میٹرک رزلٹ: اصل مبارکباد کے حقدار کون؟
تحریر محمد ذیشان بٹ
میٹرک کا نتیجہ آ چکا ہے، اور بلاشبہ یہ ہر طالبعلم، ہر والدین، اور ہر استاد کے لیے ایک یادگار دن ہوتا ہے۔ جو بچے کامیاب ہوئے ہیں، وہ خوش نصیب ہیں، اور یقیناً ان کی محنت، لگن، اور مستقل مزاجی کے اثرات اب ان کے روشن مستقبل کا دروازہ کھول رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم اس کامیابی کا کریڈٹ کس کو دیتے ہیں؟ سوشل میڈیا پر، شہر کے چوکوں پر لگے فلیکسوں میں، اور اسکول کے اشتہارات میں، ہمیں صرف ادارے کا نام، اسکول مالکان کے دعوے اور طلباء کے نمبر نظر آتے ہیں۔ لیکن جو اصل ہیرو ہے، جو اس کامیابی کا خالق ہے، وہ پس منظر میں رہ جاتا ہے۔ وہ ہے ’’استاد‘‘۔
اس قوم کا المیہ یہی ہے کہ ہم پھول تو دیکھتے ہیں، لیکن ان کو اگانے والے مالی کو بھول جاتے ہیں۔ ہم عمارت کی بلندی تو ناپتے ہیں، لیکن بنیادوں کی پختگی کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ایک بچہ جب تین ساڑھے تین سال کی عمر میں اسکول جاتا ہے تو یہ ایک طویل تعلیمی سفر کا آغاز ہوتا ہے، جس کی منزل میٹرک کا امتحان نہیں، بلکہ ایک مکمل انسان بننا ہے۔ یہ سفر 13 سال پر محیط ہوتا ہے۔ اس دوران استاد ہی وہ واحد کردار ہے جو ہر لمحہ بچے کے ساتھ رہتا ہے۔ والدین کا ساتھ شام کو ہوتا ہے، اسکول مالک کبھی کبھار چکر لگاتا ہے، لیکن استاد ہی وہ ذات ہے جو صبح سے دوپہر تک بچوں کی تربیت اور تعلیم میں مصروف رہتا ہے۔
آج کے دور میں جب نجی تعلیمی ادارے محض کاروبار بن چکے ہیں، تو وہ میٹرک کے رزلٹ کو اپنی تشہیر کا ذریعہ بناتے ہیں۔ پینا فلیکس پر طالبعلم کا نام اور نمبر تو ہوتا ہے، ساتھ میں ادارے کا لوگو ہوتا ہے، لیکن جو شخص دن رات محنت کرتا ہے، جو والدین کے بعد بچے کی تربیت میں سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے، اُس کا نام کہیں نظر نہیں آتا۔ یہ استاد کی ناقدری نہیں تو اور کیا ہے؟
ہمیں اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں وہ روایت زندہ کرنی ہے جو اسلام نے ہمیں سکھائی۔ پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے فرمایا:
"مجھے معلم (استاد) بنا کر بھیجا گیا ہے”۔
یہ اعلانِ نبوت کی ایک ایسی جہت ہے جو آج ہمیں بھلا دی گئی ہے۔ اگر نبی کریم ﷺ خود کو معلم کہہ کر فخر محسوس کرتے ہیں، تو آج کے دور میں استاد ہونا ایک فخر کی بات ہونی چاہیے، ناکہ صرف مشقت کا دوسرا نام۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
"جس نے مجھے ایک حرف بھی سکھایا، میں اُس کا غلام ہوں”۔
یہ الفاظ فقط جذباتی نہیں، بلکہ ایک مکمل تہذیب کی بنیاد ہیں۔ آج کے دور میں اگر کوئی شخص ایسا قول ادا کرے تو شاید لوگ اس کو دقیانوسی کہیں، لیکن درحقیقت یہی وہ رویہ ہے جو علم کی سچائی اور استاد کی عظمت کو اجاگر کرتا ہے۔
صحابہ کرام کے ہاں بھی استاد کا درجہ انتہائی بلند تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو علم کا خزانہ کہا جاتا ہے، ان کے والد حضرت عباس تھے، لیکن انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عمر، اور دیگر صحابہ سے علم حاصل کیا اور ہمیشہ ان کے ادب و احترام میں جھکے رہتے۔ ایک بار حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کسی اونچے مقام پر چڑھنے لگے تو ایک شخص نے کہا: "آپ کو غلام بننے کی کیا ضرورت ہے؟” انہوں نے جواب دیا: "علم کے بدلے غلامی بھی قبول ہے”۔
آج اگر کوئی اسکول مالک یا تعلیمی ادارہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ بچوں کے اچھے نمبرات کا واحد محرک ہے، تو وہ یا تو خود کو دھوکہ دے رہا ہے یا معاشرے کو۔ بچوں کی کامیابی صرف اچھی بلڈنگ یا یونیفارم سے نہیں آتی، یہ آتی ہے اساتذہ کی محنت سے۔ وہ اساتذہ جو معمولی تنخواہوں میں دن بھر کام کرتے ہیں، رات کو بھی اسباق کی تیاری کرتے ہیں، اور پھر اگلے دن اپنی تھکن چھپائے، مسکراتے چہروں کے ساتھ کلاس میں داخل ہوتے ہیں۔
اگر ہمیں ایک کامیاب اور بااخلاق قوم بنانی ہے تو ہمیں استاد کو وہ مقام دینا ہوگا جو دینِ اسلام میں اس کو دیا گیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ جب ہم پینا فلیکس بنوائیں تو بچوں کے ساتھ استاد کا بھی نام لکھیں۔ "یہ ہیں بابر صاحب، جنہوں نے بچوں کو ریاضی سکھائی”۔ "یہ ہیں شفیق صاحب، جنہوں نے سائنس میں بچوں کو تربیت دی”۔ سوشل میڈیا پر جب ہم رزلٹ کا جشن منائیں، تو ساتھ ہی استاد کی تصویریں لگائیں، ان کا شکریہ ادا کریں، ان کے لیے تقاریب منعقد کریں۔
پاکستان میں ہزاروں ایسے استاد موجود ہیں جو اپنے خوابوں کو قربان کر کے دوسروں کے بچوں کے خوابوں کو تعبیر دیتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ وہ خود ایک سرٹیفیکیٹ، ایک سلام، ایک شکریہ کے بھی محتاج رہ جاتے ہیں۔ ان کی تنخواہیں اس قدر کم ہوتی ہیں کہ شاید ایک درمیانے درجے کا مزدور بھی ان سے زیادہ کما لیتا ہے۔ لیکن وہ اس سب کے باوجود محنت کرتے ہیں کیونکہ ان کا مشن ہوتا ہے: "قوم بنانا”۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر کامیاب شخص کے پیچھے استاد کا ہاتھ ہوتا ہے۔ چاہے وہ ڈاکٹر ہو، انجینئر ہو، یا وزیراعظم۔ سب نے کسی نہ کسی استاد سے سبق سیکھا ہوتا ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ جب وہ عہدے پر پہنچتے ہیں تو استاد کو بھول جاتے ہیں۔
ہمیں بطور قوم یہ سبق دوبارہ یاد کرنے کی ضرورت ہے کہ استاد کبھی "سابق” نہیں ہوتا۔ سابقہ شوہر ہو سکتا ہے، سابقہ وزیراعظم ہو سکتا ہے، لیکن استاد ہمیشہ استاد ہی رہتا ہے۔ چاہے شاگرد کتنا ہی بلند مقام پر پہنچ جائے، استاد کی عزت کم نہیں ہو سکتی۔
میں نے اپنی زندگی میں ایک ایسے استاد کو دیکھا ہے جو سچے معنوں میں کامیاب ایڈمنسٹریٹر تھے: محترم اَصِف یعقوب۔ وہ جب ادارے کے رزلٹ کی بات کرتے تو ہمیشہ اپنے اساتذہ کو کریڈٹ دیتے، اور جب کوئی ناکامی ہوتی تو خود سامنے آ جاتے۔ یہی وہ رویہ ہے جو ایک ادارے کو کامیاب بناتا ہے۔ یہی طرز عمل ہمیں اپنانا ہے۔
اس وقت بھی کچھ اسکول ایسے ہیں جو اپنے اساتذہ کو عزت دیتے ہیں، ان کے لیے تقریبات منعقد کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر ان کی تشہیر کرتے ہیں، لیکن ایسے اداروں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ ہمیں اس روایت کو عام کرنا ہے۔
ہم سب کو چاہیے کہ ہم استاد کی عزت کو صرف الفاظ تک محدود نہ رکھیں، بلکہ عملی طور پر ان کو وہ مقام دیں جس کے وہ حقدار ہیں۔ ان کے لیے بونس رکھا جائے، کارکردگی سرٹیفیکیٹ دیے جائیں، ہر سال ایک تقریب منعقد ہو جس میں "Best Teacher” کو ایوارڈ دیا جائے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب بھی کسی بچے کی کامیابی کا ذکر ہو، تو ساتھ یہ ضرور کہا جائے کہ یہ کامیابی اس کے استاد کی محنت کا نتیجہ ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اساتذہ کی قدر کرنے کی توفیق دے، اور اس ملک کو ایسے رہنما عطا فرمائے جو استاد کے مقام کو جانیں، پہچانیں، اور اس کو عام کریں۔ کیونکہ اگر استاد خوش ہے، باوقار ہے، تو قوم ترقی کرے گی۔ اگر استاد کو حقیر جانا گیا تو قوم پستی میں گرے گی۔
اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔
Title Image by Harinath R from Pixabay

محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |