سعادت حسن آس کی آدمی اکیلا ہے
تبصرہ نگار: سید حبدار قائم
گلستان ادب کو پچھلی پانچ دہائیوں سے اپنے لہو سے سیراب کرنے والے سعادت حسن آس اٹک شہر کا فخر ہیں ان کی تیرہویں کتاب کا نام ” آدمی اکیلا ہے“ جس میں انہوں نے گیت نظمیں اور غزلیں شامل کی ہیں سعادت حسن ایسے شاعر ہیں جن کی مٹی میں وطن کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ہم نے ان کو نعت لکھتے ہوئے دیکھا ہے وہ ہمیشہ نعت کی دنیا میں رہتے ہیں ان کی نعت سادگی سلاست اور فصاحت کا ہر پہلو لیے ہوۓ ہے
سعادت حسن آس انسانیت کا درد لیے ہوئے ہیں ان کی اس کتاب میں جا بہ جا آپ کو ایسے اشعار ملیں گے جن کو پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وطن عزیز میں کن مسائل نے غریب آدمی کو جکڑا ہوا ہے یا کن مسائل میں انسان جی رہے ہیں ان مسائل نے غریب انسان کی کمر توڑ دی ہے سعادت حسن آس ان ساری کیفیات سے خود گزر رہے ہیں ایسی کیفیت کو شعر میں ڈھالنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے وہ حساس طبع کے مالک ہیں جب لکھتے ہیں تو اتنی فراوانی سے لکھتے ہیں کہ ہر روز کوئی نہ کوئی چیز لکھ کر دوستوں کو سناتے ہیں اور اس پر ان کی رائے لیتے ہیں میں نے سعادت حسن آس صاحب کا جب سے دامن پکڑا ہے مجھے بھی شاعری کی سوجھ بوجھ اللہ رب العزت نے عطا کر دی ہے اور میں بھی تین نعتیہ مجموعوں کا خالق ہوں اور یہ ساری کیفیت سعادت حسن آس صاحب کی محبتوں کی بدولت ہے وہ جہاں بیٹھتے ہیں وہی جگہ اکیڈمی ادبیات بن جاتی ہے ان کے پاس ایسے کئی لوگ ہیں جنہوں نے ان سے فیض حاصل کیا ہے مجھے یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ سعادت حسن آس اٹک شہر کے بڑے شاعر ہیں اور اشعار ان کی نس نس میں گُندھے ہوۓ ہیں ان کے اشعار میں بہترین مضامین کی فراوانی ہے ان کا کلام شعریت سے بھرپور ہے
”آدمی اکیلا ہے“ میں سعادت حسن آس سادہ الفاظ اور تراکیب تلاش کر کے ایسے برتتے ہیں کہ ان کا تخلیقی وفور اور لفظوں پر دسترس قادر الکلامی کی حد تک پہنچتی محسوس ہوتی ہے آپ غزل کچھ اس طرح عشق سے لکھتے ہیں کہ اس میں ان کی قلبی و ذہنی کیفیات کا ابلاغ قاری تک با آسانی پہنچ جاتا ہے جو تغزل کے حسن کی وارفتگی سمیت انتہائی عمدہ انداز میں ہوتا ہے سعادت حسن آس کا لکھا ہوا ہر لفظ پر اثر وجد آور اور معنی آفریں ہے جو ان کی قلبی واردات کی کیفیات بیان کرتا ہے
آپ کے کلام میں نام نہاد روشن خیالی بغض عناد فرقہ پرستی منافقت اور دیگر بے شمار معاشرتی خرابیوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایک سچے مسلمان کی سی جہادی اور اجتہادی کیفیت ملتی ہے انہوں نے اپنی غزل میں زبان و بیان لفظیات موضوعات اور اسالیب کے حوالے سے غزل گوئی کی توفیقات کو وسعت اور گہرائی دے کر ایک انفرادی دھنک رنگ اور ریشمی تبسم پیدا کیا ہے
ابلاغ کے لحاظ سے ان کی غزل قارئین کے لیے بہت زیادہ پراثر ثابت ہوتی ہے خواہ ملکی حالات ہوں یا معاشرے کی بے راہ روی جب اس کو آپ شعر میں ڈھالتے ہیں تو اس میں بھی کیف آفرینی پیدا ہو جاتی ہے یہی وصف ان کو دوسرے شعراء سے ممتاز کرتا ہے
پرانے وقتوں میں جب بارشیں نہیں ہوتی تھیں اور جون جولائی کی گرمی میں بہت زیادہ حبس ہو جاتی تھی اس وقت پرانے لوگ یہ کہتے تھے کہ آج حبس بہت زیادہ ہے اس لیے بارش کا امکان ہے تو چھوٹے بچے ان کی باتوں پر یقین کرتے تھے اور وہ کاغذ کی کشتیاں بنا کر بارش کا انتظار کرتے تھے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اسی دن بارش ہو جایا کرتی تھی سعادت حسن آس بھی پرانے زمانے کے انسان ہیں وہ اس شعر میں ایک تو اس چیز کی حقیقت بیان کر رہے ہیں کہ جب حبس بڑھ جاتی ہے تو بارش کا ظہور ہوتا ہے لیکن اس کو انہوں نے موجودہ حالات کے اوپر سیٹ کیا ہے کہ جب حالات ملک میں ٹھیک نہیں ہیں ہر طرف افراتفری کا عالم ہے کوئی انسان کسی کا دکھ درد بانٹنے والا نہیں ہے اور ہر بندہ اپنی فکر میں لگا ہوا ہے کہ وہ ان حالات کا کیسے مقابلہ کرے تو ایسے حالات میں سعادت حسن آس لوگوں کی تشفی کے لیے کہتے ہیں کہ آپ فکر نہ کریں انشاءاللہ العزیز اللہ رب العزت ایسے گھمبیر حالات کو بدلے گا اور وطن میں خوشیاں ہی خوشیاں نظر آئیں گی ایسی کیفیت میں ہمیں امید کا دامن تھامنا چاہیے اور مایوسی سے بچنا چاہیے آس صاحب نے کیسی خوب صورت بات شعر کے قالب میں ڈھالی ہے ملاحظہ کیجیے:۔
چلچلاتی دھوپ جھلساۓ بدن تو جانیے
ابرِ رحمت کی گھٹا میں فاصلہ تھوڑا سا ہے
سعادت حسن آس نے موجودہ دور کی ایسی تصویر کھینچی ہے کہ جہاں رشتے ٹوٹ رہے ہیں اور تعلقات کچے دھاگوں کی طرح ہو گۓ ہیں وہاں وہ محبت کے گلاب ڈھونڈ رہے ہیں اور وہ اس نگر کی تلاش میں ہیں جہاں محبت کے گیت گاۓ جاتے ہوں لیکن ایسا نہیں ہے کیوں کہ ایسی دولت سے مالا مال لوگ پتہ نہیں کدھر چلے گئے ہیں ایسے لوگوں کی تلاش میں وہ سرگرداں ہیں اگر ایسا انسان مل جائے جو انسانیت کا بھرم رکھے جو انسانیت سے پیار کرے تو ایسے شہر میں رہا جا سکتا ہے اور اس میں محبت کے پھول تلاش کیے جا سکتے ہیں اس کیفیت کو سعادت حسن آس نے شعر میں کتنی خوبصورتی سے ڈھالا ہے ملاحظہ کیجیے:۔
کچے دھاگوں کی طرح ٹوٹ رہے ہیں رشتے
آو دربارِ محبت پہ مناجات کریں
جس نگر کھلتے ہیں احساسِ محبت کےگلاب
کیوں نہ اس شہر کے لوگوں سے ملاقات کریں
موجودہ دور محرومیوں سسکیوں اور آہوں پر مشتمل ہے موجودہ دور نے غریب انسان کا جینا مشکل کر دیا ہے جہاں بجلی پہ ٹیکس گیس پہ ٹیکس اور زندگی کے ہر آئٹم پہ ٹیکس لگے وہاں غریب انسان بہت مشکل سے گزارا کرتا ہے ایسے دور میں ماں باپ کے اوپر بہت زیادہ بوجھ پڑ جاتا ہے جب ماں باپ نے بچوں کی تربیت کے لیے انہیں سکول میں پڑھانا ہوتا ہے انہیں معاشرے میں اچھا انسان بنانے کے لیے ان پر توجہ دینی ہوتی ہے ان پر خرچ کرنا ہوتا ہے ایسے حالات میں والد جن مشکلات سے گزرتا ہے وہ سولی پر لٹکنے کے برابر ہوتا ہے اور ماں تمام رات بچوں کے لیے منصوبہ بناتی ہے کہ کس طرح وہ اگلے دن ان کو کھلائے گی ان کو پلائے گی اور معاشرے میں ان کو عزت سے رہنے کے قابل بناۓ گی سعادت حسن آس ان حالات کو کس آسانی سے شعر میں ڈھالتے ہیں سہل ممتنع ان کا گہنا ہے اس شعر کو دیکھیے اور اس میں والدین کے کرب کو محسوس کیجئے :۔
اک باپ مشکلات کی سولی پہ چڑھ گیا
اک ماں نے اپنا درد سمویا تمام رات
سعادت حسن آس نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے وہ اس مٹی سے محبت کرنے والے انسان ہیں انہوں نے جب بھی دنیا کے اوپر نظر ڈالی انہیں دنیا کے حالات نے یہ بتا دیا کہ جب انسان کچے گھروں میں رہتا تھا تو اس کو ایک دوسرے کے ساتھ محبت تھی وہ ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے لیکن جونہی مکان پکے ہو گئے تو یہ احساس کی دولت بھی ختم ہو گئی انسان جب تک کچے گھروں میں رہتے تھے وہ ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے جب انسانوں نے پکے گھر بنا لیے تو ان کے دل بھی پتھر کے ہو گئے ایسے پتھر جن میں احساس کی خوشبو نہیں ہوتی اور وہاں نفرت کینہ اور بغض ہوتا ہے ایسے حالات میں سعادت حسن آس صاحب کا قلم کب خاموش رہ سکتا ہے ملاحظہ کیجئے:۔
کچے تھے گھر تو پیار کی آتی رہی مہک
پکے گھروں سے پیار کے عنصر کدھر گئے
آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بیٹوں کو نعمت جب کہ بیٹیوں کو رحمت قرار دیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات انسانیت کی معراج ہیں بیٹیاں جس گھر میں ہوتی ہیں وہاں ان کے قہقہے گونجتے ہیں اور یہ قہقہے بلبل کی چہک کی طرح ہوتے ہیں اور گھر تو کیا پورا محلہ جنت کی صورت دکھائی دیتا ہے لیکن ان بیٹیوں کے نصیب کیسے لکھے گئے ہیں ان حالات کو حضرت سعادت حسن آس نے ایسے الفاظ میں بیان کیا ہے کہ اگر اس پر غور کیا جائے تو بے اختیار آنسو ٹپک پڑتے ہیں موجودہ دور میں شادیوں پہ انسان دیکھ سکتا ہے کہ امیر لوگوں کی بیٹیوں کی شادیاں بڑی شان و شوکت سے ہوتی ہیں ان کی ڈولی جب اٹھتی ہے تو لوگ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں ان کو جہیز سے مالا مال کیا جاتا ہے کوٹھیوں اور کاروں کے تحفے ملتے ہیں لیکن غریب کی بیٹی کے مقدر ایسے ہوتے ہیں کہ جس کو دیکھ کر انسانیت بھی رونے لگ جاتی ہے انسانیت کی ہچکیاں سسکیاں اور آہیں وہی محسوس کر سکتا ہے جس کے گھر میں بیٹیاں ہوتی ہیں سعادت حسن آس نے موجودہ دور میں امیر اور غریب کی بیٹیوں کی اس شعر میں کیسی خوبصورت تصویر کھینچی ہے ملاحظہ کیجیے:۔
جتنے امیرِ شہر تھے وہ سرخرو ہوئے
مفلس کی بیٹیوں کے مقدر کدھر گئے
ایک اور شعر میں کرب اور سسکیوں بھری زندگی کا خلاصہ اس طرح لکھ دیا :۔
تلخیوں کی آگ نے جسم کو جلا دیا
سسکیاں سمیٹتے زندگی گزر گئی
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا کہ اگر کسی مرد کی غیرت دیکھنی ہو تو اس کی عورت کا پردہ دیکھ لیجئے آج کل کے حالات میں عورت نے ایسی صورت اختیار کر لی ہے کہ وہ مسلمان تو کیا انسان بھی نظر نہیں آتی جس طریقے سے جانور رہتے ہیں عورت بھی ایسے بغیر لباس کے بازاروں اور ساحلوں پر پھرتی دکھائی دیتی ہے حضرت سعادت صاحب نے اس ماحول کو اپنے شعر میں کیسے ڈھالا ہے ملاحظہ کیجئے:۔
زیور حیا کا چھن گیا عورت کی مانگ سے
پردے کی اس کے ذہن سے حرمت کدھر گئی
موجودہ تہذیب نے انسان کا چہرہ تک مسخ کر دیا ہے انسان نے اپنی صورت بدل ڈالی ہے کئ ممالک میں انسانوں نے جانوروں کی صورت اختیار کر لی ہے پلاسٹک سرجری سے اپنی صورت تک مسخ کرا دی ہے اور یہ انسان کی وہ صورت ہے جسے میرے رب نے احسن خلق کیا ہے انسان کی بےقدری پر سعادت حسن آس کس طرح اپنے کرب کا اظہار کرتے ہیں ملاحظہ کیجیے:۔
تہذیب نو نے کر دیا بے شکل آدمی
انسانیت کی شکل و شباہت کدھر گئی
عساکر کی زندگی کتنی کٹھن ہوتی ہے یہ مجھ سے زیادہ کون جان سکتا ہے کیونکہ میں نے 26 سال پاکستان آرمی میں زندگی گزاری ہے جس میں ہر لمحہ مشکلات میں لپٹا ہوا ہوتا ہے فوجی کو گھر کے مسائل سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا وہ ساری زندگی اپنی مٹی کا قرض ادا کرتا رہتا ہے وہ جب بھی اٹھتا ہے اس کے سامنے اس کے ہتھیار ہوتے ہیں وہ جب بھی سوتا ہے اس کے سرہانے کے نیچے اس کی بندوق پڑی ہوتی ہے وہ دشمن کے ناپاک ارادوں کو ختم کرنے کے لیے سوچتا ہے فوج اس کو سخت مشکلات سے گزار کر اس کی تربیت کرتی ہے تاکہ وہ ایک مضبوط چٹان کی طرح دشمن کے سامنے کھڑا رہے اور دشمن پر جب حملہ کرے تو شیر کے فولادی پنجے کی طرح مضبوط ہو اور کسی جگہ پر اس کے قدم نہ لڑکھڑائیں ہمارے معاشرے نے دیکھا ہے کہ پاک فوج کے جوان کس بے جگری کے ساتھ دشمن کے ساتھ نبرد آزما ہوتے ہیں ان کی ہمت عزم اور ارادہ دشمن کو ڈگمگا کے رکھ دیتا ہے پاک فوج کے جوان جس ماحول میں رہتے ہیں اس میں انہیں آگ کی تپش اور برف کی ٹھنڈک تک محسوس نہیں ہوتی وہ سیاچین سے لے کر وزیرستان کی پہاڑیوں اور سیاچین گلیشیئرز کی برف پوش چوٹیوں تک اس طریقے سے وطن کی حفاظت کرتے ہیں کہ انہیں اپنا گھر یاد ہی نہیں رہتا وہ پورے دیس کو اپنا گھر سمجھتے ہیں ان کی محبتیں وطن کی مٹی پر قربان ہو جاتی ہیں انہوں نے پیشہ ورانہ سرگرمیوں سے ایسی تاریخ رقم کی ہے کہ جس کو کوئی بندہ فراموش نہیں کر سکتا وہ کبھی لالک جان بن جاتے ہیں تو کبھی لانس نائیک محفوظ شہید کبھی کیپٹن کرنل شیر خان بنتے ہیں تو کبھی میجر عزیز بھٹی شہید ان کی قربانیاں کبھی فراموش نہیں کی جا سکتیں سعادت حسن آس صاحب نے اپنی نظم میں اسی چیز کا اظہار کیا ہے جس کے میں نے کچھ اشعار لیے ہیں اگر آپ بھی پڑھیں گے تو دل اور جگر کانپنے لگے گا سادہ الفاظ میں سعادت حسن آس نے پاک فوج کو جو پذیرائی بخشی ہے میرے خیال میں تعریف کے قابل ہے آج جس طرح پاک فوج نے بلوچستان میں ٹرین پر دہشت گردوں کے حملے کا نہایت جرات اور دلیری سے جواب دے کر مسافر آزاد کراۓ ہیں قابل تحسین ہے میں سعادت حسن آس صاحب کو پاک فوج پر نظم لکھنے پر ان کو سلیوٹ اور خراج تحسین پیش کرتا ہوں
نظم ایک فوجی میں لکھتے ہیں:۔
قرض مٹی کا بیٹا ادا کر گیا
اپنی ماں سے وہ وعدہ وفا کر گیا
ایک سیسہ پلائی وہ دیوار تھا
ہاتھ میں گویا غازی کی تلوار تھا
کوندتی بجلیوں جیسی رفتار تھا
پل میں اہلِ سپہ کیا سے کیا کر گیا
اس کی خو میں بزرگوں کا آداب تھا
عزمِ شوقِ شہادت میں بے تاب تھا
اس کے سینے میں بس اک یہی خواب تھا
جس کی تکمیل پر جاں فدا کر گیا
جھوم کر اس کو بانہوں میں لیں گے نبیؐ
اس کے ماتھے کو چومیں گے مولا علی
لاج اس نے رکھی عزمِ شبیر کی
وہ قبول اپنے رب کی رضا کر گیا
کوئی قیمت نہیں اس کے ایثار کی
ملک کی اس نے حرمت پہ جاں وار دی
یاد اس کی مٹے گی نہ دل سے کبھی
ایسی شمعیں وہ ہر سو جلا کر گیا
قوم کی ساری ماؤں کا وہ ناز تھا
قوم کے سب بزرگوں کا اعزاز تھا
بیٹیوں بہنوں بچوں کی آواز تھا
سوئی قسمت وطن کی جگا کر گیا
ماں نے دولہا بنانا تھا یہ آس تھی
اس کو دل سے لگانا تھا یہ آس تھی
عید پر اس نے آنا تھا یہ آس تھی
فرض پر اپنا سب کچھ فدا کر گیا
قرض مٹی کا بیٹا ادا کر گیا
اپنی ماں سے وہ وعدہ وفا کر گیا
ایک ماں کا درد کیسا ہوتا ہے جب اس کا بچہ سیلاب کے تیز ریلوں میں اس کے سامنے بہہ جاۓ تو وہ کس طرح تڑپتی ہے اپنی نظم
2022 کے سیلاب میں لکھتے ہیں :۔
چھین کے لے گئیں لہریں بچہ ایک ممتا کے ہاتھوں سے
بلک بلک کر ڈھونڈ تھکی وہ لاشوں کے انبار میں
میں اس کتاب پر باباۓ اٹک سعادت حسن آس صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور آخر میں ان کی درازی ء عمر کے لیے دعا گو ہوں
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔ آمین
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |