نظامِ تعلیم کی زبوں حالی۔ ایک المیہ
عبدالرؤف ملک کمالیہ
تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لیے انتہائی ضروری چیز ہے۔ یہ وہ بنیاد ہے جو کسی بھی قوم یا معاشرے کی ترقی کی ضامن ہے۔ قوموں کی ترقی اور زوال کا راز تعلیم میں ہی پنہاں ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کا مطلب صرف سکول کالج یا کسی بڑی یونی ورسٹی سے کوئی ڈگری لینا نہیں بلکہ اس کا مطلب اچھی تربیت پانا اور دوسروں کے حقوق و فرائض کا خیال رکھنا ہے۔ تعلیم وہ زیور ہے جو انسان کے کردار اور اس کی شخصیت کو سنوارتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہذب اور ترقی یافتہ اقوام نے ہمیشہ تعلیم کو اولین ترجیح دی ہے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے تعلیم ایک بہت زیادہ توجہ طلب مسئلہ ہے۔ آٹھ دہائیاں گزرنے کے باوجود پاکستان میں محکمہ تعلیم آج بھی ایک تجربہ گاہ بنا ہوا ہے۔ ہر آنے والی حکومت اور اس کے نمائندے اس محکمہ کو اپنے انداز سے چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی نصاب تعلیم بدلا جاتا ہے تو کبھی پورے کا پورا تعلیمی نظام ہی تبدیل کردیا جاتا ہے۔ کبھی تعلیمی اداروں کا انتظام نجی اداروں کے حوالے کر دیا جاتا ہے تو کبھی مختلف این۔جی اوز کے ساتھ شراکت داری کی جاتی ہے۔ مختلف قسم کے پالیسی ساز بیرون ملک سے آتے ہیں اور یورپی اقوام کی بنائی پالیسیاں ہمارے محکمہ تعلیم پر مسلط کرکے چلتے بنتے ہیں۔ یہ کوئی نہیں سوچتا کہ جب تعلیمی پالیسی زمینی حقائق کو جانے بغیر بنائی جائے اور ایئرکنڈینشنڈ کمروں میں بیٹھ کر صرف کاغذی دعووں اور تقریروں تک محدود کردی جائے تو پھر تعلیمی ادارے ناکام اور تعلیمی ڈھانچہ ریت کا ڈھیر بن کے رہ جاتا ہے۔ روز روز کے ان تجربات اور پالیسیوں کی زد میں صرف بچے اور اساتذہ ہی نہیں آتے بلکہ ان سے پوری قوم اور پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔ کتنی حیران کن بات ہے کہ پالیسی بناتے وقت ان اساتذہ سے مشاورت تک نہیں کی جاتی جو بدترین مہنگائی اور غربت سے پِسے معاشرے کی رگ رگ سے واقف ہیں اور جنہوں نے بچوں کو پڑھانا ہے۔ ہمارے نظامِ تعلیم میں نہ کوئی تسلسل ہے نہ کوئی ویژن اور نہ ہی زمینی حقائق کو سمجھنے کی کبھی کوشش کی گئی ہے۔ جو بھی آیا تعلیم پر تجربہ کیا اور رخصت ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک ہم نہ تو معیارِ تعلیم بہتر کر پائے ہیں اور نہ ہی شرح خواندگی میں خاطرخواہ اضافہ کر پائے ہیں۔
تعلیم ہر پاکستانی کا بنیادی حق ہے۔ ہر غریب یا امیر کو تعلیم دینا ریاست کی ذمہ داری اور قومی ترقی کی پہلی ترجیح ہے۔ موجودہ حکومت نے تعلیمی میدان میں بہت سی تبدیلیاں کی ہیں جو بظاہر اصلاحاتی نظر آتی ہیں لیکن مستقبل میں ان کے نتائج تسلی بخش نظر نہیں آرہے۔ ان میں سب سے بڑی تبدیلی سرکاری سکولوں کی آؤٹ سورسنگ یا نجکاری ہے۔ پہلے مرحلے میں پنجاب حکومت محکمہ تعلیم کے تقریباً 14000 سرکاری سکولوں کو مختلف این۔جی اوز کے حوالے کرچکی ہے اور مزید ہزاروں کی تعداد میں سکولوں کو پرائیویٹ کرنے کا عمل فیز ٹو کے نام سے جاری ہے۔ جو ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ پرائیویٹ ہونے والے یہ ایسے سکول ہیں جہاں اساتذہ کی کمی ہے۔ بدقسمتی سے ہماری قسمت کے فیصلے کرنے والوں نے اساتذہ کی کمی پوری کرکے ان سکولوں کی کارکردگی بہتر کرنے کی بجائے ان کو ایک عضوِ معطل سمجھ کے کاٹ کے پھینک دیا ہے۔ انتہائی قیمتی رقبہ، عمارات اور کروڑوں روپے کے دیگر سازوسامان پر مشتمل سرکاری سکولوں کو یوں ٹھیکیداری نظام کے تحت کھنڈرات میں تبدیل کردینا اور اصلاحات کے نام پر تجربات کی بھینٹ چڑھا دینا ملک اور قوم دونوں کےلیے نقصان دہ ہے۔ سکولوں کو پرائیویٹ کرنے سے تعلیم ایک خدمت نہیں بلکہ محض ایک کاروبار بن کے رہ جائے گی۔ تعلیم کو کاروبار بنانے کا مطلب صرف سرکاری اداروں کو فروخت کرنا ہی نہیں بلکہ پوری قوم کا مستقبل فروخت کرنا ہے۔
تعلیم جو انسان کو انسانی اقدار سے روشناس کرواتی ہے اب ایک کاروبار بن کے رہ گئی ہے جس کی ترجیحات ہمارے بچوں اور نوجوانوں کا مستقبل نہیں بلکہ روپیہ پیسہ اور نفع و نقصان ہے۔ وہ ادارے جہاں کبھی تعلیم کو عبادت سمجھا جاتا تھا آج وہ منافع، فیس اور سفارش کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔سکول، کالج اور یونی ورسٹیاں اب علم کا گہوارا نہیں بلکہ سرمایہ داروں کے لیے منافع کمانے اور دولت اکٹھی کرنے کی فیکٹریاں بن چکی ہیں۔ سرکاری سکولوں میں صرف غریب اور سفید پوش طبقہ کے بچے ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ ایلیٹ کلاس کے بچے پہلے ہی مہنگے اداروں میں پڑھتے ہیں۔ اب جب کہ سرکاری سکول بھی پرائیویٹ کیے جارہے ہیں تو ان سکولوں کے اخراجات روزانہ چند سو روپے کمانے والا مزدور ہرگز ادا نہیں کرسکے گا۔ نتیجہ کے طور غریب اور مزدور کے بچوں سے رہی سہی تعلیم کا حق بھی چِھن کر رہ جائے گا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب تعلیم ایک بنیادی حق کی بجائے منافع کمانے کا ذریعہ بن جائے تو پھر علم کا نور صرف اُن گھروں تک محدود رہ جاتا ہے جو بھاری فیس ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہوں۔ تعلیم کی نجکاری کا یہی سب سے بڑا المیہ ہے کہ وہ قوم کو ذہنی، معاشی اور سماجی طبقات میں تقسیم کر دیتی ہے۔ اس سے نہ صرف غریب بچوں کے لیے معیاری تعلیم کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو رہا ہے بلکہ ہزاروں اساتذہ کے روزگار کو بھی مستقل خطرہ لاحق ہے۔
ہمارے تعلیمی نظام کی زبوں حالی کی ایک بڑی وجہ تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے مناسب روزگار کا نہ ہونا بھی ہے۔ موجودہ حکومت نے اعلان کردیا ہے کہ گورنمنٹ اب کسی قسم کی نوکریاں نہیں دے سکتی۔ اس اعلان سے ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں گہری تشویش اور شدید مایوسی دیکھنے میں آئی ہے۔ غریب نوجوان جن کے پاس کاروبار کےلیے سرمایہ نہیں ہوتا ان کے لیے سرکاری نوکری ہی روزی کمانے اور خاندان کی کفالت کرنے کی آخری امید ہوتی ہے۔ اس اعلان سے ان کی یہ امید بھی دم توڑ چکی ہے۔ والدین اپنے بچوں کو پڑھانے کی بجائے کام پہ لگانے اور روزی کمانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اتنے عالی شان کالج اور یونی ورسٹیاں ویران ہوچکی ہیں۔
حکومتِ وقت سے گزارش ہے کہ اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرے۔ اساتذہ اور دیگر ملازمین کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ پینشن رولز میں کی گئی ظالمانہ ترمیم واپس لے تاکہ اساتذہ کا مستقبل محفوظ ہو اور وہ یک سو ہو کر اپنے فرائض منصبی ادا کرسکیں۔ تعلیم کا بجٹ قومی بجٹ کے 1.7 فی صد سے بڑھا کر 4 فی صد کیا جائے جو یونیسکو اور بین الاقوامی معیار سے مطابقت رکھتا ہے۔ سرکاری سکولوں کی نجکاری کی بجائے ان کو بنیادی سہولتیں مہیا کرے تاکہ بچے اور اساتذہ تعلیمی میدان میں بھرپور کارکردگی دکھا سکیں۔ اگر ان سکولوں سے ترقی یافتہ اقوام جیسے نتائج کی توقعات رکھی جارہی ہیں تو ان سکولوں کو ویسی ہی سہولیات بھی فراہم کی جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اکثر سکول چاردیواری، مطلوبہ عمارت، واش روم حتٰی کہ اساتذہ سے بھی محروم ہیں۔ ایسے سکولوں کو آؤٹ سورس کرنے کی بجائے ان کی یہ محرومیاں دور کی جائیں تو ان شاءالله مطلوبہ نتائج ضرور حاصل ہوں گے۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری قوم ترقی کرے اور پاکستان کی باگ ڈور قابل اور محنتی لوگوں کے ہاتھ میں ہو تو ہمیں تعلیمی عمل کو ایک نفع بخش کاروبار کی بجائے ایک عبادت اور عوامی خدمت کا درجہ دینا ہوگا۔
Title Image by Sabrina Eickhoff from Pixabay

نام: عبدالرؤف ملک (کمالیہ)
تعلیم: ایم۔ اے اردو، ایم اے اسلامیات، ایم۔ ایڈ
پیشہ: پیشے کے لحاظ سے میں بطورِ ٹیچر سرکاری سکول میں خدمات سرانجام دے رہا ہوں۔
ادبی خدمات: تقریباً دس قومی اخبارات میں کالم لکھتا ہوں جن میں پہچانِ پاکستان، روزنامہ طالبِ نظر، کرائم میل نیوز اور روزنامہ راہنما قابل ذکر ہیں۔
اعزازات: برونز میڈل (ایجوکیشن بورڈ فیصل آباد BISE)
طالبِ نظر ادیب اثاثہ پاکستان ایوارڈ 2024
پہچان پاکستان ادبی ایوارڈ 2024
میرا ادب میری پہچان ایوارڈ 2025
روزنامہ طالبِ نظر کی طرف سے اعزازی میڈل
رائٹر ممبر EEFP (ایکسپرٹ ایمرجنگ فورس پاکستان)
اور بہت سے دیگر اداروں اور تنظیموں کی طرف سے بہت سے اعزازی سرٹیفکیٹ اور تعریفی اسناد
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |