مودی کا جنگی جنون اور پاکستان میں بزدلانہ دراندازی
ایسا لگتا ہے کہ بھارتی پردھان منتری نریندر مودی اوقات میں رہ کر عالمی برادری میں اپنی عزت بحال نہیں رکھنا چاہتے ہیں۔ 6سمتبر 1965ء کی طرح اعلان جنگ کیئے بغیر گزشتہ روز بھارت نے ایک بار پھر پاکستان پر فضائی حملہ کیا، ہوا میں زبردست ڈاگ فائٹ ہوئی جس کے بعد بہاولپور کے نزدیک پاکستان کے جے10سی فائٹر جیٹ نے بھارتی رافیل طیارہ مار گرایا۔ مودی گجرات کے وزیراعلٰی تھے تو دنیا نے انہیں گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کرتے دیکھا۔ اب وہ وزیراعظم ہیں تو بھارت اور گجرات سے باہر ان کی نظر پاکستانی مسلمانوں پر ہے مگر پاکستان انہیں اپنے ہاتھ خون سے رنگنے کا موقع نہیں دے رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے تقدیر کو انہیں رسوا کرنا منظور ہے کہ وہ اپنی عادت سے مجبور ہو کر بار بار سرحدی دراندازی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بھارت نے آزاد کشمیر میں بھی دراندازی کی، جہاں ایک بھارتی ہیلی کاپٹر کو پاکستانی ائیرفورس نے تباہ کر دیا۔ بھارت کی جلد بازی میں کی گئی ان دہشت گردانہ حرکات سے یہ امکان پیدا ہو گیا ہے کہ بھارت کسی وقت بھی زمینی جنگ شروع کرنے کی غلطی کر سکتا یے۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے 24گھنٹے قبل آگاہ کیا تھا کہ بھارت سے تصادم کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا تھا کہ بھارت نے پانی روکنے کے لئے تعمیرات کیں تو تباہ کر دیں گے۔
نریندر مودی کا جنگی جنون کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، وہ جارحیت کے جس خمار میں مبتلا ہیں اس سے پاکستان بے خبر نہیں ہے جس کے پیش نظر پاکستان نے گزشتہ روز ایک ایٹمی میزائل کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس پر امریکہ نے بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان اشتعال انگیز صورتحال کو انتہائی سنجیدہ اور پیچیدہ قرار دیا۔ امریکی رکن کانگریس مین کیتھ سیلف نے بھی گزشتہ روز کہا کہا کہ ایٹمی طاقتوں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ ناقابل تصور ہے، کوئی بھی جنگ ایک بار شروع ہو جائے تو آپ اسے کنٹرول نہیں کر سکتے۔ امریکی ری پبلکن اراکین کانگریس جیک برگمین اور کیتھ سیلف کے اعزاز میں نیویارک کے ہوٹل میں تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں پاکستانی کمیونٹی کی نامور شخصیات نے شرکت کی تھی، شرکا نے پہلگام واقعہ سے پیدا کشیدگی اور بھارت کے جنگی جنون کی جانب اراکین کانگریس کی توجہ دلائی تو اراکین کانگریس نے اعتراف کیا کہ قیام پاکستان سے اب تک پاکستان کے خلاف بھارت کئی "فالس فلیگ آپریشنز” میں ملوث رہا ہے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ اس بار بھی پہلگام واقعہ کے 10منٹ کے اندر ہی ایف آئی آر درج کر لی گئی جب کہ جس جگہ فائرنگ کی گئی تھی وہاں سے پولیس اسٹیشن کا ایک گھنٹے کا فاصلہ تھا۔ یہی نہیں الزام بھی پاکستان پر عائد کر دیا گیا مگر ثبوت نہیں دیئے گئے۔
وزیراعظم نریندر مودی ممکن ہے یہ بات بھول گئے ہیں کہ ماضی میں بھی ایسی بھارتی جارحیتیں بے نتیجہ ثابت ہوتی رہی ہیں جس کی آخری مثال ابھی نیندن ہیں جب 27 فروری 2019ء کو پاکستان ایئرفورس نے پاکستانی حدود میں داخل ہونے کی کوشش پر 2 بھارتی طیارے مار گرائے تھے اور ابھی نندن نے اپنی گرفتاری کے 2سال بعد اپنے ایک بیان میں تسلیم کیا تھا کہ پاکستانی آرمی ایک پروفیشنل فوج ہے، میں پاک فوج کی بہادری سے بہت متاثر ہوا ہوں، لڑائی تب ہوتی ہے جب امن نہیں ہوتا، میں یہ چاہتا ہوں ہمارے دیس میں امن رہے اور ہم سکوں سے رہ سکیں۔ انہوں نے کشمیریوں کے بارے کہا تھا کہ، "نہ آپ کو پتہ ہے اور نہ مجھے معلوم ہے کہ وہاں کیا ہو رہا یے۔”
پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان دونوں ممالک کے درمیان اب تک جتنی بڑی جنگیں اور محدود جھڑپیں ہوئی ہیں، ان کا بنیادی مرکز و محور عموماً ریاست جموں و کشمیر رہا ہے۔ 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے فوراً بعد ہی بھارت اور پاکستان کے درمیان پہلی جنگ چھڑ گئی، جسے 1947-48 کی جنگ کہا جاتا ہے۔ یہ جنگ جموں و کشمیر کے الحاق کے مسئلے پر ہوئی، جہاں مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سے الحاق کا اعلان کیا، جس کے جواب میں پاکستان نے قبائلی لشکروں کی مدد سے کشمیر پر حملہ کیا تھا۔ بھارت نے فوری طور پر اپنی فوجیں کشمیر بھیج کر حملہ روکا اور ریاست کے بڑے حصے پر کنٹرول حاصل کیا۔ یہ جنگ بالآخر اقوام متحدہ کی مداخلت پر رکی، اور ایک لائن آف کنٹرول قائم کی گئی جس کے نتیجے میں کشمیر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ ایک حصہ بھارت کے پاس ہے جو جموں و کشمیر ہے اور دوسرا پاکستان کے پاس ہے جو آزاد کشمیر ہے۔
دوسری جنگ 1965 میں ہوئی جو کہ کشمیر کے تنازعہ پر ہی دوبارہ بھڑکی جب پاکستان نے "آپریشن جبرالٹر” کا آغاز کیا جس کے تحت کشمیر میں پاکستان نے بغاوت ابھارنے کی کوشش کی، جس کے جواب میں بھارت نے بھرپور فوجی ردعمل دیا۔ دونوں ممالک کے درمیان مغربی سرحد پر شدید لڑائی ہوئی، خاص طور پر لاہور، سیالکوٹ اور راجستھان کے محاذوں پر۔ اس جنگ میں دونوں ممالک نے دعویٰ کیا کہ وہ کامیاب رہے، لیکن دونوں طرف سے کسی واضح فتح کا اعلان نہ ہو سکا۔ اس جنگ کا اختتام سویت یونین کی ثالثی سے ہونے والے "تاشقند معاہدے” پر ہوا، جس میں دونوں ملکوں نے جنگ سے پہلے کی حدود پر واپس جانے پر رضامندی ظاہر کی۔
1971ء کی جنگ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی سب سے فیصلہ کن اور بڑی جنگ تھی۔ اس جنگ کا آغاز مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں سیاسی بحران، عوامی لیگ کی اکثریت کے باوجود اقتدار نہ ملنے، اور پاکستانی فوج کے سخت گیر آپریشن سے ہوا۔ لاکھوں مہاجرین بھارت میں داخل ہوئے جس کے بعد بھارت نے سیاسی مفادات کی بنیاد پر مشرقی پاکستان میں فوجی مداخلت کی۔ دسمبر 1971ء میں شروع ہونے والی اس جنگ میں بھارتی افواج نے محض 13 دن میں فیصلہ کن برتری حاصل کر کے ڈھاکہ پر قبضہ کر لیا، اور پاکستانی فوج کے 90 ہزار سے زائد فوجیوں نے مصلحتا ہتھیار ڈال دیئے۔ اس کے نتیجے میں نیا ملک بنگلہ دیش معرضِ وجود میں آیا۔ یہ جنگ اگرچہ بھارت کی ایک بڑی سیاسی، فوجی اور سفارتی کامیابی کے طور پر یاد کی جاتی ہے، اور اس میں پاکستان کو شکست ہوئی۔ لیکن اسی جنگ کے مابعد نتائج کی وجہ سے 1999ء میں ایک اور بڑی فوجی جھڑپ کارگل کی پہاڑیوں میں ہوئی، جسے کارگل جنگ کہا جاتا ہے۔ اس میں پاکستانی فوج اور جنگجوؤں نے لائن آف کنٹرول عبور کر کے بھارتی علاقے میں گھس کر اہم پوسٹوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس دوران شدید جھڑپیں ہوئی تھیں، لیکن عالمی دباؤ اور خاص طور پر امریکہ کی جانب سے مداخلت کی بناء پر پاکستان کو اپنی فوجیں پیچھے ہٹانی پڑی تھیں۔
ان جنگوں کے علاوہ سیاچن گلیشیئر پر بھی 1984ء سے کشیدگی جاری ہے۔ بھارت نے آپریشن میگھدوت کے تحت سیاچن پر قبضہ کیا۔ 2019ء میں ایک اور محدود مگر اہم واقعہ اس وقت پیش آیا جب پلوامہ حملے کے بعد بھارت نے پاکستان کے علاقے بالاکوٹ میں فضائی حملہ کیا، جس میں بھارت نے دہشت گرد کیمپوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا۔ پاکستان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے بھارتی طیارہ مار گرایا اور پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کر لیا، جسے بعد میں امن کی علامت کے طور پر رہا کر دیا گیا۔ اس واقعے میں دونوں ممالک نے اپنی کامیابی کے دعوے کئے، لیکن بین الاقوامی سطح پر کوئی فیصلہ کن فاتح سامنے نہیں آیا۔
اگر پاک بھارت جنگوں کی یہ تاریخ بتاتی ہے کہ ان میں کوئی بھی ملک ایک دوسرے پر یکسر اور مکمل برتری ثابت نہیں کر سکا تو اب جبکہ دونوں ممالک "ایٹمی قوت” ہیں اور ایک دوسرے کو فتح نہیں کر سکتے ہیں بلکہ اس کا تصور تک نہیں کر سکتے تو کیوں نہ اس جنگی جنون سے باہر آیا جائے؟ نریندر مودی کو اس بات کا ادراک کرنا چایئے کہ بھارت اور پاکستان دونوں کے پاس خطرناک ترین "کیمیائی ہتھیار” اور "ایٹم بمز” ہیں مگر سرحد کے دونوں اطراف عوام میں بھوک اور مفلسی ناچ رہی ہے۔ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی، بلکہ دونوں ملکوں کے عوام کو نقصان ہی پہنچاتی ہے تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی صاحب کو چایئے کہ وہ اپنے اس جنگی جنون سے باہر آئیں۔ پاکستان کو بھی چایئے کہ اب وہ باہمی اختلافات کو مذاکرات، تجارت اور سفارتکاری کے ذریعے حل کرے، تاکہ خطے میں پائیدار امن قائم ہو جائے اور جو بجٹ جنگی جنون پر خرچ ہو رہا اسے غربت کی چکی میں پستی عوام پر لگایا جائے تاکہ وہ سکھ کا سانس لیں اور وہ بھی پیٹ بھر روٹی کھا سکیں۔
Title Image by ThePixelman from Pixabay

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |