سپاہی ولیم کی لازوال جانی قربانی
انسان کی عظمت و کردار کا اپنے وطن کی مٹی سے گہرا تعلق ہے۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد کے رہائشی 29 سالہ مسیحی سپاہی ہارون ولیم نے مادر وطن کے لیئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔
مذہبی روایات اور سائنسی ارتقاء سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان مٹی سے بنا ہے اور مٹی ہی سے ارتقاء کر کے تاریخی تہذیب و ثقافت تک پہنچا ہے۔ مادر ملت کے جن جوانوں کو یہ احساس ہے کہ ان کا جنم مٹی سے ہوا ہے وہ “دھرتی ماں” سے پیار اپنی جان سے بھی زیادہ کرتے ہیں۔ جب پردیسی وطن کو لوٹتے ہیں یا کوئی فوجی دشمن کی قید سے آزاد ہو کر وطن واپس پلٹتا ہے تو وہ جونہی اپنی دھرتی پر پہلا قدم رکھتا ہے وہ پہلے جھک کر اپنے وطن کی مٹی کو چومتا ہے۔ آپکو یاد ہو گا سنہ 1992ء میں جب پاکستان نے آسٹریلیا میں انگلینڈ کو شکست دے کر کرکٹ کا “ورلڈ کپ” جیتا تھا تو میچ جتوانے میں اہم کردار ادا کرنے والے معروف کھلاڑی جاوید میاں داد زمین پر سجدہ ریز ہو گئے تھے۔ یہ احساس تشکر ہے جو انسان اپنی بہترین پیشانی مٹی پر جھکا کر ادا کرتا ہے۔ زمین کی مٹی پر سجدہ کرنا یا اسے چومنا انتہائی عقیدت و احترام کی علامت ہے۔ دنیا کے تقریبا تمام مذاہب میں سجدہ زمین پر کیا جاتا ہے۔ مسلمان تو پنچ گانہ نمازوں میں روزانہ زمین پر اپنی پیشانی ٹیکتے ہیں۔ آپ نے کبڈی کے کھیل میں بھی کچھ کھلاڑیوں کو دیکھا ہو گا کہ جب وہ دوڑ لگانے کے لیئے جاپھیوں کے جھرمٹ میں جاتے ہیں تو پہلے وہ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے زمین کو چھو کر چومتے ہیں اور پھر اپنی آنکھوں پر لگا کر ساہ ڈالنے لیئے آگے دوڑتے ہیں۔
اگر ہم سب انسان مٹی سے بنے ہیں تو مٹی ہی کی کوکھ سے غذائی پیداوار بھی اگاتے ہیں، زندہ رہنے کے لیئے مٹی سے حاصل شدہ متوازن خوراک استعمال کرتے ہیں اور جب اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو تب بھی زمین کی یہی مٹی ہمیں اپنے دامن میں پناہ دیتی ہے۔ اسی لیئے دنیا کا ہر فرد اپنے وطن کی مٹی کو مقدس سمجھتا ہے اور اسے چوم کر یا سجدہ کر کے اس کا قرض ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وطن کی مٹی کے لیئے جان کی قربانی اس سے بھی زیادہ مقدس فریضہ ہے جس پر ولیم نے اپنی جان قربان کر کے اس کا حق ادا کر دیا۔ وطن پر قربان ہونے کا یہ جزبہ ہی ایسا حسین ہے کہ انسان اس پر قربان ہو کر بھی زندہ جاوید ہو جاتا ہے۔
جب آسمان سے بارش برستی ہے تو ابتدائی بوندوں کے ساتھ ہی مٹی کی یہ خوشبو چاروں طرف مہک اٹھتی ہے۔ اردو زبان کا ایک دلکش محاورہ ہے کہ: “آپ کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں” جس کا مطلب و مفہوم ہے کہ کچھ لوگ اپنی دھن کے پکے ہوتے ہیں اور وہ کبھی بھی ہمت نہیں ہارتے ہیں اور بہادری کے ساتھ ہمیشہ اپنے محاذ پر ڈٹے رہتے ہیں۔ مٹی کی وفا کے بارے بھی بہت کچھ کہا اور سنا جاتا ہے، بزبان شاعر:
روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو،
کچی مٹی تو مہکے گی، ہے مٹی کی مجبوری۔
دھرتی ماں پر قربان ہو جانے کا یہی وہ جذبہ تھا جس کے تحت فاٹا (FATA) کے علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف فوجی آپریشن کے دوران ضلع کرم میں ولیم ایک بارودی سرنگ سے ٹکرا کر اپنی جان قربان کر گیا جس کی آخری رسومات سینٹ پال چرچ راولپنڈی میں ادا کی گئیں۔ اس کی آخری رسومات کی تقریب میں وزیر اعظم پاکستان، وزیر دفاع، وزیر داخلہ، وزیر اطلاعات و نشریات، چیف آف آرمی اسٹاف، اعلیٰ سول و فوجی افسران، فوجیوں، شہریوں اور لواحقین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اس موقع پر ملک کی ترقی میں مسیحی برادری کے کردار اور قربانیوں کو سراہا۔ آرمی چیف نے سپاہی ہارون ولیم، سپاہی انوش رفون اور ان کے ساتھیوں کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ سپاہی ہارون ولیم کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا۔حوالدار عقیل احمد (اوکاڑہ)، لانس نائیک محمد طفیر (پونچھ)، سپاہی انوش رفون (اٹک) اور سپاہی محمد اعظم خان (ہری پور) کی نماز جنازہ بھی پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ان کے آبائی علاقوں میں ادا کی گئی۔
Title Image by congerdesign from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ “خبریں: اور “نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ “اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ “جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔