سئیں فیض بلوچ ، مظفر گڑھ

انٹرویو بسلسلہ ادبی شخصیات مظفر گڑھ

سئیں فیضؔ بلوچ ، مظفر گڑھ

انٹرویو کنندہ : مقبول ذکی مقبول ، بھکر پنجاب پاکستان

سئیں فیض بلوچ کی پیدائش 1941ء میں چاہ گل والا موضع نور شاہ تلائی تحصیل کوٹ ادو(مظفر گڑھ) شیر محمد خان چانڈیہ بلوچ کے گھر ہوئی ہے ۔ابتدائی تعلیم اپنے علاقے کے گورنمنٹ پرائمری سکول سے پرائمری تک حاصل کی۔ اس کے بعد والدین نے قرآن مجید حفظ کرنے کے لیے ایک اسلامی مدرسہ میں داخل کروا دیا ۔ وہاں قرآن مجید مکمل حفظ کر لیا ۔ بعد ازاں ایک دوست کی معیت میں راجن پور کے اسلامی مدرسہ مرکز العلوم میں داخل ہوگئے ۔ جہاں سے عربی گرامر کی ابتدائی کتابیں صرف و نحو پڑھ کے مکمل کیں ۔ اس کے بعد قرأت پڑھنے کا شوق جنون کی حد تک پیدا ہوگیا ۔اور پھر انہوں نے امام حفصؒ کی روایت میں قرأت کا پانچ سالہ کورس مکمل کیا.اور پھر 1964ء میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے ۔ شادی کے بعد کوٹ ادو کے راج مستری استاد عبدالرحمان سے تعمیراتی کام سیکھنا شروع کیا ۔ اس دور میں کنویں چلتے تھے ، راج گیری کے ساتھ ساتھ کنویں کے ذریعے اپنا زمیندار بھی کیا کرتا تھے ۔ روزگار میں خود کفیل ہو گیا ، ان کوکوئی تنگدستی نہ تھی لیکن قرأت کے ان کے استاد چاہتے تھے کہ یہ کسی دینی مدرسے میں قرآن مجید یا تجوید و قرات پڑھائے ۔ اس دوران انہوں نے ملتان کے ایک دینی مدرسہ کے شعبہ قرأت میں بحثیت استاد جگہ بنا دی ۔ لیکن اندر ایک شاعر بیٹھا ہوا تھا ۔ جس نے 6 ماہ بعد استعفیٰ دینے پر مجبور کیا اور پھر شعر و ادب کے میدان میں آ گئے ۔ وہ جیسے مرزا غالبؔ نے کہا تھا۔

؎ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے

چند روز قبل ان سے انٹرویو کیا گیا ۔
جو گفتگو ہوئی ہے وہ نذر قارئین ہے

سئیں فیض بلوچ

سوال : کیا شاعری اور راج گیری یہ دونوں کام ایک دوسرے کے برعکس نہیں ۔؟
جواب : جی! بالکل آپ کی بات درست ہے شاعری کے لئے ذہنی اور جسمانی سکون درکار ہوتا ہے ۔ جبکہ اس کام میں انسان کا ذہنی سکون تھکاوٹ کی نذر ہو جاتا ہے ۔ لیکن اگر دل میں جذبہ اور لگن ہو تو آخر تھکاوٹ دور ہوجاتی ہے ، جب ذہن فریش ہو تو یہ کام ہو سکتا ہے ۔ اور ماضی میں اس حوالے سے احسان دانش کی مثال موجود ہے، جس نے سخت محنت اور مشقت کے باوجود شاعری اور نثر میں اپنا مقام پیدا کیا ۔
سوال : آپ نے شاعری کا آغاز دوہڑے سے کیا اس کی وجہ خاص کیا تھی ۔؟
جواب : میں سمجھتا ہوں دوہڑہ سرائیکی قوم کے لاشعور میں موجود ہے ۔ یعنی ہماری”گھُٹّی“ میں شامل ہے اس لیے تقریباً ہر سرائیکی شاعر اپنی شاعری کا آغاز دوہڑے سے کرتا ہے اور سرائیکی شاعری کی تمام اصناف کے زاویے دوہڑے سے ہی پھوٹتے ہیں ۔ چونکہ دوہڑہ سرائیکی زبان کی بہت قدیم صنف ہے، جس کی جڑیں سرائیکی وسیب کے علاوہ سندھ میں بھی موجود ہیں۔
سوال : ادیب معاشرے کا آئینہ دار ہوا کرتا ہے اس پر تھوڑی روشنی ڈالیں ۔؟
جواب : شاعر و ادیب چونکہ عام لوگوں کی نسبت ایک حساس دل انسان ہوتا ہے اور اس کی آنکھ معاشرے کو باریک بینی سے دیکھتی ہے اور اس کا مشاہدہ بہت تیز اور گہرا ہوتا ہے وہ جو کچھ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اس کا اظہار وہ فوراً اپنے قلم سے کرتا ہے ۔ حقیقی شاعر حتی الوسع معاشرے کی اصلاح کرنا چاہتا ہے مگر جب وہ معاشرے کی زبوں حالی دیکھتا ہے تو غمزدہ ہو جاتا ہے وہ معاشرے کے غم ، اپنے غم محسوس کرتا ہے ۔ جیسے مرزا غالب نے کہا تھاکہ۔

؎میری قسمت میں غم گر اتنا تھا
دل بھی یا رب کئی دیئے ہوتے

سوال : آپ کا ادبی سرمایہ ۔؟
جواب : میری کل تصنیفات 14 ہیں جن میں 6 شعری مجموعے 2 افسانوی مجموعے اور 5 کتب تحقیق و تنقید کے حوالے سے ہیں ۔ جبکہ ایک 48 صفحات کا چھوٹا سا رسالہ”فن تجوید“بھی ہے جو ادب سے ہٹ کر”تجوید وقرأت“ کے موضوع پر ہے ۔ علاوہ ازیں میں نے مختلف اخبارات میں ادب کے حوالے سے بے شمار مضامین لکھے ، ریڈیو پاکستان ملتان، پی ٹی وی لاہور،”رت رنگیلڑی“اور مختلف پرائیویٹ ٹی وی چینلز پر بھی اپنی ادبی خدمات سر انجام دے چکا ہوں ۔
سوال : آپ نے فقط سرائیکی زبان میں ادب کی خدمت کی اس پر کچھ کہنا پسند کریں گے ۔؟
جواب : سرائیکی چونکہ میری مادری زبان ہے اور ہر انسان اپنی مادری زبان میں اپنے اندر کے جذبات و احساسات کا اظہار بآسانی کر سکتا ہے ۔ جبکہ اردو ہماری قومی زبان ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر ماں کی گود میں حاصل ہونے والی بولی سے کسی اور بولی کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا ۔
سوال : افسانہ کی روح بڑی نازک ہے ،آپ کیا کہیں گے ۔؟
جواب : درحقیقت افسانہ ایک مختصر کہانی کا نام ہے جس میں احساس کی تمام تر کیفیات پائی جاتی ہیں ۔ اور یہ کیفیتیں انسان کے اندر روح کے مطالبے سے پیدا ہوتی ہیں۔ افسانہ کے کردار کتابی نہیں بلکہ زندہ سلامت کردار ہوتے ہیں جو افسانہ نگار سماج سے متاثر ہوکر سماج سے ہی حاصل کرتا ہے ۔
سوال : کیا طنز و مزاح کو بھی ادب کا حصہ کہا جا سکتا ہے ۔؟
جواب : طنز و مزاح ادب کی باقاعدہ کوئی صنف تو نہیں ہے لیکن یہ ایک طرح کا اسلوب اور طرزِ اظہار ہے۔جس کی اپنی کوئی ہئیت نہیں ہے ۔مگر طنز و مزاح نظم و نثر دونوں اصناف میں استعمال کی جاتی ہے ۔جس میں ہنسانے کے ساتھ ساتھ طنزیہ انداز میں معاشرے کی اصلاح بھی کی جاسکتی ہے ۔ مثلََا مرزا غالبؔ کا ایک شعر دیکھئے جس میں وہ میخواری سے منع کرنے والے واعظ کے قول و فعل میں تضاد کی نشاندہی کرتے ہیں۔

؎کہاں میخانے کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

سوال : کچھ شعراء عروض سے انحراف کرتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ۔؟
جواب : عروض بے شک ایک علم ہے اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ لیکن خلیل بصری نے عروض عربی زبان کی شاعری کے لیے ایجاد کیا تھا نہ کہ عجمی زبانوں کی شاعری کے لیے ۔ چونکہ عربی زبان کا اپنا ایک مخصوص اعرابی نظام ہے، جبکہ عجمی زبانیں اس اعرابی نظام کی متحمل نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عجمی شعراء جتنی بھی کوشش کریں مگر وہ اپنی شاعری کو عربی عروض کے عین مطابق نہیں ڈھال سکتے ۔
بہرحال شعرا ء حضرات سنجیدگی سے عروض کا مطالعہ ضرور کریں، جس سے ان کو شعری اوزان کی اچھی خاصی سوجھ بوجھ ہو سکتی ہے ۔لیکن کوئی خلیل بصریؒ کی لکیر کا فقیر بن کے جھگڑالو اور جنونی عروض دان نہ بنے۔
سوال : آپ کافی عرصہ ملتان میں مقیم رہے، وہاں ادبی فضاء کیسی پائی ۔؟
جواب : ملتان میں نے اپنی زندگی کا ایک طویل عرصہ گزارا ہے وہ زمانہ بزرگ شعراء امیدؔ ملتانی، خادمؔ ملک ملتانی، مشکورؔ قطب پوری،حسنؔ رضا گردیزی، ارشدؔ ملتانی کا زمانہ تھا۔ اور میری ان بزرگوں سے نیاز مندی تھی اور ان کی صحبت میں بیٹھ کر میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اس زمانے ملتان میں 3 ادبی تنظیمیں فعال تھیں.
(1) سرائیکی مجلس،صدر خادمؔ ملک ملتانی.
(2) سرائیکی مجلسِ ادب، صدر امیدؔ ملتانی
(3) شہباز سرائیکی سنگت، صدر مشکورؔ قطب پوری
ان تینوں تنظیموں کے ماہانہ طرحی مشاعرے ہوا کرتے تھے۔جن میں،میں بھی باقاعدگی سے حصہ لیا کرتا تھا۔ان کے علاوہ اور بہت سی اردو تنظیمیں تھیں جن کے پروگراموں میں مجھے بھی مدعو کیا جاتا تھا۔ جس کی وجہ سے ملتان کی شعراء برادری سے میرے اچھے تعلقات قائم ہوئے، اس زمانے ملتان کی ادبی فضاء بہت خوشگوار تھی۔
سوال : سرائیکی غزل پر آپ کا تحقیقی اور تنقیدی کام ادب کی بہت بڑی خدمت ہے، یہ خیال کیسے آیا ۔؟
جواب : سرائیکی نثری ادب کے میدان میں یہ ایک اچھوتا موضوع تھا جس پر اس سے پہلے کسی لکھاری نے قلم نہیں اٹھایا تھا۔ میں نے اس خلاء کو پر کرنے کے لئے”سرائیکی شاعری اچ غزل گوئی“ کے عنوان سے 3 جلدیں وقفے وقفے سے مرتب کر کے شائع کی ہیں. میرا مقصد سرائیکی غزل کی مقبولیت کے پیش نظر اس کے فنی اور صنفی محاسن غزل میں ہجر و وصال کا رومانی تاثر، سوزوگداز، سرائیکی غزل کا ابتداء سے ارتقاء تک کا سفر، اس کی رفتار، اس میں آنے والی تبدیلیاں پیش کرنا اور جن شعرا نے سرائیکی غزل پر زیادہ محنت کی ہے ان کی محنت کو سراہنا تھا ۔ جدید سرائیکی غزل کے حوالے سے اقبالؔ سوکڑی وہ عظیم شاعر ہیں جنہوں نے سرائیکی غزل کو روایت کے زندان سے نکال کر جدت کی طرف گامزن کیا ۔ اگر اقبالؔ سوکڑی کی سرائیکی غزل کو اردو غزل کے تناظر میں دیکھا جائے تو عصر حاضر کے کسی بھی بڑے شاعر کی غزل سے اقبالؔ سوکڑی کی غزل پیچھے نہیں ہے۔ اس حوالے سے احمد فرازؔ (مرحوم) اور اقبالؔ سوکڑی کا ایک ایک شعر دیکھئے۔

؎اک عمر سے ہوں لذت گریہ سے بھی محروم
اے راحت جاں مجھ کو رلانے کے لئے آ!
(احمد فرازؔ)

؎درد دی لذت کنوں محروم ہاں
تیڈٖے ترکش وچ ڈٖسا کوئی تیر ہے؟
(اقبالؔ سوکڑی)

سوال : کیا شعری انتخاب فروغ ادب میں ممد ود و معاون ہیں ۔؟
جواب : شعری انتخاب کا تعلق مطالعہ سے ہوتا ہے، ظاہر ہے اس میں اچھے کلام کا انتخاب کیا جاتا ہے جو مطالعہ کرنے والوں کے لیے اہم، دلچسپ اور ادب کے فروغ کے لیے ممد و د ومعاون ثابت ہوتا ہے۔
سوال : کیا آپ کی ان ادبی خدمات کا اعتراف سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر کسی صورت کیا گیا ہے ۔؟
جواب : الحمدللہ مجھے کئی ادبی تنظیموں کی جانب سے ایوارڈز اور کئی شعری مقابلوں میں پوزیشنیں ملنے پر کیش ایوارڈز اور اسناد مل چکی ہیں۔ اور سرکاری سطح پر اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے ماہانہ وظیفہ باقاعدگی سے مل رہا ہے ، سال2021ء کے سالانہ انعامی مقابلہ میں میری کتاب”سرائیکی شاعری اچ غزل گوئی“ کی تیسری جلد شامل ہے ۔ مگر اس انعامی مقابلے کا رزلٹ فی الحال نہیں آیا ۔
سوال : آپ عمر کے آخری سٹیج پر ہیں، اس ضعیف العمری میں آپ اپنی تصنیفات کی اشاعت کا اہتمام کیسے کر لیتے ہیں ۔؟
جواب : جی! اللّٰہ تعالیٰ مسبّبُ الاسباب ہے میں جب بھی کوئی کتاب مرتب کر لیتا ہوں تو اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی اشاعت کا بندوبست خود بخود ہو جاتا ہے۔
سوال : آپ عمر رسیدہ اور جہاں دیدہ ہیں،اپنے تجربے اور مشاہدے سے سرائیکی ادب کا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں ۔؟
جواب : سرائیکی زبان اپنے اندر وسیع تر ذخیرہ الفاظ رکھتی ہے، جس کی بنیاد پر سرائیکی زبان کا ادب بھی دیگر کئی زبانوں سے بہت وسیع و عریض ہے ۔ شعری ادب میں جہاں اقبالؔ سوکڑی ، عزیز شاہدؔ ، شاکرؔ شجاع آبادی ، اشوؔلال اور رفعتؔ عباس کے نام امر ہیں وہاں نثری ادب میں اسلمؔ رسولپوری، ڈاکٹر سجاد حیدر پرویزؔ ، مسرتؔ کلانچوی اور عبدالباسطؔ بھٹی جیسے ناموں کو بھی دوام حاصل ہے۔اب تو ماشاء اللّٰہ بہت سے تعلیم یافتہ لوگ سرائیکی ادب کے میدان میں آگئے ہیں جن کی بدولت سرائیکی شعری اور نثری ادب میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ انشاء اللّٰہ سرائیکی ادب کا مستقبل روشن ہے ۔
سوال : کیا نثری نظم کو آپ شاعری کی صنف تسلیم کرتے ہیں ۔؟
سوال : میرے نزدیک تو یہ عنوان ہی مضحکہ خیز ہے ، یعنی نثری اور پھر نظم؟ نثر تو نظم کی ضد ہے ۔ یہ شاعری کیسے ہو سکتی ہے؟ یہ عنوان (نثری نظم) ایسا عنوان ہے جیسے کسی جانور کی جنس اس طرح ظاہر کی جائے کہ بکری”نر“ ہے اور بیل”مادہ“ہے بقول سعد اللّٰہ شاہ”یہ نثری نظم ناکام شاعروں کی فکری قے ہے“
سوال : ادبی حوالے سے آپ کی کوئی خواہش ۔؟
جواب :
؎ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
کاش ہمارے شاعر و ادیب جو اخلاقیات اور محبت کے علمبردار کہلاتے ہیں، یہ ادبی گروہ بندیوں میں تقسیم ہونے کے بجائے ایک دوسرے سے محبت کرنے کے حقیقی علمبردار ہوتے ۔
سوال : سرائیکی ادب سے آپ نے کیا پایا ۔؟
جواب : سرائیکی ادب سے میں نے بہت کچھ پایا، ادب کا مطالعہ کرنے اور ادب تخلیق کرنے سے میں نے بہت کچھ سیکھا، ادب نے مجھے شعور و آگہی اور انسانیت کی پہچان دی، سب سے بڑھ کر یہ کہ دل میں لکھنے پڑھنے کا جذبہ بیدار ہوا۔
سوال : آپ اپنی تنظیم مشعل ادب ملتان اور”بزم فیض بلوچ“ نور شاہ تلائی (تھل) کے بارے میں قارئین کو آگاہ کریں ۔؟
جواب : ”مشعل ادب“ میں نے ملتان کے کچھ دوست احباب کی مشاورت سے1997ء میں علی ٹاؤن ملتان میں قائم کی تھی۔جس کے زیر اہتمام ہم نے کئی سال باقاعدگی سے ماہانہ مشاعرے کرائے۔ اقبالؔ سوکڑی، انور سعید انورؔ اور کئی ادبی شخصیات کے اعزاز میں تقریبات منعقد کیں۔ کیونکہ یہ تنظیم لسانی تعصب اور ادبی گروہ بندی سے آزاد ایک خالص ادبی تنظیم تھی جس کی وجہ سے”مشعل ادب“ کے ماہانہ مشاعروں میں اردو،سرائیکی اور پنجابی شعراء بڑے اشتیاق سے آتے اور ہم انہیں بلا تفریق عزت و احترام سے پڑھواتے تھے ۔
جہاں تک”بزم فیض بلوچ“ کا تعلق ہے تو سال2008ء کو چونکہ میں ملتان سے اپنے آبائی علاقہ نورشاہ تلائی (کوٹ ادو) واپس آ گیا تھا. یہاں میں نے اپنے شاگرد واجدؔ تھلوی، زوار ذوقیؔ،حنیفؔ بلوچ،بیٹے غفورؔ بلوچ اور حافظ واحد بخش جوگیؔ وغیرہ کے اصرار پر یہ تنظیم نومبر 2008ء کو”بزم فیض بلوچ،، کے نام سے قائم کی تھی ۔ جس کے زیر اہتمام ہمیشہ ادبی تقریبات ہوتی رہتی ہیں۔جبکہ ہر سال ایک سالانہ مشاعرے کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں مقامی شعراء کے علاوہ دوسرے اضلاع سے بھی بڑے بڑے شعراء کو دعوت دی جاتی ہے۔
سوال : ادب کے فروغ میں سوشل میڈیا کا کیا کردار ہے ؟
جواب : سوشل میڈیا ادب کی تشہیر تو پوری پوری کر رہا ہے، لیکن معیاری ادب پیش کرنے سے قاصر ہے۔ کیوں کہ بہت سے غیر شاعر سوشل میڈیا پر اپنے اپنے چینل اور اپنے اپنے گروپ بنا کے اپنی غیر معیاری شاعری کی نمائش کرتے نظر آتے ہیں۔ جبکہ معیاری اور غیر معیاری شاعری میں فرق تو کوئی سنیئر شاعر یا سخن شناس آدمی ہی محسوس کر سکتا ہے ۔ لیکن عام لوگ کامل شاعر اور غیر شاعر کی شاعری میں تمیز نہیں کر سکتے ۔ مگر سوشل میڈیا کے اس ہنگامہ خیز دور میں خود پرست نمائشی شعراء کو آج کل اس طرح نظر انداز کرنا پڑتا ہے جیسے کسی ویڈیو میں اچانک آجانے والے اشتہار کو فورََاختم کرنا پڑتا ہے۔
سوال : آخر میں آپ قارئین کو کیا پیغام دیں گے ۔؟
جواب : موجودہ حالات و واقعات کے پیش نظر سیلاب زدہ، پریشان حال لوگوں سے ہمدردی اور ان کی مدد کرنی چاہئے۔ اس سیلاب کی تباہ کاریوں نے صدیوں کا ریکارڈ توڑا ہے۔ لوگ اجڑ گئے، ان کے گھر برباد، مال مویشی، سازو سامان سب کچھ سیلاب کی نذر ہو گیا۔ اس وقت ان کے بچے بھوک سے مررہے ہیں۔ انسانیت کا تقاضا ہے کہ ہم سب ان کی مدد کریں۔ اس حوالے سے سوڈان کے خطیب شیخ عبدالباقی کا قول ہے کہ”کسی بھوکے مسکین کے پیٹ میں ایک لقمہ پہنچانا ہزار مساجد کی تعمیر سے بہتر ہے“۔

maqbool

 مقبول ذکی مقبول

 بھکر پنجاب پاکستان

تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

اُستادایک انمول ہستی

بدھ اکتوبر 5 , 2022
اسلام میں استاد کا رشتہ والدین کے رشتے کے برابر قرار دیا گیا ہے , استاد ہی ایسی واحد شخصیت ہے جو والدین کے بعد بچوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہیں
اُستادایک انمول ہستی

مزید دلچسپ تحریریں