خاور مانیکا انٹرویو کے محرکات اور پیپلزپارٹی و نون لیگ کا اخلاقی ظرف

خاور مانیکا انٹرویو کے محرکات اور پیپلزپارٹی و نون لیگ کا اخلاقی ظرف

Dubai Naama

خاور مانیکا انٹرویو کے محرکات اور پیپلزپارٹی و نون لیگ کا اخلاقی ظرف

سابقہ روحانی گرو خاور مانیکا کا انٹرویو اپنے پیچھے دو اہم ترین سوالات چھوڑ گیا ہے۔ پہلا سوال اس انٹرویو کی ‘ٹائمنگ’ کے بارے میں ہے کہ یہ سب کچھ خاور مانیکا کی ناک کے نیچے ہوتا رہا مگر وہ خاموش کیوں رہا اور اب اس نے اچانک الیکشن 2024 کی آمد سے پہلے اپنی سابقہ بیگم بشری بی بی کو “پنکی” کہتے ہوئے اور عمران خان کو اپنی ماں کے بقول “اچھا آدمی نہیں ہے” کہہ کر اتنے سنگین الزامات کیوں عائد کیئے؟ دوسرا سوال اس انٹرویو کے محرکات سے متعلق ہے کہ کیا یہ انٹرویو خود خاور مانیکا نے اپنی مرضی سے دیا تھا یا یہ انٹرویو اپنے مخصوص مقاصد حاصل کرنے کے لئے اس سے کسی “تھرڈ پارٹی” نے دلوایا تھا؟ انٹرویو کے وقت کے تعین سے تو عین واضح ہو رہا ہے کہ اس کا بنیادی مقصود عمران خان کی کردار کشی کر کے اس کی شہرت کو گزند پہچانا ہے۔ چونکہ عمران خان 9مئی کے واقعات تک اپنی شہرت کے بام عروج پر تھے اور اب جیل میں ہونے کی وجہ سے اسے عوام کی طرف سے اسکی مظلومیت اور ہمدردی کا سہارا ملنے کا امکان ہے یعنی عمران خان کی شہرت میں مزید اضافے کی توقع ہے تو یہ ممکن ہے کہ عمران خان کے حق میں ان جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیئے یہ انٹرویو کروایا گیا ہو تاکہ عوام میں ان کے حق میں ہمدردی پیدا ہونے کی بجائے نفرت پیدا ہو۔

اس انٹرویو کو غور سے دیکھا جائے تو خاور مانیکا انٹرویو میں خوفزدہ نظر آتے ہیں اور ان کی زبان ایک سے زیادہ جگہوں پر تھرتھراتی اور لغزش کرتی نظر آ رہی ہے، یہی حال کسی حد تک اخون زادہ کا ہے جو خاور مانیکا کا انٹرویو کر رہے تھے۔

جنرل الیکشن کی  آمد آمد ہے تو کسی حد تک سوچا جا سکتا ہے کہ یہ انٹرویو اس اعتبار سے ایک “پلانٹڈ” انٹرویو تھا۔ ہاں، اگر ایسا ہے تو اس کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے یا کسی بڑی سیاسی جماعت کا ہاتھ ہے جو عمران خان کی مقبولیت سے خوفزدہ ہے اور وہ نہیں چاہتی کہ عمران خان اور پی ٹی آئی “لیول پلینگ فیلڈ” یعنی دوسری بڑی سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی اور نون لیگ کی برابری کی سطح پر 2024 کے عام انتخابات میں حصہ لے۔

پاکستانی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے ہٹ کر سیاست میں اس انٹرویو سے بھی بڑھ کر ماضی قریب میں ایک دوسرے کی کردار کشی کے لیئے انتہائی گھٹیا ترین ہتھکنڈے استعمال کیئے جاتے رہے ہیں جس میں نون لیگ ہمیشہ پیش پیش رہی جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی جعلی تصاویر و کردارکشی، بیگم نصرت بھٹو کی من گھڑت تصویر کی رسالوں میں اشاعت اور پمفلٹس کے ذریعے تقسیم، تمہینہ درانی کی کتاب کی مفت ترسیل، سیتا وائٹ کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش،  جمائما خان کے خلاف مہم، ریحام خان کی غلیظ اور گھٹیا کتاب، عائشہ گلالئی کے بازاری الزامات، آڈیو اور ویڈیوز کے ڈرامے اور اب رات و رات ہاجرہ خان کی آنے والی نئی کتاب سرفہرست ہیں۔ یہ تمام گھٹیا، مکروہ اور اخلاق باختہ کام ن لیگ ہی کیوں انجام دیتی ہے؟ کیا پاکستانی سیاست کے تمام ڈرٹی ٹرکس اور ڈرٹی پالیٹیکس کا انہوں نے ٹھیکہ لے رکھا ہے؟ زرداری صاحب سے لاکھ اختلاف ہو اور ان پر منوں وزنی تنقید کی جائے، ایسے کام بہرحال پیپلزپارٹی نے کبھی نہیں کئے ہیں۔ باقی جماعتوں سے بھی بہت اخلاق سوز غلطیاں ہوتی ہیں، مگر ایسی دیدہ دلیری انہوں نے کبھی نہیں دکھائی کہ کسی کی پرائیویٹ لائف پر یوں سرعام کیچڑ اچھالا جائے۔

کیا 2024 کا الیکشن بہترین وقت نہیں کہ نون لیگ اور شریف خاندان سے سوال پوچھا جائے کہ آپ مڈل کلاس کی اخلاقی اقدار کی بات کرتے ہیں، خود کو مذہبی ہونا ثابت کرتے ہیں تو پھر آپ ایسی بدنما حرکتیں کیوں انجام دیتے ہیں؟

دنیا مکافات عمل کا ایسا کھیت ہے کہ اس میں جب کوئی انسان کچھ بوتا ہے تو اسے وہی کچھ کاٹنا بھی پڑتا ہے، لیکن عقل و بصیرت سے عاری لوگ یہ بات جانتے بوجھتے ہوئے بھی اپنے لیئے کانٹے بوتے ہیں۔ شائد آپکو یاد ہو کہ نوے کی دہائی میں نواز لیگ نے بے نظیر بھٹو کو ایسا ذلیل کیا تھا کہ دنیا کی کسی حکومت میں اس کی مثال نہیں ملتی کہ بے نظیر بھٹو کی برہنہ تصویریں ہیلی کاپٹر سے گرائی گئی تھیں، ایک عورت کے لیئے اس سے بڑی ذلت اور کچھ نہیں ہوتی کہ اس پر فاحشہ کا الزام لگا کر بدنام کرنے کی کوشش کی جائے۔ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ جب محترمہ بے نظیر بھٹو پارلیمنٹ میں پیلے رنگ کے لباس میں آئی تھیں تو انہیں نون لیگ والوں نے “پیلی ٹیکسی” کہا تھا اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے روتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف ایک دن ایسا آئے گا کہ لوگ تم کو اور تمہارے خاندان کی عورتوں کو ایسے ہی ذلیل کریں گے۔ بعد میں مقامات عمل کا وقت آیا تو میاں محمد نواز شریف کی اپنی جواں سال بیٹی محترمہ مریم نواز شریف اپنی ذاتی زندگی کے حوالے سے اس سے ملتے جلتے الزامات سے گزری یعنی جو گند میاں نواز شریف اور اس کے نون لیگی ساتھیوں نے بینظیر بھٹو پر اچھالا تھا وہ پلٹ کر اسکی بیٹی کو برداشت کرنا پڑا۔

خاور مانیکا کا حالیہ انٹرویو نہ صرف اس “ڈرٹی پالیٹیکس” کو مزید گندا کرنے کا ایک نیا باب تھا بلکہ اس میں مذہب اور خانقاہی نظام کو بھی بہت بری طرح گھسیٹا گیا۔

ہماری جمہوریت اور سیاست کا پہلے بھی کوئی معیار نہیں تھا، اب روحانیت کی آڑ میں اس میں جنسی تعلقات کا  تماشا بھی شامل ہو گیا ہے۔افسوس ہے کہ اس انٹرویو کے ذریعے خاور مانیکا نے جہاں اپنی سابق بیوی کا بھرم نہیں رکھا وہاں اس نے خود اپنی عزت اور معیار کا بھی جنازہ نکال دیا۔

ایک لحاظ سے اس انٹرویو کی زد میں مذہب اور روحانیت بھی آئی ہے جو بہت ہی منافع بخش کاروبار ہیں جس میں سرمایہ کاری زیرو ہوتی ہے مگر اس سے منافع کئی گنا زیادہ ملتا ہے بلکہ اس سے پیری مریدی کا دھندہ زندگی بھر کمائی کا ذریعہ بن جاتا ہے جس پر کئی نسلیں راج کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ  مذہب کو سیاست دان مفادات کی بھینٹ چڑھانے سے بھی باز نہیں آتے۔ یہ مذہب، سیاست اور خانقاہیت کے نام پر ایسا فریب ہے کہ جس میں خود عمران خان جیسا لبرل بھی مذہب کا “ٹچ” دیتا رہا ہے جو کہ دراصل ایک روحانی گینگ تھا جس کے کاروباری موکلین میں مصنوعی صادق و امین، بشریٰ بی بی، زلفی بخاری، فرح گوگی، جمیل گجر اور خود خاور مانیکا شامل تھے۔

خاور مانیکا سے تو عمران خان کی سابقہ بیوی جمائما اچھی نکلی جس نے اپنے سابقہ خاوند عمران خان کے بارے میں کبھی ایک بھی منفی لفظ نہیں بولا ہے۔ لیکن خاور مانیکا نے جس طرح اپنی سابقہ بیوی اور اس کے نامزد آشنا عمران خان کے بارے میں اخلاق سے گری ہوئی باتیں کیں اس سے انٹرویو سننے اور دیکھنے والے شریف اور باعزت ناظرین کو بھی شرم آ رہی تھی۔

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

بلاول بھٹو کا بیانیہ، دھوکہ یا حقیقت؟

پیر نومبر 27 , 2023
ان دنوں بلاول بھٹو زرداری کا بزرگ سیاست دانوں کی سیاست سے کنارہ کشی کا موقف زیر بحث ہے جس سے پیراڈاکس
بلاول بھٹو کا بیانیہ، دھوکہ یا حقیقت؟

مزید دلچسپ تحریریں