راحتِ نعت

لاہور ادب کا گڑھ ہے راحت افشاں کا تعلق بھی اسی سر زمین سے ہے ۔ ان کی پیدائش 20 جون 1970ء کو ہوئی ہے والد کا نام حاجی تاج دین ہے- راحت افشاں نے 17 سال کی عمر میں لکھنے کا آغاز کیا – اس وقت کالج میگزین میں کالم لکھا جو “آج کی عورت کل کی ماں”کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس کے بعد باقاعدہ طور پر ان کی تحریریں اخبارات میں شائع ہوتی رہی ہیں- شروع میں یہ سلسلہ کم از کم تقریباً چھ سال تک جاری رہا۔ایک مرتبہ ان کو سسر نے ایک سچی کہانی سنائی جس نے اتنا متاثر کیا کہ اس پر ایک ناول لکھنے کا ارادہ کیا۔ یہ ناول “جنبش” کے نام سے شائع ہوا۔ اس ناول کی کامیابی کے بعد انہوں نے “اضطراب ِزندگی” کے نام سے ایک اور کہانی لکھی۔ اس ناول کے دو سال بعد ایک اور ناول “عشق وفا سے فنا تک” ناول کے نام سے لکھا۔ اس کی کہانی بھی اصلی تھی-

راحتِ نعت

اس کے بعد راحت افشاں کی ادب کی دوسری اصناف میں شاعری میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ انہوں نے اپنی ابتدائی غزلیں الطاف اشعر بخاری صاحب (بھکر)کو اصلاح کے لیےدکھائیں۔ جنہوں نے حوصلہ افزائی کی۔ لیکن جوں جوں شاعری میں داخل ہوتی گئی عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے نعت اور حمد میں دلچسپی بڑھتی گئی۔ اس عقیدت اور محبت میں دنیا و آخرت دونوں کو سنوارنے میں کامیاب نظر آتی ہے ۔ اب بات کرتا ہوں ۔ راحت افشاں صاحبہ کے “نعتیہ مجموعہ کلام راحتِ نعت ” پر اس کے چار حصے ہیں ۔ پہلا حصہ حمدیہ کلام دوسرا حصہ نعتیہ کلام تیسرا حصہ نعتیہ نظمیں چوتھاحصہ سلام حضرت امام حسین علیہ السلام ہے ۔ انہوں نے اس کتاب کا انتساب اپنے مرحوم والد حاجی تاج دین صاحب کے نام ! کیا ہے۔ راحتِ نعت کے صحفات 128 ہیں اور اس کا سن اشاعت 2022ء قیمت 580 روپے ہے ۔ اللّٰہ پاک بے مثل و بے مثال ہے ۔ اس کی مثال کائنات میں نہیں ملتی وہ واحد ھو لاشریک ہے ۔ اللّٰہ پاک کی تعریف اشعار کی صورت میں کرنا بہت ہی مشکل ہے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نشانیوں کے ذریعے نظر آتا ہے اور وہاں تک پہنچنا اور اُس کو محسوس کرنا پھر سوچ و فکر کرنا صرف اور صرف باشعور و عظیم لوگوں کا کام ہے ۔ راحت افشاں صاحبہ نے جب خالقِ کائنات کو دیکھنے کی کوشش کی ہے تو بے ساختہ کہا

سب رنگ ہیں تجھ سے کہ ترا رنگ نرالا
تو سب سے جدا سب سے جدا شاہد و مشہود

نعت گو شاعر ہر ایک کی یہ حسرت ہوتی ہے کہ مدینہ شریف ضرور جائے بلکہ ہر ایک مسلمان و مومن کی زندگی بھر کی خواہش ہوتی ہے ۔ اُس کو نعت کے رنگ میں اکثر شعراء و شاعرات بیان کرتے رہتے ہیں ۔ ہر ایک کا اپنا اپنا اسلوب ہوتا ہے ۔ راحت افشاں صاحبہ کے” نعتیہ مجموعہ کلام راحتِ نعت” میں مختلف اور بڑے حسین و جمیل اور منفرد خیالات و عقیدت سے مزین اشعار موجود ہیں ۔ مگر مدینہ شریف جانے پر اظہارِ عقیدت زیادہ پایا جاتا ہے ۔ اسی وجہ سے ان کا کلام عروج پر دکھائی دیتا ہے ۔ اور قارئین کو ان کے اندر کی آواز لگتا ہے ۔ ایسے اشعار کچھ دیر تک ہی نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو بات خلوص کے ساتھ دل سے نکلے وہ روح کو معطر بھی کرتی ہے اور اثر بھی رکھتی ہے ۔ سوچ ، فکر ، عمل ، انقلاب اور عشقِ رسول ﷺ میں جذبہ پیدا کرنے کا سبب بھی بنتی ہے ۔ جس سے معاشرہ اپنے اندر کے انسان کو بیدار رکھتا ہے ۔ ایسے شان دار کلام کی وجہ سے صرف ان کا کلام ہی نہیں بلکہ تخلیق کار خود بھی امر ہو جاتے ہیں ۔ یہ تمام تر خوابوں میں رچا بسا راحت افشاں صاحبہ کا ” نعتیہ مجموعہ کلام راحتِ نعت”اعلیٰ سوچ و فکر کا حامل ہے ۔ دو شعر ملاحظہ فرمائیں

کھل جائیں گے وہاں پر دروازے رحمتوں کے
درِ مصطفیٰ ؐ سے لیں گے بخششِ کے ہم نگینے

اپنی آنکھوں کو نئی روشنی دینے کے لئے
خاک اُن گلیوں کی آنکھوں میں بھر لاؤں

جہاں اللّٰہ پاک کا ذکر ہوتا ہے ۔ وہاں نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بھی ہوتا ہے اور نبی اعظم شافعِ روزِ محشر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی آلِ اظہار علیہ السلام کا ذکر بہت ضروری ہوتا ہے کیونکہ یہ ذکر ایمان کی تازگی کا سبب ہی نہیں بلکہ جزوِ ایمان ہے ۔ سلامِ عقیدت کے حوالے سے دو شعر ملاحظہ فرمائیں ۔

جو نبیوں ؑ میں اونچا لقب پانے والے
ہیں راہِ خدا سب کو دکھلا نے والے

جتنے خیام تھے جل بجھ کے ہوئے راکھ وہاں
ہائے مشکیزے سے دو بوند نہ ٹپکا پانی

آخر میں ان کی بیٹی آرزو طارق صاحبہ کی کہی ہوئی تین عدد نعتیں بھی شامل ہیں ۔ کتاب پر اظہارِ رائے کرنے والوں میں اردو کے بڑے نام جن میں عباس خان ، ڈاکٹر محمد اشرف کمال ، ڈاکٹر سعید عاصم ، پروفیسر افضل راشد ، شرجیل بخاری شامل ہیں۔ اس کا بیک ٹائٹل اقبال حسین کا لکھا ہوا ہے ۔

maqbool

راحتِ نعت

مقبول ذکی مقبول

بھکر پنجاب پاکستان

تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

سانسوں کی زنجیر ٹوٹ گئی

جمعرات اکتوبر 20 , 2022
ہمارے بہت ہی پیارے دوست کفایت علی اعوان ان کا تعلق سخنوروں کی اس کلاس سے تھا جو ہر وقت شعر و ادب میں کچھ نہ کچھ کہتے یا لکھتے رہتے تھے
سانسوں کی زنجیر ٹوٹ گئی

مزید دلچسپ تحریریں