔
اس خاموش جنگی حکمت عملی اور اپنے پانچ لڑاکا طیاروں کے نقصان اور حالیہ فضائی جھڑپ میں شرمناک شکست کے بعد، بھارت اب پاکستانی فضائی حدود میں نہ تو جلد لڑاکا طیارے بھیجنے کا رسک لینے کے قابل رہا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی جارحیت کے لئے ان کا استعمال کرنے کی جلد بازی کر سکتا ہے۔ اس شرمناک صورتِ حال کے پیشِ نظر بھارت نے بعد میں جدید ٹیکنالوجی سے لیس نگرانی کرنے والے ڈرونز کا سہارا لینا شروع کر دیا۔ گزشتہ بھارتی حملے میں جو لاہور کے قریب والٹن کے علاقے میں کچھ ڈرونز فائر کئے گئے، انہیں پاکستان کے فضائی دفاعی نظام نے فوراً ہی شناخت کر لیا تھا۔
چونکہ یہ محض فضائی نگرانی کرنے والے آلات نہیں بلکہ ایک مکمل ذہین جنگی ہتھیار ہیں، جن کا مقصد دشمن کے دفاعی نظام کی مکمل خاکہ سازی (Mapping) کرنا ہوتا ہے۔ یہ ڈرون دشمن کی دفاعی ساخت کو سمجھنے، کمزوریاں تلاش کرنے، اور بعد ازاں حملے کی منصوبہ بندی میں انتہائی مؤثر کردار ادا کرتے ہیں جس وجہ سے پاکستان کی مسلح افواج نے ان ڈرونز کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں یا براہِ راست فضائی حملوں سے فوری طور پر تباہ نہیں کیا تھا۔ اگر ان ڈرونز کو فوراً مار گرایا جائے، تو تباہ ہونے سے پہلے یہ بھارت کو اہم مقامات کے کوآرڈینیٹس اور الیکٹرانک سگنلز بھیج سکتے ہیں۔
یہ چند لمحے ہی دشمن کے تجزیہ کاروں کے لئے کافی ہوتے ہیں کہ وہ پاکستان کے ریڈار سسٹمز، زمینی کمانڈ اینڈ کنٹرول مراکز، اور فضائی دفاعی ڈھانچے سے متعلق کارآمد انٹیلی جنس حاصل کر لیں۔ اسی لئے پاکستانی افواج نے ان ڈرونز کے خلاف نہایت حکمت عملی سے کام لیا، تاکہ دشمن کو کم سے کم معلومات حاصل ہو سکیں اور قومی سلامتی کو لاحق خطرات کا بروقت تدارک کیا جا سکے۔
اس خطرے سے نمٹنے کے لیئے پاکستان نے ایک ہوشمند دفاعی حکمتِ عملی اپنائی ہے۔ پاکستان نے طویل فاصلے سے نشانہ بنانے کی بجائے، "سافٹ کل” (Soft Kill) نظام استعمال کیا، جن میں جیمنگ ٹیکنالوجی شامل ہے جو فضاء میں ہی ڈرونز کے نیویگیشن اور کمیونیکیشن سسٹمز کو ناکارہ بنا دیتی ہے۔
اس کے علاوہ، ان ڈرونز کو دانستہ طور پر قریبی حدود میں داخل ہونے دیا جاتا ہے تاکہ انہیں اینٹی ایئرکرافٹ گنز یا قریبی فاصلے کے دفاعی میزائلوں سے انتہائی درستگی کے ساتھ مار گرایا جا سکے۔ یہ اسٹریٹجک تاخیر اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ دشمن کو کوئی اہم معلومات منتقل نہ ہوں اور ڈرونز کو بھی مکمل طور پر غیر مؤثر بنا کر تباہ کیا جا سکے۔
یہ حکمتِ عملی نہ صرف تکنیکی برتری کو ظاہر کرتی ہے بلکہ دشمن کی جدید جنگی ٹیکنالوجی کے خلاف ایک مؤثر اور محفوظ دفاع بھی فراہم کرتی ہے۔ سادہ الفاظ میں بات کی جائے تو جیسے ہی یہ ڈرونز پاکستانی سرحد کے قریب آتے ہیں، انہیں پاکستانی ریڈارز فوراً شناخت کر لیتے ہیں، مگر فوری ردِعمل دینے کے بجائے، مسلح افواج انہیں سخت نگرانی کے تحت قریب آنے دیتی ہیں اور جیسے ہی یہ ایک خاص، قابو میں رکھے گئے فاصلے تک پہنچتے ہیں، انہیں اس مہارت سے نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی حساس دفاعی معلومات کو دشمن تک منتقل نہ کر سکیں۔
یہ جذبات کی بجائے ذہانت سے کام لینے کی ایک بہترین مثال ہے جس کا مقصد نہ صرف دشمن کی فضائی دراندازی کو انتہائی درستگی سے ناکام بنانا ہے بلکہ پاکستان کے دفاعی نظام کی ترتیب اور پوزیشن کو بھی مکمل طور پر پوشیدہ رکھنا ہے۔
پاکستان کی جانب سے فرانسیسی ساختہ رافیل اور اسرائیلی ہاروپ ڈرونز کے مار گرائے جانے کے دنیا میں یہ پہلے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں.
یوں حالیہ فضائی جنگ میں انڈیا کی طرف سے روس، فرانس، اور اسرائیل کے بلند بانگ قسم کے وار ہارڈویئر کو ذلیل کروانے اور پاکستان کی طرف سے ان ٹیکنالوجیز کو خاک میں ملانے کے "ورلڈ ریکارڈ” قائم ہوئے ہیں جس کے بارے بی بی سی ویریفائی نے مختلف ماہرین، نمائندگان سے بات کرنے کے بعد طیاروں کی تباہی کے حوالے سے اپنی رپورٹ بھی جاری کی ہے۔ بی بی سی نے اگرچہ احتیاط سے کام لیا، مگر بین السطور بہت واضح ہے کہ پاکستانی دعوے درست اور وزنی ہیں جبکہ بھارتی الزام اور دعوے ماضی میں بھی غلط ثابت ہوئے اور اب بھی جھوٹ کا پلندہ ہیں جیسا کہ جب ابھینندن کا طیارہ تباہ ہوا تھا تو تب بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے پاکستان کا ایک ایف سولہ طیارہ تباہ کر دیا ہے۔
بی بی سی نے امریکی سورس کو کوٹ کر کے کہا کہ امریکیوں نے پاکستانی ایف سولہ طیاروں کی گنتی کی اور وہ پورے پائے گئے۔ جس طرح ماضی میں بھارت کا ایف سولہ طیارے کی تباہی کا دعویٰ غلط تھا، اسی طرح گزشتہ روز والا بھارتی دعویٰ بھی دروغ گوئی پر مبنی ہے، اس لئے کہ پاکستانی ایف سولہ طیارہ حملہ آور ہوا ہی نہیں تو وہ تباہ کیسے ہو جائے گا؟
Title Image by Defence-Imagery from Pixabay

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |