پاک، چین، افغانستان سہ فریقی فورم
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
دنیا کی جغرافیائی تقسیم اور اس میں بسنے والی اقوام کی باہمی قربت کی سب سے بڑی دلیل ان کی سرحدیں ہیں۔ یہ سرحدیں اگرچہ علیحدگی کی علامت سمجھی جاتی ہیں، لیکن حقیقت میں یہی وہ روابط ہیں جو ہمسایہ ممالک کو ایک دوسرے سے جوڑتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے، قوموں کی بقاء، ترقی اور سلامتی میں ان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مستحکم، خوشگوار اور مربوط تعلقات کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ جیوپولیٹکس اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ہمسایہ ممالک کے درمیان امن و تعاون عالمی سطح پر استحکام کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔
افغانستان تاریخی، جغرافیائی اور تہذیبی لحاظ سے وسطی اور جنوبی ایشیا کے درمیان ایک قدرتی پل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ملک نہ صرف ایشیا کے دل میں واقع ہے بلکہ قدیم شاہراہ ریشم اور جدید تجارتی راہداریوں کا سنگم بھی ہے۔ افغانستان کی سرزمین میں چھپی ہوئی معدنیات، اس کی اسٹریٹجک پوزیشن اور تہذیبی تنوع اسے ایک منفرد حیثیت عطا کرتے ہیں۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر چین، پاکستان اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی تعاون کی عمارت کھڑی کی گئی ہے۔
چین، پاکستان اور افغانستان پر مشتمل سہ فریقی فورم ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو ان ممالک کو جیوپولیٹک، اقتصادی اور سیکیورٹی مسائل پر مشاورت اور باہمی اشتراک کی راہ فراہم کرتا ہے۔ عالمی منظرنامے میں جب خطے کی سیاسی صورتحال پیچیدہ ہوتی جارہی ہو، اس طرح کے پلیٹ فارمز کی افادیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ فورم کے ذریعے تینوں ممالک نے تجارت، سرمایہ کاری، توانائی، انفراسٹرکچر، اور سیکیورٹی جیسے شعبوں میں تعاون بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
جنوبی ایشیا اس وقت دہشت گردی کے جس عفریت کا شکار ہے، اس کا حل کسی ایک ملک کے بس کی بات نہیں۔ دہشت گرد تنظیمیں سرحدوں کے قید سے آزاد ہوچکی ہیں اور ان کی سرگرمیاں تمام خطے میں پھیلی ہوئی ہیں۔ پاکستان نے گزشتہ دو دہائیوں میں اس ناسور کے خلاف سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ 70 ہزار سے زائد انسانی جانیں، اربوں ڈالر کا معاشی نقصان، اور معاشرتی ڈھانچے کی تباہی اس جدوجہد کی گواہ ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بھارت کی جانب سے دہشت گردی کا الزام لگا کر فضائی کارروائیاں کرنا نہ صرف غیر دانشمندانہ ہے بلکہ خطے کے امن کے لیے شدید خطرہ بھی ہے۔
22 اپریل تا 10 مئی کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان شدید کشیدگی نے نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔ ایسے میں چین، پاکستان اور افغانستان کے اعلیٰ سطحی نمائندوں کا کابل میں اکٹھے ہونا ایک سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ افغان وزیر خارجہ ملا امیر متقی کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں امن و استحکام، انسداد دہشت گردی اور باہمی اعتماد سازی کے اقدامات پر بات چیت کی گئی، جو اس وقت کے علاقائی تناظر میں نہایت اہمیت کی حامل ہے۔
اگر تاریخی لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اقوام کے درمیان جنگوں، بداعتمادی اور تنازعات کا سب سے بڑا سبب کمیونیکیشن گیپ اور اعتماد کا فقدان رہا ہے۔ سہ فریقی فورم جیسے ادارے ان خلاؤں کو پر کرنے اور پائیدار ترقی و امن کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کہ تمام ہمسایہ ممالک، خاص طور پر پاکستان، افغانستان اور چین، باہمی مفادات کے حصول اور دہشت گردی جیسے مشترکہ چیلنجز کے خاتمے کے لیے متحد ہوں۔
موجودہ دور کا تقاضا ہے کہ ہمسایہ ممالک ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کے بجائے باہمی مشاورت، اقتصادی تعاون اور ثقافتی اشتراک کو فروغ دیں۔ جیوپولیٹک حقیقت یہ ہے کہ خوشحال ہمسایہ ہی ایک محفوظ قوم کی ضمانت ہوتا ہے۔ پاکستان، افغانستان اور چین کے درمیان سہ فریقی تعاون ایک مثبت پیش رفت ہے، جسے مزید وسعت دے کر پورے خطے میں دیرپا امن اور ترقی کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |