پیٹر ایگریٹ کی ریاست چترال پر تحقیقی کتاب موڑکھو تورکھو
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
ریاست چترال برصغیر کے شمالی کوہستانی علاقوں میں ایک ممتاز ریاست کی حیثیت رکھتا تھا جو ۱۹ ویں صدی کے اواخر میں رفتہ رفتہ برطانوی ہندوستان کا حصہ بنی، لیکن اپنی اندرونی خودمختاری اور روایتی سماجی ڈھانچے کو کافی حد تک محفوظ رکھنے میں کامیاب رہی۔ ۱۹۵۴ میں چترال کو پاکستان میں ضم کر دیا گیا، اور باضابطہ طور پر ۱۹۶۹ میں اس کی ریاستی حیثیت ختم ہوئی۔ لیکن اس وقت تک چترال کی قدیم سماجی ساخت اپنی جڑوں سمیت قائم تھی، جو قبل از اسلام اور قبل از نوآبادیاتی دور سے چلی آ رہی تھی۔
جرمن محقق پیٹر ایگریٹ کی تحقیقی دستاویز "مولکھوس اور تورکھوس (موڑکھو اور تورکھو) چترال کی سماجی ساخت” ایک اہم تاریخی و سماجی تحقیق ہے جس میں چترال کے دو خطوں (موڑکھو اور تورکھو) کی سماجی تنظیم، قبیلائی نظام، جاگیردارانہ ڈھانچہ اور طبقاتی تقسیم کا گہرا تجزیہ کیا گیا ہے۔
ایگریٹ نے اپنی اس تھیسس میں یہ ثابت کیا ہے کہ چترال کا سماج "Segmentary State” کی خصوصیات رکھتا تھا۔ یہاں خاندان اور برادریوں کی بنیاد پر منظم قبیلے موجود تھے، جو پدرانہ اور پدرمحل نظام پر مبنی تھے۔ ان قبیلوں کا سائز چھوٹے (چند گھرانوں) سے لے کر بڑے (۳۶۰ گھرانوں یا ۲۸۱۰ افراد تک) تک ہوتا تھا۔ یہ قبیلے نہ صرف جغرافیائی اعتبار سے ایک دوسرے کے قریب آباد تھے بلکہ سماجی اور معاشی سطح پر ایک دوسرے کے مددگار بھی تھے۔
ایگریٹ نے ایک اہم روایت کی طرف اشارہ کیا ہے، جسے "شِرموش”(چھیر موژ) نظام کہا جاتا ہے۔ اس نظام کے تحت حکمران طبقہ (خصوصاً تیموری سلسلہ) اپنے بچوں کو اعلیٰ ذات کی عورتوں کے پاس دودھ پلوانے یا علامتی پرورش کے لیے بھیجتا تھا تاکہ سیاسی وفاداری کا دائرہ وسیع ہو سکے۔ اس رسم کے سیاسی مفادات کو واضح کرتے ہوئے ایگریٹ نے یہ بتایا کہ کس طرح حکمران خاندان اپنے بچوں کو مختلف علاقوں میں رکھ کر مقامی حمایت حاصل کرتا تھا۔
ایگریٹ کی تحقیق کے مطابق چترالی سماج میں درج ذیل طبقات موجود تھے جن میں سرفہرست آدمزادہ طبقہ تھا جس میں حکمران طبقہ، جاگیردار اور اعلیٰ ذات والے شامل ہیں ۔ دوسرا طبقہ یُفت کہلاتا تھا جو کہ آزاد کسان اور درمیانہ طبقہ تھا ۔ تیسرا طبقہ بولدویو ہے جو کہ تعمیراتی اور عوامی خدمات انجام دینے والا طبقہ تھا۔ چوتھا طبقہ شِرموش یعنی چھیر موژ تھا جن میں خانا زاد کلاتا تھا۔ پانچواں طبقہ رعیاد تھا جوکہ زرعی مزدور، غلام اور کرائے دار تھے ۔ چھٹا طبقہ مذہبی رہنما تھے جو محدود اثر و رسوخ اور کم عزت و مقام کے مالک تھے۔
ایگریٹ کی تحقیق کے مطابق صرف آدمزادہ، یُفت اور بولدویو قبیلائی تنظیم میں خود کو منظم کر سکتے تھے، جبکہ شِرموش(چھیر موژ)، رعیاد اور خانا زاد کو ایسے کسی اجتماعی شناخت کے حق سے محروم رکھا گیا۔
پیٹر ایگریٹ نے ریاست چترال زمین اور وسائل کی غیر مساوی تقسیم کی بھی نشاندہی کی ہے۔تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ آدمزادہ آبادی کا صرف ۳۱ فیصد تھے لیکن زرعی زمین کا ۶۴ فیصد ان کی ملکیت میں تھا۔ ایک اوسط آدمزادہ خاندان کے پاس تقریباً دو ہیکٹر زمین تھی، جو یورپی معیار کے مقابلے میں نہایت معمولی ہے، لیکن مقامی سماجی طاقت کے لحاظ سے بے حد اہم تھی۔
پیٹر ایگریٹ نے کٹور خاندان کی مرکزی اور متعدد حکمرانی کی حکمت عملی کو بڑی باریکی سے بیان کیا ہے۔ چترال میں کئی مہتر بیک وقت مختلف علاقوں میں حکمرانی کرتے تھے، تاہم مہترِ اعظم (Mehtar of all Chitral) کو کچھ خصوصی اختیارات حاصل تھے جیسے جلاوطنی یا غلامی کا حکم دینا۔
رشتہ داریاں، دودھ شریک تعلقات، سیاسی شادیاں اور مقامی حکمرانوں کی تعیناتی کے ذریعے حکمران خاندان نے اپنی گرفت مضبوط رکھی۔ ایگریٹ کے مطابق ان تمام سیاسی سرگرمیوں نے ایک جانب ریاست چترال کو خانہ جنگیوں کا شکار بنایا تو دوسری جانب اس کی سیاسی وحدت اور بیرونی آزادی کو طویل عرصے تک قائم رکھا۔
برطانوی دور میں چترال کا روایتی نظام تبدیل ہوا۔ مرکزی حکمرانی، بیوروکریسی اور مالیاتی ٹیکس کا نفاذ جیسے اقدامات سے مہترِ اعظم کی قوت میں بے حد اضافہ ہوا۔ عشر اور "ساورنگ” جیسے نئے ٹیکسز متعارف ہوئے۔ ملیشیا کی تشکیل نے آدمزادہ طبقے کی عسکری اجارہ داری ختم کی اور یُفت و بولدویو کی تعداد میں اضافہ ہوا، جو ایک نئی متوسط طبقاتی قوت کے طور پر ابھرا۔
ایگریٹ کی تحقیق میں چترال کے سماجی نظام کو ایک "بند مگر متحرک سماج” کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ان کا اندازہ ہے کہ طبقاتی حدود کے باوجود کچھ طبقات (مثلاً یُفت اور بولدویو) ترقی کی راہیں پا سکتے تھے۔ لیکن شِرموش (چھیرموژ) ، خانا زاد اور رعیاد جیسی ذیلی جماعتیں سماجی سطح پر محدود اور جمود کا شکار رہیں۔
البتہ ایگریٹ کی تحقیق پر یہ تنقید بھی کی گئی ہے کہ انہوں نے مقامی مذہبی قیادت کے اثر کو کافی کم کر کے پیش کیا ہے حالانکہ چترال جیسے مذہبی سماج میں روحانی رہنماؤں کا کردار بعض اوقات مقامی حکمرانوں سے زیادہ مؤثر رہا ہے۔
پیٹر ایگریٹ کا تحقیقی کام "موڑکھو اور تورکھو” صرف ریاست چترال کی سماجی تاریخ کا ایک خاکہ ہی نہیں بلکہ برصغیر کے شمالی کوہستانی ریاستوں کے سماجی ارتقاء کا ایک مثالی تحقیقی و تنقیدی مطالعہ بھی ہے۔ ان کی تحقیق نہ صرف ریاست چترال کے قبیلائی نظام، جاگیرداری تعلقات اور طبقاتی کشمکش کو اجاگر کرتی ہے بلکہ اس کی تاریخی خودمختاری، سیاسی حکمت عملی، اور سماجی تنوع کو بھی علمی سطح پر محفوظ کرتی ہے۔
یہ تحقیقی مقالہ نہ صرف محققین بلکہ مؤرخین، سماجی ماہرین اور ریاستی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے ایک بے مثل علمی سرمایہ ہے۔
Title Image by webcitestraffic from Pixabay
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |