آگ دونوں طرف ہے برابر لگی ہوئی
ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ حالیہ سیاسی و آئینی بحران کا تعلق کسی بھی لحاظ سے ہمارے ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے امکانات سے ہرگز نہیں ہے۔ آئینی اور قانونی خلا بحث و مباحثے اور تشریحات کا گورکھ دھندا ہے، جبکہ سیاسی جنگ دو فریقین کی ذاتی انا اور ہوس اقتدار کا مسئلہ ہے۔ دنیا میں کسی بھی جگہ اخلاص اور ایمانداری کا کوئی مختلف اور جداگانہ مفہوم نہیں ہے۔ جس طرح، ‘محبت میں کوئی ہار کر بھی جیت جاتا یے اور کوئی جیت کر بھی ہار جاتا یے۔’ اسی طرح گنتی کے جو چند لیڈرز جمہوری اصولوں پر ایمان رکھتے ہیں ان کے نزدیک بھی فتح و شکست کی کوئ اہمیت نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سچے رہنما خود کو ‘نرگسیت’ یا اپنی ذات کے ‘خول’ کا شکار نہیں ہونے دیتے۔ انسان تو ایک مجبور محض مخلوق ہے، کیونکہ خود انسان اپنی زندگی کا مالک نہیں ہے۔ ہمارے پاس زندگی ایک امانت ہے جو بالآخر زندگی کے اصل مالک کو لوٹانا پڑتی یے۔ اعلی پائے کے لیڈروں کی زندگیاں اپنی قوم کے لئے وقف ہوتی ہیں کیونکہ جہاں انہیں قومی مفاد نظر آتا ہے وہاں وہ اپنے ذاتی مفاد یا ‘جیت’ اور ‘ہار’ کو قربان کر دیتے ہیں۔ لیکن صد افسوس ہے کہ جس کا مظاہرہ حالیہ بحران میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کر رہے ہیں اور نہ ہی وزیراعظم شہباز شریف صاحب کرتے نظر آتے ہیں، بلکہ یوں کہا جائے کہ، ‘آگ دونوں طرف ہے برابر لگی ہوئی’ کے مصداق متحدہ حکومت اور عمران خان کے درمیان کشمکش اس قدر دشمنی اور ذاتی حملوں میں بدل چکی ہے کہ عمران خان صاحب، وزیراعظم شہباز شریف اور اس کے حاشیہ نشینوں کو ‘چور چور’ کہتے ہیں تو اس کے جواب میں شہباز شریف صاحب عمران خان صاحب کو ‘جھوٹا’ اور ‘مکار’ کہنے میں ایک لمحے کی دیر نہیں لگاتے ہیں۔
گزشتہ روز دبئی میں پاکستانی برطانوی شہری سجاد حسین صاحب کی طرف سے دیئے گئے ‘لیٹ نائٹ’ کے ایک عشایئے میں شرکت کا موقع ملا جس میں تمام شرکاء پاکستانی برطانوی شہری تھے جن کی پاکستانی سیاست میں دلچسپی دیکھ کر خوشی بھی ہوئی اور حیرت بھی ہوئی۔ ان میں سے دو دوستوں یعنی شاہد صاحب اور مسعود صاحب سے خیالات کے تبادلہ کا ملا تو میں نے عمران خان صاحب کی طرف سے دی گئی احتجاج کی کال اور اس دوران کی گئی ‘دہشت گردی’ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ نفرت کے بیج بوئے جا رہے ہیں جس سے ملک خانہ جنگی کی طرف بڑھ سکتا یے۔ اس پر شاہد صاحب نے جزباتی ردعمل دیتے ہوئے جواب دیا کہ، “خانہ جنگی ہونی چایئے۔” جس پر خاکسار نے خوف زدہ ہو کر پھر سوال کیا کہ، ‘کیوں’، تو اس پر شاہد صاحب کا یہ تشویشناک جواب تھا کہ، ‘ہمارے حالات جس حد تک خراب ہو چکے ہیں ان کو سنوارنے کا واحد حل خانہ جنگی ہے!’ یہ کہہ کر شاہد صاحب نے اعلان جنگ بندی کر دیا اور مجھے حیران و ششدر اور سوچتے ہوئے چھوڑ کر اپنے بوٹ کے تسمے باندھے اور اس جگہ کی طرف چل دیئے جہاں ‘تکہ بوٹی’ تیار ہو رہے تھے۔
موجودہ بحران ‘سٹیک ہولڈرز’ کی اس جنگ میں پوری قوم کو گھسیٹ لایا ہے اور ہر شہری اپنی پسند کی پارٹی کے ساتھ کھڑا ہو کر تکہ بوٹی کھا رہا ہے۔ یہ اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینے کی ایک ‘کلٹ’ قسم کی زہنی سوچ ہے۔ یہ دو فریقین کے درمیان دو بدو خوفناک جنگ ہے جس کو آئین، جمہوریت یا ‘سول بالادستی’ کی جدوجہد نہیں کہا جا سکتا۔
ایک طرف عمران خان صاحب کو عدلیہ نے تمام مقدمات میں ضمانت دے کر گرفتار نہ کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی موصوف نے رہا ہوتے ہی یہ دھمکی دے دی کہ، ‘اگر دوبارہ پکڑا تو پھر وہی ردعمل آئے گا’ یعنی آپ سمجھ تو گئے ہونگے کہ پھر وہی ردعمل آئے گا کا کیا مطلب ہے، تو دوسری طرف پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو لنگوڑ کس کر میدان میں اتارا گیا ہے جنہوں نے سپریم کورٹ کے سامنے دھرنا دینے کے اعلان سے پہلے کہا کہ ‘سپریم کورٹ مدر آف لاء ہے مدر ان لاء نہیں’ جبکہ وفاقی کابینہ نے بھی چیف جسٹس مداخلت کو ‘مس کنڈکٹ’ قرار دیا۔ اب عدلیہ وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی کابنیہ کے کچھ تکڑے وزراء کو توہین عدالت میں نااہل قرار دیتی ہے یا نہیں مگر یہ تو وقت بتائے گا مگر جو آثار نظر آ رہے ہیں، ‘تماشا لگنے والا ہے!’ یہ دونوں بڑے سیاسی مخالفین ایسا کیوں کر ریے ہیں، اور اس کا کیا مطلب ہے؟ یہ بھی آپ جانتے ہی ہونگے کہ 14 مئ گزر چکی اور 15 مئ کو اسی سوموٹو والے تین رکنی بینچ کی سماعت بھی شروع ہو چکی، تو اس کا جو نتیجہ سامنے آنا ہے یا اس پر جو ‘دما دم مست قلندر’ ہونی ہے، اس سے عدلیہ عوام کے 53 ہزار زیر التواء مقدمات کا فیصلہ سنا سکتی ہے، ملک میں امن و امان بحال ہو سکتا ہے، کوئی انقلاب آ سکتا اور نہ پاکستان ‘دیوالیہ’ ہونے سے بچ کر کوئی بڑی معاشی قوت بن سکتا ہے۔ اگر آپ پھر بھی دعوی کریں کہ دونوں میں سے کوئی فریق قوم و ملک کی خاطر اس بحران کو جنگ میں اسے جہاد سمجھ کر بدل رہا ہے، تو اس کا تعلق قوم و ملک سے ہرگز نہیں ہے کہ آپ سمجھ رہے ہوں کہ اس سے یہاں ‘انقلاب فرانس’ آ جائے گا، اس کا ہرگز حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر آپ پھر بھی اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر خود کو اس جنگ کا حصہ بنا کر ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ آپ ‘حق’ پر ہیں تو یہ آپ کی مرضی ہے، مقبول و محبوب لیڈرز چیز ہی ایسی ہوتے ہیں:
نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے،
وہ اپنی خوبی قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے۔
خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد،
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ “خبریں: اور “نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ “اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ “جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔