پی ایس ایل یا پرسنل سپر لیگ
تحریر محمد ذیشان بٹ
پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا دسواں ایڈیشن اپنے اختتامی لمحات کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایک دہائی گزر چکی، کئی نوجوان اس پلیٹ فارم سے نکل کر قومی ٹیم کا حصہ بنے، پی ایس ایل ایک بین الاقوامی برانڈ بن گیا، مگر جو اصل مقصد تھا — نئے ٹیلنٹ کو مواقع دینا — وہ اب کہیں بیچ راستے میں رہ گیا ہے۔ معیار گر رہا ہے، جذبات کم ہو رہے ہیں، اور سب سے بڑھ کر ایک بیماری ہر ٹیم کو چاٹ رہی ہے: خود غرض کپتانی۔
آج بھی پی ایس ایل آئی پی ایل جیسی لیگز سے بہتر سمجھی جاتی ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ سیاسی کشیدگی کے باوجود غیر ملکی کھلاڑی پاکستان آ کر کھیلنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ ہماری لیگ کی عزت ہے، مگر افسوس کہ اپنے ہی کچھ نام نہاد "ستارے” اس عزت کو بچانے کے بجائے صرف اپنی جگہ بچانے میں لگے ہیں۔
سب سے پہلے بات کرتے ہیں پشاور زلمی کی قیادت کرنے والے بابر اعظم کی۔ بابر بلاشبہ کلاس کا کھلاڑی ہے، لیکن اس وقت فارم میں نہیں۔ اس کے باوجود وہ مسلسل اوپننگ کرتے ہیں — حالانکہ صائم ایوب جیسا نوجوان، جو خود بھی اوپنر ہے، اور اس سیزن میں بہترین پرفارمنس دے رہا ہے، بابر کے ساتھ کھیل کر خود اعتمادی کھو بیٹھتا ہے۔ بابر نے قیادت میں نوجوانوں کو جگہ دینے کی بجائے اپنے نمبر، اپنی جگہ اور اپنی اہمیت کو ترجیح دی۔
اسی ٹیم میں محمد حارث جیسا ہنر مند کھلاڑی بھی ہے، جسے کسی بھی نمبر پر کھیلایا جاتا ہے، بس ٹیم میں رکھنے کی رسم نبھائی جاتی ہے۔ اگر حارث کو مسلسل اوپر کے نمبر پر کھلایا جاتا تو وہ ٹیم کے لیے میچ ونر بن سکتا تھا۔ مگر یہاں فیصلہ ہمیشہ یہی ہوتا ہے: “بابر پہلے، ٹیم بعد میں”۔
اب آتے ہیں ملتان سلطانز کی طرف۔ اس ٹیم کی کمان محمد رضوان کے ہاتھ میں ہے۔ رضوان مستقل مزاج ہے، لیکن بطور کپتان اس کی حکمت عملی محدود نظر آئی۔ ملتان نے نوجوانوں کو تھوڑا بہت موقع دیا، خاص طور پر عباس آفریدی نے خود کو بولنگ میں منوایا، مگر دیگر شعبوں میں عرفان خان نیازی اور احسان بھٹی جیسے کھلاڑیوں کو پورا موقع نہیں دیا گیا۔
ادھر کراچی کنگز میں دلچسپ صورتِ حال ہے۔ ٹیم کی قیادت اب ایک غیر ملکی کھلاڑی ڈیوڈ وارنر کے پاس ہے — اور یہی ٹیم اس لیگ میں مثال بن کر ابھری ہے۔ وارنر نے آتے ہی واضح کر دیا کہ ٹیم میں نوجوانوں کو مکمل موقع ملے گا۔ یہی وجہ ہے کہ خوشدل شاہ، طیب طاہر، محمد عرفان نیازی، اور فیضان ریاض جیسے کھلاڑیوں کو پورا سیزن کھلایا گیا اور ان سے میچ وننگ پرفارمنس لی گئی۔ وارنر نے خود کوئی نمبر مخصوص نہیں کیا، بلکہ جہاں ٹیم کو ضرورت ہوئی وہاں کھیلے، اور اسی وجہ سے کراچی کئی سالوں بعد ایک مربوط ٹیم بن کر ابھری۔
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی قیادت اس بار سعود شکیل کے ہاتھ میں ہے، جن سے بڑی امیدیں تھیں۔ مگر نہ خود پرفارم کر سکے اور نہ ٹیم کو سنبھال سکے۔ عبدالوحید بنگلزئی، اویس شاہ اور خلیل احمد جیسے نوجوان کھلاڑیوں کو مختصر مواقع دیے گئے اور پھر انہیں باہر بٹھا دیا گیا۔ حالانکہ یہ وہی کھلاڑی ہیں جنہوں نے پاکستان اے اور انڈر-19 میں بہترین کارکردگی دکھائی تھی۔
اسلام آباد یونائیٹڈ کی ٹیم ہمیشہ نوجوانوں کو موقع دینے میں سب سے آگے رہی ہے، مگر اس بار شاداب خان کی قیادت میں صورتحال کچھ مختلف رہی۔ حسن نواز، عماد بٹ اور مبصر خان جیسے کھلاڑی ٹیم کے گرد ضرور گھومتے رہے، مگر جب بات پلیئنگ الیون کی آئی، تو تجربہ کار کھلاڑیوں کو ہی ترجیح دی گئی، وہ بھی ان کی خراب فارم کے باوجود۔ گزشتہ سب میچ میں شاداب کی خود غرصی کی انتہا ایلکس ہیل جیسے کھلاڑی کو نان سڑاکنگ اینڈ پر کھڑا رکھ کر خود کھیلتے رہے
لاہور قلندرز، جنہوں نے گزشتہ دو ایڈیشن میں بہترین ٹیم ورک دکھایا تھا، اس بار بدترین کارکردگی کے ساتھ باہر ہو چکے ہیں۔ شاہین آفریدی کی کپتانی میں بھی وہ بات نہیں رہی۔ زمان خان کو بولنگ میں سائیڈ لائن کیا گیا، جہانزیب سلطان جیسے بولرز کو محدود موقع ملا۔ ٹیم میں جیتنے کا جذبہ کم اور "اپنوں کو کھلاؤ” کی پالیسی زیادہ نظر آئی۔
آج کی کرکٹ صرف اسٹار پاور سے نہیں جیتی جاتی، ٹیم ورک، سوچ، اور وژن کا کھیل ہے۔ کپتان وہ ہوتا ہے جو دوسروں کو سنوارے، نئے کھلاڑیوں کو سامنے لائے، اور مستقبل بنائے۔ عمران خان نے جب وسیم اور وقار جیسے نوآموز کھلاڑیوں کو ورلڈ کپ میں کھلایا، تو دنیا نے ایک نئی پاکستانی ٹیم دیکھی۔ وسیم اکرم نے جب شعیب اختر اور ثقلین مشتاق کو موقع دیا، تو پاکستان کرکٹ عالمی طاقت بنی۔
آج پی سی بی کو سنجیدگی سے اس معاملے پر غور کرنا ہوگا۔ تمام فرنچائزز کو ہدایت دی جانی چاہیے کہ وہ ہر سیزن میں کم از کم تین باصلاحیت نوجوان کھلاڑیوں کو مکمل موقع دیں۔ کپتانوں کی سلیکشن میں صرف نام نہیں، ان کی ٹیم بنانے کی صلاحیت دیکھی جائے۔
اگر ایسا نہ ہوا، تو وہ دن دور نہیں جب ہم نیپال، افغانستان اور بنگلہ دیش سے بھی ہارنے لگیں گے — اور اس وقت صرف ٹیم نہیں، پوری قوم ہارے گی۔
پی ایس ایل کا اصل مقصد "پاکستان کا مستقبل” ہے، نہ کہ "کپتان کی انا”۔ اگر کپتان خود کو ٹیم سے اوپر سمجھتے رہے، تو نہ ٹیم بچے گی، نہ ٹیلنٹ۔ مگر اگر ہر ٹیم کو ایک وارنر جیسا لیڈر ملے، تو پھر ہر سال پاکستان کو ایک نیا وسیم، نیا بابر، اور نیا شعیب ملے گا۔
Title Image by Tung Lam from Pixabay

محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |