بہرائچ کے پہلے اردو شاعر: مولانا شاہ نعیم اللہ علوی بہرائچیؒ
جنید احمد نور ،بہرائچ
9648176721
"سرزمینِ سید سالار مسعود غازیؒ، یعنی بہرائچ، قدیم زمانے سے ہی علم و ادب کا گہوارہ رہی ہے اور آج بھی اس کا ایک اہم مقام علمی دنیا میں ۔ تاریخ میں سرزمین بہرائچ کی اہمیت مشہور و معروف شاعر ڈاکٹر سعیدؔ عارفی صاحب مرحوم کے ان الفاظوں سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ بہرائچ کی تاریخ میں بھی ایسے عہد اور ادوار کی کمی نہیں ہے جنہیں ہم تاریخ کا ذریں عہد کہہ سکتے ہیں اور غالباً یہی وجہ ہے کہ موجودہ عہد میں تما م تر عصری صنعتی ترقی سے دور اور محروم ہونے کے باوجود جب ہم اس کی گزشتہ زندگی کی تاریخ پر نگاہ ڈالتےہیں تو اس کا شمار ہندوستان کے ان اہم شہروں میں کرنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں جو تاریخی اعتبار سے بے حد اہمیت کے حامل ہیں۔‘‘
علم وادب سے بہرائچ کا رشتہ قدیم دور سے رہاہے ،اس بارے میں ڈاکٹر سعید عارفی ان الفاظوں میں رقم کرتے ہیں کہ ’’علمی اور ادبی اعتبار سے بہرائچ کو ہر عہد میں فوقیت حاصل رہی ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہیون سانگ، فاہیان اور ابن بطوطہ جیسے عظیم سیاحوں نے اپنے سفرناموں میں اس کا ذکر کیا ہے۔ بے شمار تاریخی کتب میں اس کی اہمیت کا ذکرموجود ہے۔ سنسکرت کے عظیم شاعر اور بالمیکی رامائن کے خالق رشی بالمیکی کے مولد ہونے کا شرف بہرائچ کے ٹنڈوا گاؤں کو حاصل ہے۔مہا کوی تلسی داس نے بہرائچ کی عظمت و اہمیت کااعتراف اپنی دوہا ولی میں بھی کیاہے ۔‘‘
اسی طرح بہرائچ میں فارسی ادب کی تاریخ بھی بہت قدیم ہے اس کا پہلا ثبوت حضرت سید افضل الدین ابو جعفر امیرماہ بہرائچیؒ کی مشہورزمانہ تصینف ’’المطلوب فی عشق المحبوب‘ ‘ جو قلمی شکل میں آج ہندوستان اور پاکستان میں موجود ہیں (الحمد للہ ایک نقل راقم الحروف کے پاس بھی محفوظ ہیں واحد ہندوستانی نسخے کی )۔ حضرت امیرماہ بہرائچی کے صاحب زادےجو اپنے میں کمالات میں ممتاز تھے کہ اور کسی زمانہ میں سید امیر ماہ بیمار پڑے تو بیٹے نے والد کی زندگی سے ناامید ہو کر بیماری سلب کر کے اپنے اوپر اوڑھ لی اور ’’جان در مشاہدۂ حق تسلیم کرد‘‘ اور سید امیر ماہ صاحب کو تو صحت ہو گئی ،مگر غمگین باپ کو لڑکے کی استعداد باطنی کا احساس ہوا اور فکر مند رہنے لگے، اتفاقاً ایک دن ان کی قبر پر گیے تو دیکھا کہ ایک مجاور کی ہتھیلی پر ’’بخط سبز‘‘ یہ شعر لکھا تھا، جب تک وہ زندہ رہا مٹا نہیں؎
بگو اے مرغ زیرک حمد مولیٰ
کہ جانِ تاج مہ بر عرش بروند
اسی طرح فارسی کی مشہور درسی کتاب مامقیماں کے مصنف کی جائے مدفن بھی یہی شہر بہرائچ ہے۔ ضلع بہرائچ میں اردو ادب کی تاریخ تقریباً ۳۰۰ سال قدیم ہے۔راقم کی تحقیق کے مطابق، اردو ادب کے اہم ستون حضرت مرزا مظہرؔ جان جاناں شہید ؒ کے شاگرد رشید و خلیفہ خاص ،پہلے سوانح نگار حضرت مولانا شاہ نعیم اللہ صاحب بہرائچیؒ کوبہرائچ کا پہلا اردو شاعر ہونے کا شرف حاصل ہے اور اس سے پہلے بہرائچ کے کسی شاعر کا کوئی کلام یا شعر دست اردو زبان میں دست یا ب نہیں۔شاہ نعیم اللہ بہرائچی کا کلام آج بھی آپ کی خانقاہ نعیمیہ کے کتب خانہ میں محفوظ ہیں۔
سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ مظہریہ کی ایک عظیم خانقاہ ’’خانقاہ نعیمیہ بہرائچ‘‘ کے بانی حضرت مولانا شاہ نعیم اللہؔ بہرائچی کی پیدائش ۱۱۵۳ھ مطابق ۱۷۴۰ء میں ہوئی۔ آپ کی جائے پیدائش موضع بھدوانی قصبہ فخرپورضلع بہرائچ ہے۔آپ کے والد کا نام غلام قطب الدین تھا۔
حضرت مولانا شاہ نعیم اللہؒ صاحب علوی سادات تھے۔آپ کے مورثِ اعلی خواجہ عماد خلجی ہمراہ سید سالار مسعود غازیؒ کے ہندستان آئے تھے اور بارہ بنکی کے قصبہ کنتور میں جنگ میں جام شہادت نوش فرمایا تھا۔ شاہ نعیم اللہ نے سات سال کی عمر میں شیخ محمد روشن بہرائچی کی خدمت رسم بسم اللہ ادا کی۔ رسم بسم اللہ کے ایک سال ہی میں آپ نے قرآن مجید ختم فرما کر درسیہ فارسیہ کی طرف توجہ فرمائی اور شہر بہرائچ کے اساتذہ سے مختصرات کی تعلیم حاصل کی۔اس کے بعد علوم عربیہ کی تحصیل کا شوق ہوا اور اس کو حاصل کرنے کے لیے لکھنؤ ،شاہ جہاں پور ،بریلی ،مرادآباد ،دہلی کے متعدد سفر کیا اور علوم ظاہری حاصل کیا۔علوم ظاہری سے فراغت کے بعد علم باطن حاصل کرنے کا شوق ہوا او ر ۱۱۸۶ھ لکھنؤ میں مرزا مظہر جان جاناںؒ کے خلیفہ محمد جمیل نقشبندیؒ سے فیض باطنی حاصل کیا اور طر یقئہ نقشبندیہ مجدیہ کے اذکار و اشغال سیکھے۔بعد میں ۱۱۸۹ ھ مطابق۱۷۷۵ء میں دہلی گیے اور مرزا مظہر جان جاناں کی خدمت میں پہنچ کر بیعت ہونے کا شرف حاصل کیا اور چار سال تک مرزا مظہر جان جاناں کی خدمت میں رہے اور خرقئہ خلافت و طر یقئہ نقشبندیہ،قادریہ چشتیہ اور سہروردیہ کی خلافت اور اجازت حاصل کر کے ۱۱۳۹ھ مطابق ۱۷۷۹ء میں بہرائچ واپس آئے۔ حضرت مرزا مظہر جان جاناں آپ کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ’’ تمہاری (شاہ نعیم اللہ بہرائچی) چار سال کی صحبت دوسروں کی بارہ سال کی صحبت کے برابر ہے۔ ‘‘شاہ نعیم اللہ بہرائچی کو شاہ غلام علی دہلویؒ نے جامع معقول و منقول کہا ہے۔
مولانامولوی محمد حسن نقشبندی مجددی لکھتے ہیں کہ حضرت مولوی نعیم اللہ ساکن بہرائچ حضرت مرزا صاحب قدس سرہ خلفاء نام دار میں سے ہیں۔آپ جامع معقول و منقول تھے۔چار سال تک حضرت مرزا صاحب کی صحبت میں رہے۔حضرت مرزا صاحب فرمایا کرتے تھے کہ تمہاری چار سال کی صحبت اور وں کی بارہ سال کی صحبت کے برابر ہے۔حضرت مرزا صاحب قبلہ آپ کے حال پر نہایت عنایت فرماتے اور فرماتے کہ تمہارے نور نسبت اور فیض صحبت سے عالم منور ہوگا۔پس ایسا ہی ہوا۔حضرت نے بروقت عطاء اجازت و خلافت ہر سہ جلد مکتوبات قدسی آیات حضرت امام ربانی مجدد الف ثانیؒ بھی ان کو عطا فرمائی تھیں۔اور فرمایا کہ دولت یعنی مکتوبات شریف جو میں نے تم کو دئیے کسی مرید کو نہیں دئیے۔فرمایا کہ مشائخ طریقت جو اپنے مریدوں کو خلعت خلافت دیا کرتے ہیں۔جو میں نے تم کو دیا ہے۔یہ سب میں بہتر ہے۔اس نعمت کا شکر اور قدر کرنا۔یہ تمہارے واسطے ظاہر اور باطن کا ایک خزانہ ہے۔اور اگر طالب جمع ہوا کریں۔اور فرصت ہواکرے تو بعد عصر کے سب کے سامنے پڑھا کرنا اور بجائے مرشد اور مربی کے ہے۔آپ اخلاقِ حسنہ سے آراستہ تھے، اور صبر و توکل کے ساتھ اپنے اوقات یادِ خدا میں بسر کرتے تھے۔
آخر میں مولانا مولوی محمد حسن نقشبندی مجددی نے لکھا ہے کہ راقم الحروف نے آپ کے مزار کی زیارت کی ہے۔
سید ظفر احسن بہرائچی آپ کے خلفا ء کے بارے میں لکھتے ہیں : شاہ نعیم اللہ بہرائچی سلسلسہ نقشبندیہ مجددیہ مظہریہ کے مشہور بزرگ ہیں۔آپ کے خلفاء کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ شاہ مراداللہ فاروقی تھانیسری لکھنویؒ(مزار مراد علی لین ،اکھاڑہ کریم اللہ شاہ متصل رائل ہوٹل (باپو بھون) لکھنؤ میں ہے۔ مولوی محمد حسن کٹکیؒ(مزار مولوی محلہ پوسٹ مہاسنگھ پور ضلع کٹک صوبہ اڑیسہ) ، مولوی کرامت اللہؒ (مزار درگاہ پیر جلیل لکھنؤ)، مولوی نور محمد ؒ(مزار درگاہ پیر جلیل لکھنؤ)، حاجی سید احمد علی ؒ(مزار مسجد ٹاٹ شاہ چوک فیض آباد ادوھ) ، سید محمد دوستؒ (مزار مسجد ٹاٹ شاہ چوک فیض آباد ادوھ) ، میرمحمد ماہ ؒ (حضرت میر محمد ماہؒ خاندانِ حضرت حضرت امیر ماہ بہرائچیؒ کے ایک فرد تھے۔آپ کے خاندان کے بعض افراد زمین داری بچانے کے لیے مذہب امامیہ کے پیروگار ہو گیے تھے۔) وغیرہ۔
شاہ نعیم اللہ بہرائچیؒ نے مرزا مظہر جان جاناں کے حالات پر دو کتابیں لکھی ہیں۔بشارات مظہریہ اور معمولات مظہریہ ان میں مرزا مظہر جان جاناں کے خاندانی اور ذاتی حالات اور مشغلوں کے علاوہ مرزا مظہر جان جاناں کے معمولات کا تفصیل سے ذکر ہے۔ بشارات مظہریہ قلمی اور ضخیم ہے اور ۲۱۰؍ اوراق پر مشتمل ہے اس کا ایک نسخہ انڈیا آفس میوزیم (لندن) میں محفوظ ہے ،جب کہ دو نسخہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں محفوظ ہیں۔ معمولات مظہریہ چھپ چکی ہے۔شاہ نعیم اللہ بہرائچیؒ نے مرزا مظہر جان جاناں صاحب کے مکتوبات کا ایک انتخاب بھی رقعات کرامت سعات کے نام سے تیار کیا تھا جو شائع ہو چکا ہے۔ سید ظفر احسن بہرائچی اپنی کتاب آثار حضرت مرزا مظہر جان جاناں شہیدؒ میں صفحہ ۳۲۲ پر لکھتے ہیں کہ شاہ نعیم اللہ بہرائچی نے کئی کتابیں تالیف کی جو اس طرح ہے۔
(۱)رسالہ ادعیہ ماثورہ(عربی/ فارسی)(۲)بشارات مظہریہ (نسخہ انڈیا آفس میوزیم (لندن) میں محفوظ)(۳) مثنوی در مدح حضرت مظہرؒ و خلفائے ایشاں(اردو غیر مطبوعہ)(۴)معمولات مظہریہ (مطبوعہ)معمولات مظہریہ (۵)مثنوی درمدح سلاسل طریقئہ نقشبندیہ مجددیہ(اردوغیر مطبوعہ)(۶)رسالہ دراحوال حضرت مرزا مظہر(۷)متفرق اشعار بہ زبان اردو و فارسی(۸)مکتوبات مرزامظہرجانِ جاناں(۹)شرح سفرالسعادت (۱۰)رقعات مرزا مظہر حصہ اول (مطبوعہ)(۱۱)حاشیہ رسالہ میر زاہد (۱۲)رقعات کرامت ساعت حصہ اول(مطبوعہ)(۱۳)حاشیہ رسالہ ملاجلال (۱۴) خودنوشت سوانح حیات(احوال نعیم اللہ بہرائچی) (غیر مطبوعہ)(۱۵)خلاصئہ وصیت ہائے خاصہ از کلمات اکابر ثلثہ (۱۶) مجموعئہ مکاتیب قاضی ثناء اللہ پان یپتی(مطبوعہ)(۱۷)خلاصئہ بیاض حضرت حاجی محمدافضل محدث سیالکوٹی ( عربی/ فارسی) (۱۸)رسالہ انفاس الاکابر (در خصائص طریقئہ نقشبندیہ) (مطبوعہ(۱۹)خطبات جمعہ (عربی) (۲۰)رسالہ انوراالضمائر(در تحیقیق درویشی ومعنی قیومیت (مطبوعہ) (۲۱) وصیت نامہ (۲۲)رسالہ یقول الحق (در رد اعتراضات شیخ عبد الحق محدث دہلوی بر کلام حضرت مجدد)(۲۳)مکاتیب شریفہ(۲۴)رسالہ سلسلتہ الذہب (در سلوک طر یقئہ نقشبندیہ مجددیہ) (۲۵)دیباچہ(عربی) بر کتاب شیخ محمد عابد سنامی(۲۶)رسالہ المعصومہ
پروفیسر محمد اقبال مجددی نے آپ کی تصنیف کے یہ نام لکھے ہیں (۱)بشارات مظہریہ(فارسی نثر)،(۲)معمولات مظہریہ (فارسی نثر)(۳)انفاس الاکابر (فارسی نثر)(۴)انوار الضمائر،(۵)رسالہ شمسیہ مظہریہ(۶)رقعات کرامات سعادت مرزا مظہر(فارسی نثر) (۷) رسالہ در بیان نسبِ خود۔(۶۲)
یہاں پر آپ کی تصنیف کردہ کتابوں کے بارے میں اختلاف ہے۔بہ قول پروفیسر اقبال مجددی کے شاہ نعیم اللہ بہرائچی ؒکی صرف سات (7) کتابیں ہے۔جب کہ خانقاہ شاہ نعیم اللہ بہرائچی ؒکے سجادہ نشین حضرت سید ظفر احسن بہرائچی نے اپنی تصنیف میں صفحہ ۳۲۳ پر شاہ نعیم اللہ صاحب کی تصانیف کی تعداد ۲۶ لکھی ہے۔جن میں سے کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔(واللہ اعلم)۔
مشہور شاعر اور درگاہ شاہ مراد اللہ صاحب فاروقیؒ تھانیسری ثم لکھنوی کے نگراں مرحوم بشیر ؔؔفاروقی لکھنوی ’گلزارِ مراد‘صفحہ ۸ پر آپ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’شاہ نعیم اللہ بہرائچیؒ کے دست مبارکہ کا تحریر کردہ قرآن مجید بھوپال میں حضرت مولانا منظور احمد خاں صاحب جو حضرت مولانا شاہ فضل احمد رائے پوری کے عزیز ہیں کے پاس موجود ہے۔
شاہ نعیم اللہ صاحب کے استاذ مشہور صوفی بزرگ اور اردو ادب کے عظیم شاعر حضرت مرزا مظہر جان جاناں شہید ؒ تھے۔خانقاہ نعیمیہ کے سجادہ نشین حضرت سید ظفر احسن بہرائچی صاحب لکھتے ہیں:۔”خانقاہ حضرت مرزا مظہر جان جاناں میں جہاں ایک طرف متصوّفانہ تعلیم وتربیت کا سلسلہ جاری تھا ،وہیں دوسری طرف شعر وشاعری کے بھی چرچے ہوا کرتے تھے۔اس شغل میں قاضی ثنا ء اللہ پانی پتی،ؒشاہ نعیم اللہ بہرائچی،شاہ غلام علی دہلوی ؒ،مولوی ثناء اللہ سنبھلیؒ،مولوی غلام یحیٰ بہاری ؒ،انعام اللہ خاں یقینؔ،خواجہ احسن اللہ بیانؔ، محمد فقیہ دردمندؔ، ہیبت اللہ خاں قلی حسرتؔپیش و پیش تھے ۔“
حضرت شاہ نعیم اللہ بہرائچیؒ نے اپنے چار سالہ قیام دہلی کے دوران اپنے پیر ومرشد حضرت مرزا مظہر ؔؔجان جاناں سے تصوف کے رموزو نکات کے ساتھ شعر گوئی کی بھی تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔آپ نے اردو میں متعدد مثنویاں کہیں ہیں۔حضرت امام ربانی مجدد الف ثانیؒ اور حضرت شاہ محمد عاقل سبزپوش چشتی ؒ کے قادریہ شجرہ کو فارسی میں نظم کیا ہے۔
’’حضرت شاہ نعیم اللہ بہرائچی رحمتہ اللہ علیہ نے بہرائچ میں خانقاہ اور مسجد کے علاوہ حضرت مرز ا مظہر ؒ کے حکم سے لکھنؤ کے ایک محلہ بنگالی ٹولہ (بنگالی باغ) میں بھی ۱۱۹۴ھ میں ایک خانقاہ اور مسجد تعمیر فرمائی تھی۔اس بارے میں شاہ صاحب لکھتے ہیں:
’’فقیر نےآں حضرت کی شہادت کے سال میں بنگالی باغ میں ایک مکان(خانقاہ)۔۔۔ بنایا تھا۔جب اُس میں سکونت کا ارادہ کیا ،آں حضرت کو خواب میں دیکھا کہ فرماتے ہیں کوئی حاضر ہے؟ میں نے عرض کیا،میں حاضر ہوں،فرمایا ہمارے پاس آؤ جب میں آں حضرت کے سامنے پہنچا،اچانک لعاب دہن اپنے دونوں ہاتھوں میں پُر کرکے میرے سر پر اس طرح ڈالا کہ تمہارے اعضاء پر پہنچ گیاحتیٰ کہ اس کے اکثر قطرات زمین پر بکھر گیے اس کے بعد فرمایا کہ اپنے مکان پر جاؤ،میں نے اس کی تعبیر لوگوں میں اپنے فیض و ارشاد کی کثرت سے لی اور ایسا ہی ہوا۔
دوسری مرتبہ اسی مکان میں خواب میں فرمایا کہ اس مکان کا نام ’’ مظہر آباد‘‘ رکھیں ،جب میں نے اس میں لفظ ’’ما‘‘ بڑھایا تو تاریخ نکلی ،لہذا یہ قطعہ تضمین کیا۔
قطعۂ تاریخ مسجد و خانقاہ لکھنؤ
از :شاہ نعیم اللہ بہرائچیؒ
شُد منور مسجد و خانہ زنور
چوں بحکم حق بنا کردیم ما
چوں نمودم فکر تاریخش زغیب
گفت ہاتف = مظہر آباد ما
۱۱۹۴ھ
(بشارات مظہریہ ورق ۹۲ قلمی)
نمونۂ کلام
اپنے پیر و مرشدحضرت مرزا مظہر جان جاناں کی مدح میں میں لکھتے ہیں:
در مدح مرشد
حضرت مرزا مظہرؔ جان جاناں شہید دہلویؒ
زہے مرشد پاک روشن ضمیر
کہ کشف وکرامت میں ہے بے نظیر
کیا مظہرشاہ علی جناب
کہ نور ولایت کا ہے آفتاب
کیا شمس دیں و حبیب الہٰ
کہ عرش محبت کا مہر و ماہ
پھر اس کو شہادت کا درجہ دیا
بہ اعلیٰ مقام اس کو داخل کیا
کمالات اس کے ہیں معارف اصول
کہ ہے اتباع مجسم رسول
کمال نبوت کے سارے مقام
بہ نور اتباع کے کئے سب تمام
اسی نور سے فیض ظاہر ہوا
کمالات باطن میں مہرہوا
عجب مظہر پیشوا جانِ جاں
بہ ظاہر جو شمس وبہ باطن جو جاں
وہ ہے میرزا جانِ جاناں ولی
جگر گوشہ و نور چشم علیؓ
عجب فیض و تاثیر صحبت میں ہے
جو ہر سو وہاں غرق نسبت میں ہے
تو کر شکر حق کا نعیم اللہؔ
ملا مرشد پاک مظہر سا شاہ
مثنوی(اردو ،قلمی)
الہٰی مریدوں یہ سر پناہ
امان و سلامت میں رکھ دیرگاہ
میرا رہنما مظہر ذوالجلال
خدا رکھ مجھے اس کے پاؤں میں ڈال
٭٭٭
خدا آرزو دل کی حاصل کرے
مجھے فیض اسکے میں شامل کرے
کرے عاصیوں کی دعا مستجات
کہ ہو اپنے مقصود سے کامیاب
مولانا شاہ نعیم اللہ بہرائچی ؒ سلسلہ ٔ نقشبندیہ مجددیہ مظہریہ کے ممتاز بزرگوں میں سے ایک تھے ۔آپ کی خانقاہ نعیمیہ بہرائچ اور لکھنؤ واقع خانقاہ ہمیشہ آپ کے مریدین اور وابستگان سلسلہ سے منور رہی ۔ آپ کے خلفاء کی ایک کثیر تعداد ملک کے مختلف شہروں میں ایک وقت میں موجود تھی جن سے سلسلہ کی نشر واشاعت ہوئی ۔ اس بارے میں خانقاہ نعیمیہ بہرائچ کے موجودہ سجادہ نشین حضرت مولاناسید ظفر احسن بہرائچی لکھتے ہیں :
’’آپ کے خلفاء کی تعداد بہت کثیر تھی۔ جن کے نام معلوم ہو سکے وہ اس طرح ہیں:
(۱)شاہ مراداللہ فاروقی تھانیسری لکھنویؒ(مزار مراد علی لین ،اکھاڑہ کریم اللہ شاہ متصل رائل ہوٹل (باپو بھون) لکھنؤ میں ہے۔) (۲)مولوی محمد حسن کٹکیؒ(مزار مولوی محلہ پوسٹ مہاسنگھ پور ضلع کٹک صوبہ اڑیسہ) (۳)مولوی کرامت اللہؒ (مزار درگاہ پیر جلیل لکھنؤ)(۴) مولوی نور محمد ؒ(مزار درگاہ پیر جلیل لکھنؤ)(۵) مولوی بہاءالدین(۶)حاجی سید احمد علی ؒ(مزار مسجد ٹاٹ شاہ چوک فیض آباد ادوھ) (۷)سید محمد دوستؒ (مزار مسجد ٹاٹ شاہ چوک فیض آباد ادوھ) (۸) میرمحمد ماہؒ (میر محمد ماہؒ خاندانِ حضرت امیر ماہ بہرائچی ؒ کے ایک ذی علم فرد تھے آپ نے لکھنؤ کے ایک محلہ مکنیا ٹولہ (قندھاری بازار کے پاس ایک محلہ تھا) میں ۱۱۸۸ھ(۱۷۷۴-۱۷۷۵ء)میں ایک مسجد تعمیر کرائی تھی جو مسجد محمد ماہ کے نام سے مشہور تھی۔اسی مسجد کے صحن میں شاہ محمد تقی کا مزار تھا۔)(۹) شاہ محمد تقی (۱۰) مولوی جان محمد (۱۱) مولوی خدا بخش (۱۲) میرمحمد امین (۱۳)سید حسن شاہ (۱۴)شیخ محمدیاسین (۱۵)شیخ محمد حیات(۱۶) شاہ محمد حسن (۱۷) اسد علی (۱۸) میر بندہ علی خاں
شاہ نعیم اللہ بہرائچی ؒ کے کثیر تعداد میں شاگرد بھی تھے ۔ اس سلسلہ میں سید ظفر احسن بہرائچی بہ حوالہ مکتوب(قلمی) قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ لکھتے ہیں:
’’آل اولاد و شاگردان و مریدان مولوی نعیم اللہ صاحب ‘‘تلاش بسیار کے باوجود چند حضرات کے نام کا پتہ چل سکا جو یہ ہیں۔
(۱)شاہ پیر غلام لکھنوی (۲) خواہرزادہ حضرت شاہ محمد عاقل سبزپوش چشتی کاکورویؒ(۲)شاہ بدر علی لکھنوی(۳) خواہرزادہ حضرت شاہ محمد عاقل سبز پوش چشتی کاکورویؒ (۳) مرزا عبداللہ (۴) عرف مرزا لالن )فرزند مرزا شاہ علی متنبیٰ اہلیہ حضرت مرزا مظہر جان جاناں ؒ (مکتوبات (قلمی) ص ۵۵)
شاہ نعیم اللہ بہرائچیؒ کی وفات ۵؍ صفر ۱۲۱۸ھ مطابق۱۸۰۳ء میں ۶۵سال کی عمر میں بروز جمعہ نماز عصر کی تیسری رکعت کے سجدے میں ہوئی تھی۔ آپ کی تدفین جہاں ہوئی وہ آج احاطہ شاہ نعیم اللہ ؒ(گیند گھر میدان) کے نام سے پورے شہر میں مشہور ہے۔آپ کے مزار اور چہار دیواری کی تعمیر ۱۸۱۱ ء مطابق ۱۲۲۶ھ میں اسی نقشہ کے مطابق کرائی گئی جس نقشہ کے مطابق شاہ نعیم اللہ بہرائچیؒ نے مرزا مظہرجان جاناں کی مزار کی تعمیر کرائی تھی۔جو آج بھی اسی حالت میں موجود ہے۔ اسی احاطہ کے ایک حصہ میں محکمہ تعلیم کے دفاتر اور ایک سرکاری نسوا ں انٹر کالج بھی قائم ہیں۔گیند گھر میدان آپ کے ہی خاندان کی ملکیت تھی جسکا بڑا حصہ انگریزی حکومت نے قبضہ کر لیا تھا۔’’معارف‘‘ کے شمارہ فروری ۱۹۹۲ء میں معین احمد علوی ذیل قطعہ تاریخ وصال نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ معمولات مظہریہ میں ذیل قطعہ تاریخ وفات درج ہے۔
’’معارف‘‘ کے شمارہ فروری ۱۹۹۲ء میں معین احمد علوی ذیل قطعہ تاریخ وصال نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ معمولات مظہریہ میں ذیل قطعہ تاریخ وفات درج ہے۔
مولوی صاحب نعیم اللہ در وقت نماز
سال تاریخش چوا نور بادل غمگین بجست
بہر سجدہ نہا دہ کرو رحلت زین جہان
ہاتفے گفتا زسرشد سوئے حق راہِ روان
۱۲۱۸ھ
آثار مرزا مظہر جان جاناں شہید ؒمیں صفحہ۳۲۹ پر مصنف سید ظفر احسن بہرائچی نے دیگرقطعات کے ساتھ اس قطعہ کو اس طرح لکھا ہے۔
مولوی صاحب نعیم اللہ در وقت نماز
بہر سجدہ نہا دہ کرو رحلت زین جہاں
سال تاریخش چوا نور بادل غمگین بجست
ہاتفے گفتہ زسرشد سوئے راہِ حق رواں
۱۲۱۸ھ
رحلت نمود مولوی نعیم اللہؒ وقتِ شام
سر رابہ سجدئہ باری نہادہ بہ عشق تام
کر دم سوال سالِ تواریخ راز غیب
ہاتف بمن بگفت کہ باغِ نعیم دام
۱۲۱۸ھ
سال ہجری خوب شد تاریخِ اْو
صْبح فوت آمد نعیم اللہ شاہ
۱۲۱۸ھ + ۵۸۶ = ۱۸۰۴ء
گفتہ ام من خادم درگہ ظفرؔ
قطع تاریخ نعیم اللہ شاہ
دیگر
عالم دیں ،عارفِ نکتہ شناس
گفتمش تاریخ از یثرب بروں
بودہ ای حضرت نعیم اللہ شاہ
رفت در جنت نعیم اللہ شاہ
۷۱۲ – ۱۹۳۰
۱۲۱۸ ھ
مادئہ تاریخ :فروکش فردوس ِ بریں = ۱۲۱۸ھ
کتابیات
- امنگ میگزین ،روزنامہ سہارا لکھنؤ بہ تاریخ ۲۱؍ نومبر ۱۹۹۱ء
- المطلوب فی عشق المحبوب(قلمی)
- بشارات مظہریہ
*خود نوشت سوانح حیات شاہ نعیم اللہ بہرائچیؒ (قلمی)
*مقامات مظہری
*کتاب مستطاب حالات حضرات مشائخ نقشبندیہ مجددیہ
*آثار حضرت مرزا مظہر جان جاناں شہیدؒ مطبوعہ ۲۰۱۵ء،
*تذکرہ علماء و مشائخ پاکستان و ہند جلد دوم مطبوعہ ۲۰۱۵
*بہرائچ ایک تاریخی شہر حصہ اول مطبوعہ ۲۰۱۹ء
*بہرائچ ایک تاریخی شہر حصہ دوم (بہرائچ اردو ادب میں ) مطبوعہ ۲۰۲۱ء
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |