تَذليل نہیں، حُسنِ سُلوک
تحریر: عبدالوحید خان، برمنگھم (یوکے)
وطن عزیز پاکستان میں سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں حالیہ دنوں میں ستھرا پنجاب پروگرام کے تحت نہ صرف بازاروں ، سڑکوں اور راستوں کی صفائیاں کی جارہی ہیں بلکہ تجاوزات بھی ہٹائی جا رہی ہیں اور جن لوگوں نے اپنی دکانوں کے باہر بڑے بڑے تھڑے یا چھجے بنا رکھے ہیں وہ بھی مختلف شہروں کے بازاروں میں گرا دئیے گئے ہیں اور بتدریج یہ مہم دوسرے شہروں میں بھی جا رہی ہے- اسی طرح قبضہ کی گئی جگہ پر بنائے گئے مختلف ہوٹل، دکانیں اور بزنس بھی مسمار کر دئیے گئے ہیں جس کی عوامی سطح پر تعریف کی جا رہی ہے لیکن کچھ حلقوں کی طرف سے بجا طور پر یہ اعتراض اور سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ جب قبضے اور تجاوزات ہو رہی ہوتی ہیں تو سرکاری مشینری کہاں غائب ہوتی ہے اور کیوں چپ رہتی ہے جسکی وجہ سے یوں نہ صرف غلط کام کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے بلکہ مختلف وسائل بشمول وقت، محنت اور سرمائے کا ضیاع بھی ہوتا ہے جس طرف یقیناً پالیسی سازوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے-
سرکاری افسران و اہلکاروں کو بھی اس بات کا ادراک ہونا بہت ضروری ہے کہ جب وہ تجاوزات ہٹانے جیسے اقدامات کرتے ہیں تو انہیں بہرحال صبر و تحمل کیساتھ متعلقہ لوگوں کے ساتھ پیش آنا چاہئے کیونکہ جب وہ لوگوں کے خلاف اقدامات کر رہے ہوتے ہیں تو انہیں متاثرہ لوگ پھولوں کے ہار تو نہیں پہنائیں گے اس لئے انہیں متعلقہ لوگوں کے خلاف قانونی طریقہ کار کے مطابق کاروائی کرتے ہوئے اخلاق کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے ان دنوں مختلف سوشل میڈیا کلپس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے افسرشاہی اور سرکاری اہلکار عوام کے ساتھ انتہائی دھونس اور رعونت سے پیش آتے ہیں- تجاوزات ہٹانے کے علاوہ غلط پارکنگ پر جہاں صرف جرمانہ کرنا چاہئے وہاں لوگوں کی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہوتا ہے، کئ ایسے کلپس گردش کر رہے ہیں جن میں مختلف گاڑیوں کے ٹائر پھوڑے جا رہے ہیں جو یقیناً کچھ اچھا تاثر نہیں دیتے کہ بہرحال سرکاری محکموں کا کام قانون کے نفاذ کے ساتھ ساتھ عوام کے جان و مال کا تحفظ بھی ہے –
جس طرح سرکاری سکولوں میں کچھ سال پہلے ”مار نہیں پیار “ کا سلوگن رائج کیا گیا تھا اور طلبإ و طالبات کو پڑھاتے ہوئے مارنے کی سختی سے ممانعت کر دی گئی ہے اسی طرح وطن عزیز کے مختلف سرکاری محکموں اور عام زندگی میں بھی ”تذلیل نہیں، حسن سلوک“ کے سلوگن کو رائج اور عام کرنے کی اشد ضرورت ہے جبکہ اس نعرے کی بنیاد پر وفاقی و صوبائی حکومتیں اور مقامی سطح پر انتظامیہ، عدلیہ، پولیس اور دیگر تمام شعبہ جات میں اصلاحات کی جانی چاہئیں ویسے بھی بطور مسلمان ہمیں حکم ہے کہ ہم دوسروں سے ہمیشہ حسن سلوک سے پیش آئیں اور دوسروں کی دل آزاری سے بچیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بہت تیزی سے اچھی روایات اور عمدہ انسانی قدریں دم توڑتی جا رہی ہیں اور پرتشدد واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے-
برطانیہ میں رہتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کے مختلف معاملات اور مسئلے مسائل پر جب جلسے جلوس ہوتے ہیں تو نہ صرف منظم طریقے سے اکثر لوگ اکٹھے ہوتے ہیں، اور نہ ہی کوئی پکڑ دھکڑ ہوتی ہے بلکہ بڑے بڑے مظاہرے بھی یوں ہوتے ہیں کہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ نکلتے ہیں لیکن بامقصد اور پر امن طریقے سے لوگ اپنی بات کہتے ہیں اور پھر اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں- اسی طرح جب فلسطین میں غزہ کی صورتحال کے خلاف یہاں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا تو پولیس کو کہا گیا کہ وہ ان مظاہروں کی اجازت نہ دیں اور مظاہرین کو بزور روکا جائے لیکن پولیس نے قانونی طریقہ کار کے مطابق حکومت کو بتایا کہ وہ مظاہرین کو نہیں روکیں گے اور پھر ایسا ہی ہوا جس کی وجہ سے بغیر کسی لمبی چوڑی کشیدگی کے لوگوں نے بڑے اور بھرپور مظاہرے کئے تھے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا تھا-
ہندوستان میں جب انگريز حکومت کر رہے تھے تو وہاں دفعہ 144 کا ایک ایسا قانون متعارف کروایا تھا کہ جو پاکستان میں اب تک لاگو ہے اور بدقسمتی سے ہر حکومت خواہ وہ آمریت ہو یا جمہوریت کی پیداوار اس دفعہ 144 کو بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے اور اپنے مخالفین کا جی بھر کر مکو ٹھپا جاتا ہے جبکہ مختلف قوانین کا سہارا لے کر انہیں ہر ممکن حد تک دبانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ گلیاں ہو جان سنجیاں تے وچ مرزا یار پھرے کے مصداق ماحول بنے اور مخالف آوازیں کہیں بھی سنائی نہ دیں لیکن جو یہ سوچ کر اپنی گلیاں خالی کروا رہے ہوتے ہیں وقت کا پہیہ یوں چلتا ہے کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا اور یار لوگوں کے چل چلاٶ کا وقت آ جاتا ہے اور پھر وقت کی سوئی جب الٹا چلنا شروع کرتی ہے تو وہ بھی رگڑے میں آ جاتے ہیں جو دوسروں کو رگڑے پے رگڑا دھر رگڑا لگا رہے ہوتے ہیں-
بات یہیں پر نہیں رکتی بلکہ زبوں حال معیشت کے حامل پیارے ملک میں ایک دوسرے کے خلاف ذاتی انتقام کے لئے سرکاری وسائل کو بے دریغ استعمال کرکے ایسے ایسے مقدمات بنائے جاتے ہیں کہ سارا سسٹم کسی ایک فریق کے خلاف لٹھ لے کر چڑھ دوڑتا ہے اور یوں ریاست کے وہ ادارے جنہوں نے ملک اور عوام کو ایک پرامن، خوشگوار اور خوشحال ماحول فراہم کرنا ہوتا ہے وہ خود انتقامی کاروائیوں کی آلودگی کا شکار ہو جاتے ہیں اور گورننس کا سسٹم جو پہلے ہی گڈگورننس کے حوالے سے کوئی اچھا اور قابل تعریف معیار نہیں رکھتا مزید مسائل کا شکار ہو جاتا ہے اور جہاں سسٹم اچھے طریقے سے نہ چل رہا ہو وہاں بلاشبہ مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ وقت کیساتھ ساتھ ان میں اضافہ ہوتا رہتا ہے جبکہ دنیا میں مسائل کو حل کیا جاتا ہے نہ کہ کسی پہلے سے موجود مسئلے میں سے مزید مسائل کشید کئے جائیں-
یہاں برطانیہ میں لکھا ہوا آئین نہ ہونے کے باوجود آئین و قانون کی پاسداری کی جاتی ہے ایک وزیراعظم قبل ازوقت انتخابات کا اعلان کرتا ہے تو اس پر ہاہاکار نہیں مچتی، نہ ہی کوئی کورٹ کچہریوں میں جاتا ہے بلکہ تمام سیاسی جماعتیں اور سیاستدان انتخابات کی تیاریوں میں لگ جاتے ہیں اور تو اور کوئی نگران حکومت بھی معرض وجود میں نہیں آتی کیونکہ یہاں کے لوگوں کو یہاں کے سسٹم پر اعتماد ہوتا ہے اور لوگ اگر ایک دوسرے کی مخالفت بھی کرتے ہیں تو اس میں بھی شائستگی اور حسن سلوک کا دامن نہیں چھوڑا جاتا بلکہ یہاں تک کہ کوئی کسی پر بے سروپا الزامات نہیں لگا سکتا- یہاں پر ہتک عزت اور ڈیٹا پروٹیکشن ”مواد کی حفاظت“ کے بڑے سخت قوانین رائج ہیں جن پر ہر کوئی سختی سے کاربند ہے کہ یہاں بصورت دیگر دوسروں کی پگڑی اچھالنے والوں کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں-
بیوروکریسی کا جس طرح کا مضبوط، طاقتور اور اختیارات کا حامل ڈھانچہ وطن عزیز پاکستان میں موجود ہے مثلاً کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز پر مشتمل کوئی عہدے اور عہدیدار یہاں پر موجود ہی نہیں ہیں لیکن ہر ادارہ اپنے کام، اپنی کارکردگی اور اپنی کوتاہی کا خود ہی ذمہ دار ہے اسی طرح بیوروکریسی کا ڈھانچہ محدود اور مختصر ہے کہیں پر کوئی کھلی کچہریاں نہیں لگ رہی ہوتی ہیں، نہ ہی کوئی ون ونڈو آپریشن اور نہ ہی کوئیک ریسپانس سروس کے جھمیلے ہیں، نہ آٹے کے تھیلوں پر کسی کی تصویر اور نہ صحت کارڈ یا کسی بھی طرح کے سہولت کارڈ ہیں اور نہ ہی ان پر کسی رہنما کی تصویر بلکہ یہاں تو شہریوں کے پاس شناختی کارڈ بھی نہیں ہیں لیکن اس سب کے باوجود ہر شخص اور ہر محکمہ بشمول صحت، تعلیم، پولیس، بلدیات اور حکومت اپنے اپنے دائرہ کار میں اپنا اپنا کام کر رہے ہوتے ہیں اور اپنی کارکردگی کیلئے ہر سطح پر عوام کو اور میڈیا کو جواب دہ ہوتے ہیں جبکہ عدالتیں اور پارلیمنٹ اپنا کام کرتے ہیں اور تو اور عدالتوں میں سیاسی مقدمات نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ آئین اور قانون کی تشریح کے نام پر اعلیٰ عدلیہ میں سرکاری خرچے پر لمبی لمبی بیٹھکیں نہیں لگائی جاتی ہیں اور سچ پوچھیں تو عام فہم الفاظ میں نہ تو کوئی بریکنگ نیوز کی چیختی چنگھاڑتی سرخیاں اور نہ ہی شام سے رات گئے تک سیاسی پروگراموں کی بہتات ہوتی ہے بس یوں سمجھ لیں کہ آجکل کے سرد اور ٹھنڈے موسم کی طرح یہاں کا سیاسی درجہ حرارت بھی سرد ہی ہے لیکن ہر کوئی اپنے کام سے کام رکھتا ہے اور زندگی کا پہیہ رواں دواں رہتا ہے اور اسی میں انکی کامیابی ہے
Title Image by CARLOS MEDELLIN from Pixabay

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |