پاک افغان جنگ:حل کیا ہے؟
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی *
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی تعلقات ہمیشہ سے ہی نازک نوعیت کے رہے ہیں۔ 1893ء میں قائم ہونے والی ڈیورنڈ لائن نے دونوں ممالک کے درمیان ایک ایسی سیاسی لکیر کھینچ دی ہے جس نے خطے کی سیاست، قبائلی زندگی اور سرحدی سلامتی کو ہمیشہ کے لیے متاثر کیا۔ 1947ء میں پاکستان کے قیام کے بعد سے ہی افغانستان نے اس سرحد کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا، جس کے نتیجے میں کئی دہائیوں تک کشیدگی، غلط فہمیاں اور عسکری جھڑپیں جاری رہیں۔
1979ء کی افغان جنگ کے دوران پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی، لیکن اس انسانی ہمدردی کے اقدام نے سرحدی علاقوں میں اسلحے، منشیات اور شدت پسندی کے رجحان کو جنم دیا۔ نائن الیون کے بعد یہی سرحد دہشت گردوں کے داخلے اور فرار کا راستہ بن گئی۔
اکتوبر 2025ء میں پاک افغان سرحد پر ایک بار پھر کشیدگی دیکھنے میں آئی۔ افغان سرزمین سے پاکستان پر بلا اشتعال فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں پاک فوج کے 23 جوان شہید اور 20 زخمی ہوئے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق پاک فوج نے فیصلہ کن جوابی کارروائی کرتے ہوئے تقریباً 200 طالبان اور منسلک دہشت گردوں کو ہلاک کیا اور 19 سے زائد افغان پوسٹوں پر قبضہ کر لیا۔
افغان سرزمین پر دہشت گردوں کے ٹھکانے، تربیتی مراکز اور بٹالین ہیڈکوارٹرز کو نشانہ بنایا گیا، جن میں درانی کیمپ، غر نالی ہیڈکوارٹر، ترکمان زئی کیمپ اور منوجیا بٹالین شامل ہیں۔ پاک فوج نے کارروائی کے دوران شہری نقصانات سے بچنے کے لیے خصوصی احتیاط برتی اور دہشت گردوں کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے افغان حکومت پر زور دیا کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستان کی سرحدوں کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے اور پاک فوج نے ہمیشہ دشمن کو منہ توڑ جواب دیا ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے اس کارروائی کو پاکستان کی عسکری پیشہ ورانہ مہارت کا مظہر قرار دیا اور کہا کہ طالبان رات کی تاریکی میں حملہ آور ہوئے، لیکن پاک فوج نے ان کی سازش کو ناکام بنا دیا۔
وزیر ریلوے حنیف عباسی نے اپنے بیان میں کہا کہ افغانستان نے بارہا پاکستان کی دوستی کا جواب غداری سے دیا اور بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف کارروائیاں کیں۔ اس بزدلانہ کارروائی کے بعد پاکستان سے نمک حرام کے نام سے گانا بھی ریلیز ہوا ہے اور نمک حرامی کرنے والوں کو زور دار جواب دیا گیا ہے۔
یہ واقعہ محض ایک عسکری جھڑپ نہیں بلکہ خطے کے بدلتے ہوئے جیو پولیٹیکل منظرنامے کی ایک واضح علامت بھی ہے۔
افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد امید تھی کہ دہشت گردی کی روک تھام اور سرحدی استحکام میں بہتری آئے گی، لیکن حالیہ واقعات اس کے برعکس ثابت ہو رہے ہیں۔ طالبان حکومت کی جانب سے داعش، خوارج اور فتنہ الہند جیسے عناصر کو کنٹرول کرنے میں ناکامی نے پاکستان کے لیے سنگین خطرات پیدا کیے ہیں۔
پاک فوج کی جانب سے کی جانے والی کارروائی دفاعی حکمتِ عملی کے تحت تھی جس کا مقصد پاکستان کے عوام اور سرحدی علاقوں کے تحفظ کو یقینی بنانا تھا۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت نے ہمیشہ احتیاط، پیشہ ورانہ مہارت اور تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن جب دشمن نے جارحیت کی، تو جواب میں طاقت کا مظاہرہ کرنا قومی خودمختاری کے اصول کے عین مطابق تھا۔
یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا جب طالبان وزیر خارجہ بھارت کے دورے پر تھے۔ یہ محض اتفاق نہیں لگتا بلکہ ایک بڑی علاقائی سازش کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ بھارت کی جانب سے افغانستان میں سرمایہ کاری اور اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششیں پاکستان کے لیے ہمیشہ تشویش کا باعث رہی ہیں۔
پاکستان کا مؤقف واضح ہے کہ وہ افغان سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔
اس واقعے نے پاکستانی قوم میں وحدت، عزم اور حب الوطنی کے جذبے کو ایک بار پھر تازہ کر دیا ہے۔
23 شہداء کا خون اس بات کی یاد دہانی ہے کہ پاکستان کی بقاء اور سلامتی کے لیے قربانی دینا ہماری قومی روایت ہے۔ یہ جذبہ علامہ محمد اقبال کے اس تصورِ ملت کی عملی تصویر ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ
“افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ”
پاک افغان بارڈر پر حالیہ جھڑپیں خطے کے سیاسی استحکام کے لیے ایک انتہائی حساس موڑ ثابت ہو سکتی ہیں۔ پاکستان کو نہ صرف اپنے دفاعی اقدامات کو مضبوط بنانا ہوگا بلکہ سفارتی سطح پر بھی طالبان حکومت پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ اپنی سرزمین سے دہشت گرد عناصر کا خاتمہ یقینی بنائے۔
یہ واقعہ اس امر کی واضح علامت ہے کہ پاکستان اپنی خودمختاری، علاقائی سالمیت اور قومی وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
پاک فوج کی یہ کارروائی تاریخ کے ان سنہری ابواب میں شامل ہوگی جہاں قوم نے متحد ہو کر دشمن کو پیغام دیا تھا کہ “یہ وطن ہمارا ہے، ہم ہیں پاسبان اس کے۔”
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |