سرمایہ داری کی لعنت
سرمایہ دارانہ نظام دولت اور زرائع پر قبضہ کرنے کی دوڑ ہے جس میں کمزور اور طاقت سے محروم طبقات پیچھے رہ جاتے ہیں جس سے نہ صرف وہ اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہونے کے خطرات سے دوچار ہو جاتے ہیں بلکہ وہ اپنی بقا کو قائم رکھنے کے لیئے بھی سرمایہ داروں کی غلامی میں آنے پر مجبور ہوتے چلے جاتے ہیں۔
سرمایہ داری کی اس دوڑ میں وہی چند گنے چنے اور گنتی کے لوگ آگے نکلتے ہیں جن کی سوچ دوسرے کمزور اور محروم طبقات کو غلام بنانے اور انہیں اپنے سرمایہ داری مفادات کو تحفظ دینے کے لیئے استعمال کرنے پر مبنی ہوتی ہے۔ چونکہ ایسی سرمایہ دارانہ سوچ کاروباری ہوتی ہے اور اس کا تعلق زرائع، اجناس اور روپیہ پیسہ سے ہوتا ہے، لھذا اس کا مرکز انسانی اقدار یا اس کی سربلندی نہیں ہوتا یے۔ آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ دنیا کے امیر ترین ارب پتی لوگ عموما ہر سال اربوں ڈالر چیرٹی میں دیتے ہیں مگر اس کے باوجود ان کا سرمایہ ہمیشہ بڑھتا رہتا ہے اور انسانی تاریخ میں آج تک کبھی یہ نہیں ہوا ہے کہ ایک بار جو دنیا کے سو امیر ترین افراد کی فہرست میں شامل ہوا ہو مگر بعد میں حالات وغیرہ کا شکار ہو کر وہ کنگال بھی ہو گیا ہو۔
آپ نے یہ محاورہ تو اکثر سنا ہو گا کہ، “پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے۔” اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ جس کے پاس ایک بار دولت اکٹھی ہو جاتی ہے پھر دھیرے دھیرے اس کا انبار لگتا چلا جاتا ہے۔ آپ نے نیشنل اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پرکشش نام تو سنے ہونگے۔ ان کا کاروبار اسی اصول پر کامیاب ہوتا ہے کہ کاروبار سے انہیں جو منافع حاصل ہوتا ہے اسے معاشرے پر برابر تقسیم کرنے کی بجائے اس سے ملکوں اور غیر ملکوں میں مزید نئے کاروبار کھول لیئے جاتے ہیں جس سے ان کا کاروبار اور منافع آگے سے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔
یہ سرمایہ داری نظام میں دولت کے ارتکاز کا ایسا مکروہ اور گندا مگر پرکشش کھیل ہے کہ جس سے عاجر اور مزدور کے درمیان انسانی مقام و مرتبے کے حوالے سے ایک نمایاں خلیج پیدا ہو جاتی یے۔ آپ نے بڑی کمپنیوں میں دیکھا ہو گا کہ اس میں کاروباری مالکان یا بڑے افسران یعنی چیئرمین، ایم ڈی یا منیجرز وغیرہ کو “باس” کہا جاتا ہے۔ یہ افسران بڑی کمپنیوں میں بڑی بڑی تنخواہیں اور مراعات لیتے ہیں اور اس کمپنی بہادر کے کھاتے سے نچلے عملے کو تنخواہوں میں کچھ بڑھوتری یا بونس وغیرہ دے کر خوش رکھتے ہیں اور کبھی عملے کو اکٹھا کر کے تحائف اور پارٹیاں بھی دیتے ہیں تاکہ وہ ان کی کاروباری غلامی میں بخوشی فرائض انجام دیتے رہیں۔
میں برطانیہ میں ریلائنس Reliance نامی ایک سیکورٹی کمپنی میں سات سال تک کام کرتا رہا ہوں جہاں میں نے دیکھا کہ وہ کمپنی ہر سال نو یا مذہبی تہوار “کرسمس” وغیرہ کے موقع پر منیجرز اور سپروائزرز وغیرہ کو تحائف دیتی تھی۔ اس نے “ریڈ بک” کے نام پر ہر سائٹ پر ایک کتاب بھی رکھی ہوتی تھی جس میں اس کے ملازمین کو یہ اجازت دی جاتی تھی کہ وہ کمپنی کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیئے مفید مشورے دیں جس پر ہر ماہ اچھے مشورے دینے والوں کو اول، دوم، سوم اور اعزازی تمغے اور نقد انعامات دیئے جاتے تھے جس کا دراصل بنیادی مقصد یہ ہوتا تھا کہ اس کے تمام ملازمین اس کمپنی کو اپنی کمپنی سمجھ کر مکمل وفاداری سے اس کے ساتھ ہمیشہ جڑے رہیں جس کا آٹے میں نمک کے برابر فائدہ ملازمین کو اور اس کا حصہ بجسہ فائدہ کمپنی ھذا کے مالکان اور شیئر ہولڈرز کو ہوتا تھا۔
سرمایہ داری نظام کے الفاظ کا مطلب بھی سرمائے کو اپنے پاس رکھنے سے ہے ناکہ اسے دوسرے غریب اور مجبور طبقات میں تقسیم کرنے سے ہے۔ ایک مثل بھی مشہور کر دی گئی ہے کہ کوئی بھی نوکری سے امیر نہیں ہو سکتا ہے۔ اگر آپ امیر ہونا چاہتے ہیں تو پھر کاروبار کرنے کا فن سیکھیں۔ حالانکہ دنیا کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سربراہوں کی ماہانہ تنخواہیں بھی لاکھوں کروڑوں ڈالرز میں ہوتی ہیں۔ سُندر پِچائی گوگل کی مالک کمپنی ایلفابیٹ کے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سُندر پِچائی کو رواں ماہ کی تین تاریخ کو 19 کروڑ 90 لاکھ امریکی ڈالر مالیت کے حصص تنخواہ کے طور پر دیئے گئے تھے۔ لیکن عوام الناس کو ہمیشہ سرمایہ دارانہ نظام کے کاروبار میں الجھائے رکھنے کا دھوکہ دیا جاتا ہے۔
سرمایہ داری نظام میں دنیا کا کوئی ایک بھی کاروبار ایسا نہیں ہے کہ جو اپنے کاروباری راز اپنے ملازمین کو دیتا ہو یا انہیں کامیاب کاروبار کروانے کے کورسز بھی کرواتا ہو۔ سرمایہ داری دراصل سرمائے کے ارتکاز کے لیئے واقعی ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی اندھی بھاگم بھاگ ہے جس میں ہر وہ جائز اور ناجائز حربہ استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جس میں “کمپنی بہادر” کو فائدہ ہو مگر اس طرح دنیا میں خفیہ طور پر حسد اور منافقت پھیلتی ہے تو پھیلتی رہے اور درویدہ انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے تو ہوتی رہے سرمایہ دارانہ کاروبار ضرور کامیاب ہونا چایئے، اور ہو بھی ایسا ہی رہا ہے کہ ہر سال دنیا کے سو امیروں کی فہرست چھپتی ہے جسے ہر خاص و عام حسرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے کہ وہ خود اس میں شامل کیوں نہیں ہے؟
آج کی دنیا کا سرمایہ دارانہ نظام ایسا معاشی و معاشرتی نظام ہے جس میں سرمایہ بطور عاملِ پیدائش نجی شعبہ کے اختیار میں ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں کرنسی چھاپنے کا اختیار بھی عموما حکومت کی بجائے کسی پرائیوٹ بینک کے اختیار میں ہوتا ہے۔ اشتراکی نظام کے برعکس سرمایہ دارانہ نظام میں نجی شعبہ کی ترقی معکوس نہیں ہوتی بلکہ سرمایہ داروں کی ملکیت میں سرمایہ کا ارتکاز ہوتا ہے، امیر امیر تر ہوتا چلا جاتا ہے، اور غریب غریب ترین ہوتا جاتا ہے کیونکہ سرمایہ داری کا بنیادی مقصد ہی سرمائے کا چند ہاتھوں میں اکھٹا ہو جانا ہے۔ اس میں منڈی آزاد ہوتی ہے اس لئے اسے آزاد منڈی کا نظام بھی کہا جاتا ہے۔ اگرچہ آج کل کہیں بھی منڈی مکمل طور پر آزاد نہیں ہے مگر نظریاتی طور پر ایک سرمایہ دارانہ نظام میں منڈی مکمل طور پر آزاد ہونی چاہئے۔ جملہ حقوق، منافع خوری اور نجی ملکیت اس نظام کی وہ خصوصیات ہیں جس سے سرمایہ دارانہ نظام کے مخالفین کے مطابق غریبوں کا خون چوسا جاتا ہے۔
جدید دانشوروں کے مطابق آج سرمایہ دارانہ نظام اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے اور ایک متبادل نظام کی آوازیں شدت سے اٹھنا شروع ہو گئیں ہیں۔
مختصراً سرمایہ دارانہ نظام یہ کہتا ہے کہ ذاتی منافع کے لئے اور ذاتی دولت و جائیداد اور پیداواری وسائل رکھنے میں ہر شخص مکمل طور پر آزاد ہے، حکومت کی طرف سے اس پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ تاہم دنیا میں سو فیصد سرمایہ دارانہ نظام کسی بھی جگہ ممکن نہیں، کیونکہ حکومت کو کسی نہ کسی طرح لوگوں کے کاروبار میں مداخلت کرنی پڑتی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ایڈم سِمتھ نے 1723 تا 1790 میں رکھی۔ وہ ایک برطانوی فلسفی اور ماہر اقتصادیات تھا۔ امریکا، برطانیہ، فرانس اور اٹلی وغیرہ میں سرمایہ دارانہ نظام ہیں۔ لیکن جس طرح کائنات کا سرمایہ تیزی سے دنیا کے چند ہاتھوں میں جمع ہو رہا ہے انسانیت کو اس کا متبادل معاشی و معاشرتی نظام ڈھونڈنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔
Title Image by Designer
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ “خبریں: اور “نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ “اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ “جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔