مال گاڑی میں امانتیں
ایک خاموش خدمت کی گونجتی دستاویز
مصنف۔محمد حنیف بندھانی
سینئیر ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
تحریر۔علامہ عبدالستار عاصم
"مال گاڑی میں امانتیں” صرف ایک کتاب نہیں بلکہ ایک تاریخی دستاویز ہے جو ایک دور کی سچائیوں کو کھلی آنکھوں کے سامنے رکھ دیتی ہے۔ یہ داستان ہے ایک عام مگر غیرمعمولی انسان کی جو پاکستان کی تاریخ کے اہم ترین موڑ پر ایک غیر معمولی فریضہ انجام دیتا ہے۔ یہ کہانی ہے چوہدری محمد اسماعیل کی، جنہیں قدرت نے یہ سعادت بخشی کہ وہ قیامِ پاکستان کے بعد دہلی سے پاکستان منتقل ہونے والے سرکاری افسران کا قیمتی سامان، کاغذات، کتابیں، گھریلو اشیاء، فرنیچر اور ذاتی یادگاریں نہایت دیانتداری اور جاں فشانی کے ساتھ پاکستان منتقل کریں۔ یہ وہ وقت تھا جب ہر چیز غیر یقینی کا شکار تھی، اور نئی مملکت کے لیے بنیادی ڈھانچہ بھی مکمل نہیں ہوا تھا۔ سرکاری افسروں کی جانب سے ان اشیاء کی منتقلی محض ایک لاجسٹک عمل نہ تھا بلکہ یہ نئی مملکت کے نوآبادیاتی ماضی سے جمہوری حال کی طرف بڑھنے کا ایک خاموش لیکن اہم قدم تھا۔
چوہدری محمد اسماعیل، جو پیشے کے اعتبار سے ایک تجربہ کار اور دیانتدار کنٹریکٹر تھے، نے ایسے وقت میں یہ ذمہ داری قبول کی جب دھوکہ دہی، لوٹ مار اور بدنظمی عام تھی۔ دہلی سے کراچی، لاہور اور دیگر شہروں تک مال گاڑیوں کے ذریعے حساس سامان پہنچانا ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ یہ سامان صرف سامان نہ تھا بلکہ ان افسروں کے خواب، جدوجہد، مطالعہ اور ماضی کی جھلکیاں تھے۔ اس دور میں جب لوگوں کی جان و مال غیر محفوظ تھی، ایک شخص کا اتنی ایمانداری سے قومی امانت کی حفاظت کرنا ایک غیرمعمولی کارنامہ تھا۔ ۔ کچھ افسران جیسے کہ سکندر مرزا، جو بعد میں صدر پاکستان بنے، قدرت اللہ شہاب جیسے معروف بیوروکریٹ، اور چوہدری محمد علی جیسے آفیسر بھی اس میں شامل تھے
یہ کتاب دراصل صرف ایک شخص کی قربانیوں کا اعتراف نہیں بلکہ ریاست اور اس کے اداروں کی اولین شکل کا تجزیہ بھی ہے۔ یہ پاکستان کی ابتدائی تاریخ کا ایک انمول باب ہے جو بتاتا ہے کہ دیانت، اصول پسندی اور قومی خدمت کا جذبہ رکھنے والے افراد کس قدر نظرانداز کیے گئے۔ "مال گاڑی میں امانتیں” دراصل ان سچائیوں کا بیانیہ ہے جو ہماری درسی کتب، سرکاری بیانات اور قومی تاریخ سے کٹ چکی ہیں۔ مصنف محمد حنیف بندھانی نے نہایت باریک بینی، جذباتی سچائی اور تاریخی احتیاط کے ساتھ اس داستان کو قلم بند کیا ہے۔ ان کا یہ کام نہ صرف والد کے لیے ایک خراجِ عقیدت ہے بلکہ ایک نسل کو آئینہ دکھانے کی جرات مندانہ کوشش بھی ہے۔
"مال گاڑی میں امانتیں” میں محمد حنیف بندھانی ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جو نہ صرف تاریخی اہمیت رکھتا ہے بلکہ اس وقت کے معاشرتی، اخلاقی اور انسانی اقدار کی بھی عمدہ جھلک پیش کرتا ہے۔ یہ واقعہ ان کے والد محترم اسماعیل بندھانی سے متعلق ہے، جو اس دور میں سرکاری ملازمت میں فائز تھے۔
مصنف لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے والد سخت بیمار ہو گئے۔ بیماری کی شدت اس حد تک تھی کہ وہ دو دن تک دفتر نہ جا سکے۔ یہ واقعہ برطانوی راج کے دور کا ہے، جب وائسرائے ہند، جو اس وقت ہندوستان کا سب سے بڑا سرکاری نمائندہ ہوتا تھا، والد کی غیرحاضری سے متعلق جب وائسرائے کو اطلاع ملی تو وہ خود اپنی اہلیہ، جنہیں مصنف "میم صاحبہ” کہتے ہیں، کے ہمراہ والد صاحب کی عیادت کے لیے ان کے گھر تشریف لائے۔
ان کے ہمراہ ان کا ذاتی معاون، رام سرندر داس، بھی تھا۔ یہ معاون ایک ہندو تھا، لیکن خاص بات یہ ہے کہ وہ والد صاحب کا قریبی اور ہمدرد دوست بھی تھا۔ اس سے اس دور میں بین المذاہب دوستی اور رواداری کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔
جب وائسرائے نے والد صاحب کی طبیعت خراب دیکھی تو فوراً رام سرندر داس کو حکم دیا کہ وہ فوراً ڈاکٹر گپتا کو بلائیں۔ ڈاکٹر گپتا جلد ہی آئے، والد صاحب کا معائنہ کیا اور دوائی دی۔ وائسرائے نے ڈاکٹر کو سختی سے ہدایت کی کہ آئندہ بھی وہی والد صاحب کی صحت کی نگرانی کریں گے، وقتاً فوقتاً دوائیاں دیں گے، اور ان کی دیکھ بھال باقاعدگی سے جاری رکھیں گے۔
یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک ہم کراچی میں مقیم رہے۔ اس دوران ایک موقع ایسا بھی آیا کہ والد صاحب کی بیماری کے لیے مخصوص دوا برطانیہ سے منگوائی گئی۔ یہ کام بھی وائسرائے کی خصوصی ہدایت پر انجام پایا، جس سے ان کی دردمندی، احساسِ ذمے داری، اور اپنے ملازمین کے لیے خلوص و محبت کا اندازہ ہوتا ہے۔
یہ واقعہ نہ صرف ایک اعلیٰ سرکاری شخصیت کی انسان دوستی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ ایک ایسے معاشرے کی تصویر بھی پیش کرتا ہے جہاں مذہب، عہدہ اور سماجی فرق کے باوجود خلوص، احترام اور ایک دوسرے کی خیر خواہی کا جزبہ باقی تھا
کتاب "مال گاڑی میں امانتیں” کے مصنف محمد حنیف بندھانی اپنے خاندان کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک نہایت دردناک اور دل دہلا دینے والا واقعہ بیان کرتے ہیں، جو قیامِ پاکستان سے پہلے کے فسادات، ہجرت، اور مسلم خاندانوں پر ڈھائے گئے مظالم کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ واقعہ صرف ایک خاندان کی داستان نہیں بلکہ اُس اجتماعی قربانی اور صبر و استقامت کی علامت ہے جو لاکھوں مسلمانوں نے پاکستان کے حصول کے لیے دی۔
مصنف لکھتے ہیں کہ ان کی بہن فاطمہ، ان کی والدہ اور دادی گھر میں موجود تھیں۔ دادی صاحبہ کافی عرصے سے صاحبِ فراش تھیں کیونکہ ایک بار انہیں گائے نے ٹکر مار دی تھی جس کے باعث وہ چلنے سے معذور ہو گئی تھیں۔ ان کی دیکھ بھال کے لیے گھر میں ہی رہنا پڑتا تھا۔ ایک دن اچانک محلے میں خوفناک صورتحال پیدا ہو گئی۔ سرکاری گاڑیوں پر لاؤڈ اسپیکر سے اعلان کیا جانے لگا کہ کوئی بھی شخص اپنے گھر سے باہر نہ نکلے، ورنہ اسے گولی مار دی جائے گی۔
محلے کی گلی کے ایک کونے پر انڈین فوجی مسلسل فائرنگ کر رہے تھے۔ اسی دوران حالات مزید بگڑ گئے۔ ہندو بلوائیوں نے مسلمانوں کے گھروں کو نذرِ آتش کرنا شروع کر دیا۔ فضا میں آگ، دھواں، چیخ و پکار، اور بھاگ دوڑ کا عالم تھا۔ اعلان ہوا کہ سب لوگ جلد از جلد اپنی جان بچا کر جامع مسجد عیدگاہ کی طرف چلے جائیں کیونکہ وہی واحد محفوظ مقام ہے جہاں پناہ لی جا سکتی ہے۔
گھروں کو آگ سے بچانے اور راستہ فراہم کرنے کے لیے انگریز افسروں نے گھروں کے درمیان داخلی راستے بنوائے تاکہ لوگ باہر نکلے بغیر ایک گھر سے دوسرے گھر ہوتے ہوئے محفوظ مقام تک پہنچ سکیں۔ انگریز افسر نہ صرف راستہ دکھاتے رہے بلکہ مسلسل اعلان بھی کرتے رہے کہ کیسے نکلنا ہے، کس طرف جانا ہے، اور کہاں پناہ لینا ہے۔
مصنف بیان کرتے ہیں کہ جب وہ اور ان کا خاندان روانہ ہوئے تو راستے میں جگہ جگہ مردوں اور عورتوں کی لاشیں پڑی تھیں۔ خون میں لت پت جسم، جلی ہوئی دیواریں، چیخوں کی بازگشت اور خوف کا ایسا عالم کہ الفاظ اس کی مکمل ترجمانی سے قاصر ہیں۔ اس افراتفری میں ان کی دادی اور بھائی یوسف گھر پر ہی رہ گئے کیونکہ دادی معذور تھیں اور انہیں ساتھ لے جانا ممکن نہ تھا۔
جامع مسجد عیدگاہ پہنچ کر اندازہ ہوا کہ وہاں پہلے ہی ہزاروں پناہ گزین موجود تھے۔ ایک ہجوم تھا جو خوف، بھوک، پیاس اور بے یقینی میں گھرا ہوا تھا۔ نہ کھانے پینے کا کوئی انتظام تھا، نہ سونے یا بیٹھنے کی جگہ۔ ہر طرف آہ و زاری، چیخ و پکار، اور بے بسی کا منظر تھا۔ مصنف لکھتے ہیں کہ وہ اپنی ماں، بہن اور دیگر اہلِ خانہ کے ساتھ رو رو کر اپنے والد اور دیگر خاندان کے افراد کا انتظار کرتے رہے۔
آخر کار ایک دن فوجی گاڑی میں ان کے والد صاحب کچھ فوجیوں کے ہمراہ عیدگاہ پہنچے۔ ان کے ساتھ کھانے پینے کی بہت سی ضروری اشیاء تھیں۔ جب وہ پہنچے تو بچوں کی آنکھوں میں امید کی چمک عود آئی۔ والدہ نے جب وہ اشیاء دیکھیں تو اپنے لیے بہت تھوڑی سی رکھیں اور باقی تمام چیزیں دوسرے پناہ گزینوں میں تقسیم کر دیں۔ یہ جذبہ ایثار اس خاندان کی انسان دوستی اور سخاوت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
جب والدہ نے اپنی والدہ (مصنف کی دادی) کے بارے میں دریافت کیا تو ان کے والد نے انتہائی غمزدہ لہجے میں بتایا کہ ہندو بلوائیوں نے دادی کو شہید کر دیا ہے۔ والد نے دکھی دل کے ساتھ ماں کو صبر کی تلقین کی۔ یہ جملہ: "صبر کریں، ان کو ہندو بلوائیوں نے شہید کر دیا ہے”، نہایت گہرے صدمے اور تاریخی سانحے کا نچوڑ ہے۔
یہ واقعہ نہ صرف ایک خاندان کے دکھوں کی کہانی ہے بلکہ قیامِ پاکستان کی قیمت، قربانیوں، اور ہجرت کی اذیتوں کو دل سوز انداز میں پیش کرتا ہے۔ محمد حنیف بندھانی کی تحریر میں سچائی، سادگی اور دل کی گہرائی سے نکلی ہوئی باتیں شامل ہیں جو قاری کو نہ صرف متاثر کرتی ہیں بلکہ اُس قربانی کی شدت کا احساس بھی دلاتی ہیں جو پاکستان کی بنیاد میں شامل ہے۔
یہ اقتباس آج کی نسل کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ وہ وطن جس میں ہم آزادی سے سانس لیتے ہیں، وہ کتنی قربانیوں، کتنے آہوں اور کتنے خون آلود خوابوں کی قیمت پر حاصل ہوا ہے۔
محمد حنیف بندھانی کی تحریروں سے نہ صرف ہجرت کے دردناک لمحات کی تصویر ابھرتی ہے بلکہ اُن کی اپنی عملی کوششیں بھی ایک سچے محبِ وطن کی گواہی دیتی ہیں۔ ان کی ایک نہایت اہم، مگر افسوسناک کوشش وہ ہے جو انہوں نے 14 اگست 1947ء کے اصل اور تاریخی کاغذات، خطوط، اور یادگار دستاویزات کو محفوظ کروانے کے لیے کی۔
محمد حنیف بندھانی کے پاس ایسے نادر اور قیمتی کاغذات موجود تھے جو قیامِ پاکستان کے وقت کے حالات و واقعات، مہاجرت کے سفر، اور فسادات کی حقیقی گواہی دیتے تھے۔ یہ کاغذات ان کے خاندان کے تجربات اور مشاہدات پر مبنی تھے، جنہیں انہوں نے نہایت محنت اور احتیاط سے محفوظ رکھا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ آنے والی نسلیں ان دستاویزات کے ذریعے قیامِ پاکستان کی تاریخ کو صحیح اور اصل شکل میں جان سکیں۔
اسی جذبے کے تحت انہوں نے متعدد بار کوشش کی کہ یہ دستاویزات قومی سطح پر محفوظ کر دی جائیں تاکہ انہیں ایک باقاعدہ ورثے کا درجہ حاصل ہو۔ اس سلسلے میں وہ وزارتِ قومی ورثہ و ثقافت، اسلام آباد بھی گئے۔ ان کا ارادہ تھا کہ یہ کاغذات کسی قومی آرکائیو، میوزیم یا لائبریری میں بطور تاریخی امانت رکھے جائیں تاکہ مورخین، محققین اور طلبہ ان سے استفادہ کر سکیں۔
تاہم، ان کی یہ مخلصانہ کوشش رائیگاں چلی گئی۔ وزارتِ قومی ورثہ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ ان دستاویزات کو محفوظ کرنے یا قبول کرنے کے مجاز نہیں۔ یہ انکار نہ صرف محمد حنیف بندھانی کی ذاتی محنت کی ناقدری تھی بلکہ ایک قومی نقصان بھی۔ کیونکہ جن دستاویزات کو وہ لے کر گئے تھے، وہ صرف ایک خاندان کی یادیں نہیں تھیں بلکہ وہ ایک پوری قوم کی اجتماعی جدوجہد، قربانی اور ہجرت کی زندہ شہادتیں تھیں۔
اس رویے سے محمد حنیف بندھانی کو گہرا دکھ پہنچا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ہم بحیثیت قوم کس قدر زوال پزیر ہیں
محمد حنیف بندھانی خود ایک اصول پرست، نڈر اور خدا ترس شخصیت کے مالک ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے وہ نہایت کامیاب اور تجربہ کار بینکار رہے۔ نیشنل بینک آف پاکستان کے آڈٹ سیکشن میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ کر کئی دہائیوں تک شفاف مالیاتی نظام کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے صرف ملک میں ہی نہیں بلکہ بیرونِ ملک مختلف بینکوں کے آڈٹ میں بھی اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ وکالت کے شعبے سے وابستہ ہوئے اور آج سندھ ہائی کورٹ کے ممتاز وکلاء میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ وہ عدلیہ کی آزادی، انصاف کی سربلندی اور انسانی حقوق کے لیے وکلاء تحریکوں میں پیش پیش رہے۔ ان کی شخصیت میں ایک نرمی، سنجیدگی اور مقصدیت ہے جو انہیں معاشرے کے دیگر افراد سے ممتاز بناتی ہے۔
ان کی کتاب میں شامل یادداشتیں، تصاویر اور دستاویزات محض تاریخی مواد نہیں بلکہ ایک تہذیب، ایک نسل اور ایک خواب کا بیانیہ ہیں۔ یہ کتاب قاری کو اس دور میں لے جاتی ہے جب پاکستان ایک خواب تھا، ایک امید تھی، اور ہر شخص اس امید میں اپنا کردار ادا کرنے کو بے چین تھا۔ چوہدری محمد اسماعیل نے بھی یہی کیا، مگر جو سلوک ان کے ساتھ کیا گیا، وہ اس تلخ سچ کی نمائندگی کرتا ہے جس کا سامنا کئی ایسے افراد کو کرنا پڑا جو نظریے کے لیے سب کچھ قربان کر بیٹھے۔
کتاب میں بیان کردہ تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان ابتدائی دنوں میں گاڑیوں کے ذریعے سامان کی ترسیل کا ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ یہ معاہدہ اگرچہ وقتی اور عبوری نوعیت کا تھا، مگر اس کے تحت جو ذمہ داریاں چوہدری محمد اسماعیل جیسے افراد کو سونپی گئیں، وہ ان کے حوصلے، ایمانداری اور اصول پسندی کا کڑا امتحان تھیں۔ وہ مال گاڑی میں صرف سامان نہیں لا رہے تھے، وہ نئی مملکت کی علمی، ادبی، تاریخی اور نفسیاتی میراث محفوظ کر رہے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں جس افسر کا کتابوں سے بھرا بکسہ تھا، ممکن ہے وہی افسر بعد میں تعلیمی پالیسی مرتب کرتا ہو۔ جس کا فرنیچر محفوظ طریقے سے پہنچایا گیا، وہ بعد میں کابینہ اجلاسوں کی میز پر بیٹھا ہو۔
کتاب میں شامل "سعادت مند صاحبزادے” کے عنوان سے ایک باب خاص طور پر متاثر کن ہے۔ یہ باب نہ صرف چوہدری محمد اسماعیل کے فرزند کے طور پر مصنف کی اپنے والد کے لیے جذباتی وابستگی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ والدین کی عظمت، قربانی اور کردار سازی کے اس عمل کو بھی بیان کرتا ہے جو ایک بچے کو باشعور، ذمہ دار اور قوم کے لیے سودمند فرد بناتا ہے۔ حنیف بندھانی نے نہ صرف اپنے والد کے کارنامے قلم بند کیے بلکہ یہ بھی بتایا کہ انہوں نے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی زندگی کو اصولوں، دیانت اور خدمتِ خلق کے لیے وقف کر دیا۔
کتاب میں شامل تصاویر اور دستاویزات صرف نایاب مواد نہیں بلکہ تاریخ کی زندہ شہادتیں ہیں۔ ان کے ذریعے نہ صرف قاری ماضی کے مناظر کو آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے بلکہ محسوس کر سکتا ہے کہ ایک شخص نے کس طرح خلوصِ نیت سے اپنی ذمہ داری ادا کی۔ یہ تمام اشیاء، کتاب کی سچائی اور مصنف کی نیت پر مہر ثبت کرتی ہیں۔ "مال گاڑی میں امانتیں” بظاہر ایک سادہ عنوان لگتا ہے، مگر اس عنوان کے پیچھے ایک پوری تہذیب کی منتقلی، ایک عہد کی صداقت اور ایک انسان کی عظمت پوشیدہ ہے۔
کتاب میں کئی مقامات پر ان افسروں کے نام، عہدے اور مستقبل کے مناصب کا ذکر کیا گیا ہے، جنہوں نے چوہدری محمد اسماعیل کی خدمات سے فائدہ تو اٹھایا مگر بعد میں انہیں مالی و اخلاقی انصاف نہ دیا۔ یہ پہلو ایک قومی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ ہم اکثر اپنے قومی ہیروز کی بات کرتے ہیں، مگر ان غیر معروف، گمنام سپاہیوں کو بھول جاتے ہیں جن کے کندھوں پر یہ مملکت کھڑی ہوئی۔ حنیف بندھانی نے اپنے والد کے ذریعے ایسے ہی ہزاروں افراد کی نمائندگی کی ہے، جو تاریخ کی کتابوں میں جگہ نہ پا سکے۔
یہ کتاب ایک بیٹے کے خلوص، ایک وکیل کی جستجو، ایک مؤرخ کی تحقیق اور ایک سچے پاکستانی کی ذمہ داری کا حسین امتزاج ہے۔ یہ نہ صرف تاریخ کے طالبعلموں، وکلاء، بینکاروں اور پالیسی سازوں کے لیے اہم ہے بلکہ ہر اس شخص کے لیے سبق آموز ہے جو ملک و قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے۔ "مال گاڑی میں امانتیں” اس امر کی گواہی ہے کہ جذبہ، ایمان اور اصول پرستی آج بھی زندہ ہیں، بس ہمیں انہیں پہچاننے، سراہنے اور اپنانے کی ضرورت ہے۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |