دعا مومن کا ہتھیار ہے
تحریر محمد ذیشان بٹ
انسان کا اپنے رب سے وہ رشتہ ہے جو الفاظ سے زیادہ جذبات سے جُڑا ہوتا ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جس پر چل کر ایک بندہ اپنے رب کے دربار میں حاضر ہوتا ہے، اپنی محرومیوں کا شکوہ کرتا ہے، اپنی امیدوں کا اظہار کرتا ہے، اور دل کی گہرائیوں سے مانگتا ہے۔ دعا، بندے کی کمزوری اور رب کی قدرت کا اعتراف ہے۔ جب کوئی بندہ کہتا ہے کہ "یا اللہ”، تو گویا وہ اپنی عاجزی، لاچاری اور ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے اُس ذاتِ باری تعالیٰ کو پکار رہا ہوتا ہے جو "کُن فیکون” کہنے پر قادر ہے۔
دعا محض زبان سے ادا کیے گئے الفاظ نہیں، بلکہ ایک روحانی کیفیت ہے۔ یہ ایک سچا تعلق ہے جو صرف اللہ کے ساتھ جڑتا ہے۔ یہ وہ دروازہ ہے جو کبھی بند نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں کہ "مجھ سے مانگو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔” اس میں نہ وقت کی قید ہے، نہ جگہ کی، نہ زبان کی شرط ہے، اور نہ ہی کوئی دُور رہنے کی حد۔ دعا وہ ذریعہ ہے جس سے ایک غریب، بادشاہ کے برابر ہو جاتا ہے اور ایک گناہ گار، ولیوں کی صف میں کھڑا ہو جاتا ہے۔
دعا کے لیے دل کا نرم ہونا ضروری ہے، آنکھوں کا نم ہونا ضروری ہے، اور سب سے بڑھ کر، رزق کا حلال ہونا بہت اہم ہے۔ ایک حدیثِ پاک ہے کہ ایک شخص سفر میں ہوتا ہے، گرد آلود ہوتا ہے، ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا ہے: "یا رب، یا رب”، مگر اس کا کھانا حرام، لباس حرام، اور پیٹ حرام سے بھرا ہوا ہوتا ہے، تو اللہ کیسے اُس کی دعا قبول کرے؟ یہ حدیث ہمیں واضح پیغام دیتی ہے کہ دعا کے اثر میں رزقِ حلال کا کردار بنیادی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری دعائیں قبول ہوں، تو سب سے پہلے ہمیں اپنی کمائی کو پاک اور حلال بنانا ہوگا۔
حضرت امام احمد بن حنبل کا واقعہ بہت مشہور ہے۔ وہ ایک سفر میں تھے اور ایک مسجد میں رات گزارنے کا ارادہ کیا، مگر وہاں کے نگہبان نے اجازت نہ دی۔ امام صاحب نے بہت اصرار کیا مگر وہ نہ مانا۔ امام صاحب نے مسجد کے دروازے کے قریب ہی سونا چاہا، تو نگہبان نے انہیں وہاں سے بھی ہٹا دیا۔ بالآخر ایک نانبائی نے انہیں اپنے گھر لے جا کر مہمان بنایا۔ رات کو وہ نانبائی اپنے معمول کے مطابق آٹا گوندھتے ہوئے مسلسل استغفار کرتا رہا۔ امام صاحب نے حیرت سے پوچھا: "تم کب سے یہ عمل کر رہے ہو؟” نانبائی نے کہا: "برسوں سے، اور اللہ نے میری ہر دعا قبول کی ہے۔” امام صاحب نے پوچھا: "کیا کبھی کوئی دعا قبول نہ ہوئی ہو؟” نانبائی بولا: "بس ایک دعا ابھی باقی ہے، کہ امام احمد بن حنبل سے ملاقات ہو جائے۔” امام صاحب مسکرائے اور بولے: "اللہ نے تو تمہاری یہ دعا بھی قبول فرما دی، دیکھو میں خود تمہارے دروازے پر آیا ہوں۔” یہ واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ دعا کے لیے مسلسل استغفار، اللہ سے لو لگانا، اور دل سے مانگنا ضروری ہے۔ یہ محض الفاظ کا تکرار نہیں، بلکہ ایک روحانی سفر ہے، جس میں بندہ رب کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔
ریاض، سعودی عرب کے مشہور آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر احمد کا ایک واقعہ بھی بہت سبق آموز ہے۔ وہ ایک بار ایک شدید زخمی مریض کا آپریشن کر رہے تھے، مریض کی حالت نازک تھی۔ ڈاکٹر احمد نے بتایا کہ انہوں نے اس وقت اپنے تمام تر تجربے کے باوجود خود کو بے بس محسوس کیا، اور دل ہی دل میں اللہ سے دعا کی: "یا اللہ، تُو ہی شفا دینے والا ہے، میری کوشش کو قبول فرما۔” اس کے بعد مریض کی حالت بہتر ہونے لگی اور آپریشن کامیاب ہوا۔ ڈاکٹر احمد نے یہ واقعہ کئی بار بیان کیا ہے کہ ایک وقت آتا ہے جب علم، مہارت اور تجربہ سب ایک حد تک کام آتے ہیں، مگر اصل سہارا دعا کا ہوتا ہے۔ انسان کتنا ہی قابل ہو، مگر جب رب کی مدد شامل نہ ہو تو کامیابی ممکن نہیں۔
سب سے مقبول دعا درود شریف ہے۔ امامِ کعبہ الشیخ صالح پر دل کا آپریشن ہوا، مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ حالت مزید بگڑ گئی، اور ڈاکٹرز دوبارہ آپریشن کی تیاری کرنے لگے۔ اسی دوران ایک لبنانی نرس آئی اور ادب سے کہا: "یا شیخ، کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھنا شروع کیا؟” امام صاحب نے فوراً درود شریف کا ورد شروع کیا — "اللهم صل على محمد وعلى آل محمد” — اور مسلسل پڑھتے رہے۔ کچھ دیر بعد دل کو سکون ملنے لگا، طبیعت بہتر ہوئی، اور جب ڈاکٹرز نے دوبارہ جانچ کی تو حیران رہ گئے: دل نارمل ہو چکا تھا۔ دوسرا آپریشن منسوخ کر دیا گیا۔ امام صاحب خود کہتے ہیں کہ یہ شفا درود شریف کی برکت سے ملی۔ یہ واقعہ درود کی روحانی طاقت، دعا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے۔
صحابہ کرام اور تابعین کا عمل دعا کے معاملے میں مثالی تھا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: "مجھے اپنی دعا کی قبولیت کی فکر نہیں، بلکہ مجھے دعا کرنے کی توفیق کی فکر ہوتی ہے، کیونکہ دعا کی توفیق ملنا ہی اللہ کی طرف سے قبولیت کی نشانی ہے۔” حضرت علی کرم اللہ وجہ فرمایا کرتے تھے کہ "دعا مؤمن کا ہتھیار ہے۔” تابعین رات کی تنہائی میں اٹھ کر رب کو یاد کرتے، دروازے بند کر کے، دل کھول کر گڑگڑاتے، روتے اور مانگتے۔ ان کے پاس دنیاوی وسائل کم تھے، مگر رب کی رحمت کے خزانے اُن کے لیے ہر وقت کھلے تھے۔
دعا کے اوقات بھی اہم ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر رات کے آخری پہر آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور آواز دیتے ہیں: "ہے کوئی مانگنے والا کہ میں اسے عطا کروں؟” یہ وقت دعا کی قبولیت کا خاص لمحہ ہوتا ہے۔ اسی طرح اذان کے بعد، فرض نماز کے بعد، جمعہ کے دن کی آخری گھڑیاں، روزے کی حالت میں، افطار کے وقت، بارش کے وقت، والدین کی دعا، مظلوم کی فریاد، مسافر کی پکار — یہ سب ایسے مواقع ہیں جب دعا رد نہیں کی جاتی۔
اللہ تعالیٰ انسان کی دعا کو کئی طریقوں سے قبول فرماتا ہے۔ یا تو وہ مانگی ہوئی چیز فوراً دے دیتا ہے، یا اس سے بہتر چیز دیتا ہے، یا کوئی مصیبت ٹال دیتا ہے، یا آخرت کے لیے ذخیرہ کر دیتا ہے۔ ہر صورت میں بندے کا فائدہ ہی ہوتا ہے۔
آخر میں ایک نہایت اہم بات یہ ہے کہ دعا کسی سے زبردستی نہیں لی جا سکتی۔ اکثر لوگ کہتے ہیں: "ہمارے لیے دعا کریں” — حالانکہ دعا دل سے نکلتی ہے، محض زبانی درخواست پر دعا مانگی نہیں جاتی، وہ لی جاتی ہے۔ یعنی انسان ایسا عمل کرے، ایسا اخلاق اختیار کرے کہ دوسروں کے دل سے اس کے لیے دعا خود بخود نکلے۔ دعا لینے کے لیے دل جیتنا پڑتا ہے، محبت بانٹنی پڑتی ہے، اور سب سے بڑھ کر عاجزی اختیار کرنی پڑتی ہے۔
دعا میں ایک عجیب طاقت ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جو کبھی بند نہیں ہوتا۔ یہ وہ دروازہ ہے جو ہر حال میں کھلا رہتا ہے۔ انسان جب سب طرف سے مایوس ہو جائے تو دعا ہی وہ سہارا ہے جو اسے امید کی نئی روشنی دیتا ہے۔ یہ وہ تحفہ ہے جو ہر وقت، ہر جگہ اور ہر حال میں ممکن ہے، بس دل کو نرم کرنے اور لبوں کو سچا بنانے کی دیر ہے۔ رب تو کہتا ہے، مانگنے والا چاہیے — اور وہ دینے والا بن کر منتظر ہے۔
رب ہمیں اپنی بارگاہ میں سچی دعا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، فلسطین سمیت پوری دنیا میں مظلوم مسلمانوں کے لیے دل سے دعائیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری دعاؤں کو اپنی رحمت سے قبول فرمائے، آمین۔
Title Image by Mohamed Hassan from Pixabay

محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |