اہرام ہائے مصر اور سائنس کی بے بسی

اہرام ہائے مصر اور سائنس کی بے بسی

Dubai Naama

اہرام مصر دیکھنے والوں کو ورطہ حیرت میں ڈالتے ہیں۔ انہیں دیکھ اور سوچ کر انسان کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ بنی نوع انسان کے لیئے کوئی بھی بڑے سے بڑا شاہکار تعمیر کرنا ناممکن نہیں ہے۔ اہرام مصر کے بارے میں ابھی یہ تک معلوم نہیں ہوا کہ ان کی تعمیر کیسے ممکن ہوئی؟ دنیا بھر کے سائنس دان، محققین، تاریخ دان، سیاح اور عام لوگ ابھی تک یہ نہیں جانتے کہ یہ دیوہیکل اہرام کیوں اور کس طرح تعمیر کئے گئے۔ اسی لیئے اہرام مصر کو دنیا کا پہلا “عجوبہ” کہا جاتا ہے۔

دنیا میں کل 7 عجوبے شمار کیئے جاتے ہیں جو ساتوں کے سات اب تک کی معلوم انسانی تاریخ میں تعمیر کئے گئے عظیم ترین نمونے ہیں۔ اسی لیئے انہیں زمانۂ قدیم کی فہرست کے مطابق 7 عجائبات عالم کہا جاتا ہے جن میں اہرام ہائے مصر ابھی تک قائم ہیں۔ دیگر 6 عجوبوں میں بابل کے معلق باغات، ارٹیمس کا مندر، زیوس کا مجسمہ، موسولس کا مزار، رہوڈز کا مجسمہ اور اسکندریہ کا روشن مینار شامل ہیں۔ جدید فہرست میں “دیوار چین” اور “تاج محل” کو بھی ان سات عجوبوں میں شامل کیا جاتا ہے۔ قدیم فہرست کی ان تمام عمارتوں میں سے صرف اہرام مصر اب تک قائم ہیں۔ جبکہ بابل کے باغات (جنہیں “ہینگنگ گارڈنز” بھی کہا جاتا ہے) کی تاحال موجودگی ثابت نہیں ہوئی۔ بقیہ 5 عجائبات قدرتی آفات کا شکار ہو کر تباہ ہوئے۔ ارٹیمس کا مندر اور زیوس کا مجسمہ آتش زدگی اور اسکندریہ کا روشن مینار، روڈس کا مجسمہ اور موسولس کا مزار زلزلے کا شکار ہوئے۔ موسولس کے مزار اور ارٹیمس کے مندر کی چند باقیات لندن کے برٹش میوزیم میں آج بھی موجود ہیں۔

ان عجائبات کی یہ قدیم فہرست 305 سے 204 قبل مسیح کے دوران ترتیب دی گئی تھی۔ تاہم مذکورہ فہرست زمانے کی دست برد کی نظر ہو گئی۔ ان 7 عجائبات کا ذکر 140 قبل مسیح کی ایک نظم میں ملتا ہے۔ اصل میں مذکورہ یونانی فہرست میں انھیں عجائبات قرار نہیں دیا گیا تھا بلکہ انہیں ایسے مقامات قرار دیا گیا تھا جنہیں ضرور دیکھنا چایئے۔ اصل فہرست جسے ہم قدیم دنیا کے عجائبات کے نام سے جانتے ہیں وہ قرون وسطیٰ کی تیار کردہ ہے جب ان میں سے اکثر عمارتیں اپنا وجود کھو چکی تھیں۔

دنیا میں سائنسی انقلاب کے بعد سائنس دانوں کی کئی ٹیموں (جن میں پاکستان کے ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی شامل تھے) نے اہرام ہائے مصر کے حیرت انگیز فن تعمیر کا راز معلوم کرنے کی پوری کوشش کی مگر وہ آج تک اسے سمجھنے میں ناکام رہے ہیں کہ کئی ٹن وزنی پتھروں کو اتنی اونچائی تک کیسے لے جایا گیا تھا جبکہ اس وقت جدید کرینیں بھی ایجاد نہیں ہوئی تھیں۔ یہ مصری اہرام دنیائے قدیم کی اعلیٰ سائنسی ترقی کے ٹھوس اور جیتے جاگتے ثبوت ہیں۔ وہ کونسی سائنس تھی اور کیسے کام کرتی تھی ابھی یہ راز کسی کو معلوم نہیں ہے۔ اہرام کے ان عظیم مقبروں کی اہمیت پچھلے ایک ہزار سالوں سے دنیا بھر کے سائنس دانوں، علما، صوفیا اور تاریخ دانوں کے درمیان موضوعِ بحث رہی ہے۔ ان کے مباحثے کا زیادہ تر محور و مرکز مصر کا سب سے بڑا اہرام “’شی اوپس یا چیوپس کا عظیم اہرام” رہا ہے۔ یہ تراشیدہ سنگی چٹانوں کا وہ دیوہیکل نمونہ ہے جو ہزاروں برسوں سے انسانی ادراک و اذہان کے لئے ایک لاینحل معمہ اور ناقابلِ تسخیر چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ آج بھی جب کہ انسان نے خلا کی وسعتوں اور سمندر کی گہرائیوں تک کو کھنگال ڈالا ہے شی اوپس کا یہ عظیم اہرام پہلے ہی کی طرح کھڑا ہے اور جدید سائنس اور سائنس دانوں کو حیرانی میں ڈالے ہوئے ہے۔

اہرام کی ساخت و تعمیر سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کام میں کسی اور دنیا کی مخلوق کا تعاون حاصل رہا ہو گا جو کشش ثقل کو توڑ کر اتنے وزنی پتھروں کو آسانی سے حرکت دے سکتی تھی۔ اہرام کے سربستہ رازوں کو جدید سائنس ابھی تک نہیں سمجھ پائی ہے۔ نئی دریافتیں، نئے انکشافات، نئی معلومات، وسیع تحقیقات و مطالعات نے اس اہرام کے بارے میں کئی پختہ نظریات و افکار کو زمین بوس کر رکھا ہے۔ “یورپین اوکلٹ ریسرچ سوسائٹی” کے بانی اور سابق صدر گنتھر روزن برگ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ “سائنس دانوں نے حال ہی میں شی اوپس کا کمپیوٹر سے مطالعہ کیا تو بیشتر ماہرین حیرت و استعجاب کا مجسمہ بن کر رہ گئے۔ فی الحال ہم اس بارے میں قطعی تاریکی میں ہیں کہ یہ اہرام کن لوگوں نے بنائے تھے، کیوں بنائے تھے اور آخر ان کے وجود کا سبب کیا تھا۔” بہرحال تازہ ترین معلومات نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ یہ اہرام قدیم اور انتہائی ترقی یافتہ سائنسی تخلیقات کا مظہر ہیں اور یہ انتہائی ترقی یافتہ سائنس حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش سے ہزاروں سال قبل پوری دنیا پر غالب تھی۔ اہراموں کے معمار کائنات کے بیشتر سربستہ رازوں سے واقف تھے۔ وہ اعلیٰ ترین ریاضی کا ادراک رکھتے تھے۔ دنیا کے جغرافیہ کے بارے میں ان کا علم حیرت انگیز تھا۔ تعمیرِ اہرام کے مطالعہ اور تحقیقات سے حاصل شدہ حقائق میں سے چند ایک کو خلائی سائنس دان ثابت کرنے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں خدشہ ہے کہ ہمیں نصابی کتب اور انسانی تاریخ کو ازسرنو مرتب کرنا پڑے گا۔

قاہرہ سے چند میل جنوب کی جانب واقع غزہ گیزا کا میدان ہے۔ یہ علاقہ جو امریکہ کے کسی بھی اوسط درجے کے فارم سے زیادہ وسیع نہیں ہے بلاشبہ دنیا کی وسیع اور پراسرار ترین جاگیر ہے۔ حیرت انگیز ابوالہول اور دیگر اہرام اس بے آب و گیاہ میدان میں صدیوں سے اسی طرح ایستادہ ہیں۔ اسی ویرانے میں عظمت رفتہ کی انمٹ دلیل کا نمائندہ وہ “شی اوپس کا اہرام” ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس اہرام کو فرعون شی اوپس کے مقبرے کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ شی اوپس حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش سے تین ہزار سال قبل بڑے کروفر سے حکمرانی کرتا تھا۔ اہرام شی اوپس کی محض جسامت ہی کسی سیاح کے لیے انتہائی حیرت و استعجاب کا باعث ہے۔

ایک مصری محقق اور پروفیسر لکھتا ہے کہ “بنیادی طور پر اس اہرام کی بلندی 385 فٹ ہے۔ یہ اہرام تیرہ ایکڑ رقبے پر محیط ہے جو شکاگو یا لندن زیریں کے تقریباً آٹھ مربع بلاکوں کے مساوی ہے۔ ہم نے اندازہ لگایا ہے کہ اس اہرام کی تعمیر میں پتھروں کی پچیس لاکھ سلیں استعمال کی گئی ہیں۔ ان میں سے ہر سل کا وزن تین ٹن سے نوے ٹن تک ہے۔ چند ایک بلاکوں کا وزن چھ سو ٹن تک بھی ہے۔” جب نپولین مصر میں تھا تو اس نے تخمینہ لگوایا تھا کہ صرف اس ایک اہرام میں اس قدر پتھر استعمال ہوئے ہیں کہ ان سے پورے فرانس کے گرد دس فٹ اونچی اور ایک فٹ موٹی دیوار تعمیر کی جا سکتی ہے یا اگر ان پتھر کی سلوں کو ایک فٹ کی سلوں میں کاٹ لیں تو پھر یہ چھوٹے بلاک پوری دنیا کے گرد ایک زنجیر بنانے کے لئے کافی ہوں گے۔” جہاں تک انسانی توانائی اور تعمیراتی سامان کا تعلق ہے تو اس اہرام کو اس صدی کی تیسری دہائی میں امریکہ میں دریائے کولیریڈو پر ہُوور ڈیم کی تعمیر سے پہلے دنیا کی تمام تعمیرات پر برتری حاصل تھی۔ درحقیقت آج کے اس ترقی یافتہ دور میں ایک بھی تعمیراتی کمپنی ایسی نہیں ہے جو ایسا اہرام دوبارہ بنا سکے۔ پروفیسر نے کہا ’’یاد رکھیں! اہرام شی اوپس کے اندر اتنی وسعت ہے کہ اس میں روم، میلان اور فلورنس کے تمام گرجا گھر سما سکتے ہیں اور پھر بھی اتنی گنجائش باقی رہتی ہے کہ نیویارک کی ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ، ویسٹ منسٹر، سینٹ پال کیتھا ڈرل اور انگلش ہا’وس آف پارلیمنٹ کی عمارات بھی اس میں آ سکتی ہیں۔ اس اہرام میں استعمال شدہ تعمیراتی سامان حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش سے لے کر آج تک انگلینڈ میں تعمیر کئے گئے تمام گرجا گھروں کے برابر ہے۔ دنیا بھر کی مشینیں مل کر بھی اس اہرام کو اپنی جگہ سے نہیں ہلا سکتیں ہیں کیونکہ یہ ناقابلِ یقین حد تک بھاری یعنی ساڑھے چھ ملین ٹن (65 لاکھ ٹن) وزنی ہے۔ راہداریوں، تدفینی ہالوں اور غیردریافت شدہ مکانوں اور پوشیدہ کمروں کے علاوہ یہ اہرام مکمل طور پر ٹھوس پتھروں کا بنا ہوا ہے۔

اہرام ہائے مصر اور سائنس کی بے بسی

اس اہرام کی بیرونی سطح کی سلیں ایک دوسرے کے ساتھ اس قدر مہارت سے جڑی ہوئی ہیں کہ ایک عام لوہے کی باریک سوئی بھی اس کے اندر نہیں جا سکتی ہے، سو سو ٹن وزنی پتھر ایسی نفاست سے ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں کہ ان کے درمیان جوڑ کی لائن تلاش کرنا محال ہے۔ ایک عرب تاریخ دان “ابو زید بلخی” کا بیان ہے کہ بیرونی پتھروں پر کسی قدیم زبان کے حروف کندہ تھے جن سے پتا چلتا ہے کہ ان اہراموں کی تعمیر کا زمانہ وہ ہے جب لائر سرطان کے جھرمٹ میں تھا۔ اس حساب سے یہ 83000 سال پہلے کی بات ہے۔ اکثر سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ یہ اہرام فرعون شی اوپس کے زمانے میں ہی تعمیر کیا گیا تھا۔ ان سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ شی اوپس نے اپنی تمام رعایا کو مشقتی (لیبر) کے طور پر غلام بنا رکھا تھا۔

ایک مصری ماہر اہرامیات لکھتا ہے: ’’میرے قدیم آباو’ اجداد نے دستی اوزاروں کی مدد سے پتھر کی کانوں میں سے ان جناتی سلوں کو تراشا اور انہیں وسیع صحرا میں گھسیٹتے ہوئے یہاں تک لائے یا دریاے نیل سے تیراتے ہوئے غزہ تک پہنچایا پھر انہیں ریگستان میں کھینچتے ہوئے اس اہرام کی تعمیر میں استعمال کیا۔” حالانکہ ایسا ہرگز ممکن نہیں ہے۔ قدیم زمانے کے لوگ اس قدر ناقابلِ یقین حد تک درستی کے ساتھ یہ عمارت تعمیر نہیں کر سکتے تھے۔

تاریخی تخمینے کے مطابق فرعون شی اوپس کے دورِ حکومت میں مصر کی آبادی دو کروڑ تھی۔ ذرا اس اہرام کی تعمیر کے سلسلے میں انسانی فن نقل و حمل کے بارے میں سوچئے۔ ان تعمیراتی مسائل پر قابو پانے کے لئے دس لاکھ سے زیادہ افراد کی ضرورت تھی۔ انہیں پتھر کی کانوں اور پھر اس مقام تک لے جانا تھا جہاں اہرام تعمیر ہونا تھا۔ انہیں سپاہیوں اور نگرانوں کی ضرورت تھی۔ ان کے پاس کھانے پینے کا کیا بندوبست تھا؟ وہ لوگ رات کو کہاں سوتے تھے؟ یہ تو ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ رات بھر صحرا ہی میں گزارتے ہوں۔ پھر وہاں ہزاروں مزدوروں اور مستریوں کے علاوہ ایسے انجینئروں اور فورمینوں کے ایک عظیم گروپ کی بھی ضرورت تھی جو اس پورے پروجیکٹ کی نگرانی کر سکتے۔

انسانی تاریخ کا کوئی دور کسی دوسرے قدیم یا جدید دور سے زیادہ اہم نہیں ہوتا۔ اہرام مصر اس حقیقت کی واضح مثال ہیں انسان کے لیئے کوئی بھی بڑی تعمیر یا کوئی بھی دوسرا سائنسی عجوبہ سرانجام دینا ناممکن نہیں ہے۔ انسانی تہذیب ہر دور کی انسانی جدوجہد اور تخلیقی صلاحیتوں کا نتیجہ ہے۔ انسانی محنت اور ترقی کا یہ سلسلہ آج بھی جاری یے اور آئیندہ بھی ہمیشہ جاری رہے گا۔

Title Image by Eddy Daoud from Pixabay

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

شارق رشید کی اردو "حمد" تجزیاتی مطالعہ

جمعہ اپریل 5 , 2024
اردو زبان میں حمدیہ اظہار کے وسیع منظر نامے میں چند حمدگو شعرا کی حمدیہ شاعری اتنی گہرائی اور توجہ سے لکھی گئی ہیں کہ بے اختیار
شارق رشید کی اردو “حمد” تجزیاتی مطالعہ

مزید دلچسپ تحریریں