یہ آزمودہ نسخہ ہے کہ منزل نہ مل رہی ہو تو اسے حاصل کرنے کے لیئے طریقہ کار بدلنے یا راستہ بدلنے سے مل جاتی ہے۔
عمران خان
الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد سٹاک مارکیٹ مسلسل اوپر جا رہی ہے۔ گزشتہ روز پاکستان اسٹاک انڈیکس 66 ہزار پوائنٹس سے بڑھ گیا
جنرل الیکشن کی آمد آمد ہے تو کسی حد تک سوچا جا سکتا ہے کہ یہ انٹرویو اس اعتبار سے ایک “پلانٹڈ” انٹرویو تھا
میاں نواز شریف کی آمد محض ایک سیاسی بیانیہ ہے۔ ہماری عوام کی نفسیات میں، “سیاست میں کوئی دوستی اور کوئی دشمنی مستقل نہیں ہوتی”،
عمران خان نے عوام میں جتنا سیاسی شعور بیدار کر دیا ہے اب عوام کو کسی اور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا تقریبا ناممکن ہو گیا ہے۔
یہ دو فریقین کے درمیان دو بدو خوفناک جنگ ہے جس کو آئین، جمہوریت یا ‘سول بالادستی’ کی جدوجہد نہیں کہا جا سکتا۔
ہم اس ساری غیر یقینی سیاسی صورتحال کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائیں، 13 جماعتوں پر مبنی متحدہ حکومت کو یا تحریک انصاف اور تن تنہا عمران خان کو؟
جمہوریت کی تعریف کے مطابق یہ طرز حکومت عوام سے اور عوام کے لئے ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں تو معاملہ بلکل الٹ ہے۔ بقول اقبال بندوں کو گننا اور تولنا
حکومت اور پی ٹی آئی دونوں کو جھکنے پر مجبور کر دے۔ بصورت دیگر، خدا نہ کرے، ملک کسی بھی ناخوشگوار سانحہ میں داخل ہو سکتا ہے۔
واضح طور پر اگلی وزارت عظمی کی جنگ عمران خان اور موجودہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے درمیان ہے۔