بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں
تحریر محمد ذیشان بٹ
آپ نے اکثر دوائیوں کی بوتلوں پر ایک چھوٹا سا جملہ پڑھا ہوگا: "بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں”۔ یہ فقرہ بظاہر ایک سادہ سی احتیاطی تدبیر ہے، مگر اگر غور کیا جائے تو یہ جملہ پوری تربیتِ اولاد کا مرکزی اصول بن سکتا ہے۔ یہ صرف دوائیوں پر لاگو نہیں ہوتا، بلکہ زندگی کی کئی چیزیں، رویے، افعال، اور سہولیات ایسی ہیں جو اگر بچوں کی پہنچ میں جلدی آ جائیں، یا غلط وقت پر دے دی جائیں تو ان کے لیے فائدے کی بجائے زہر بن جاتی ہیں۔
تربیتِ اولاد کوئی آسان کام نہیں۔ یہ ایک مسلسل مشقت، قربانی، اور شعور کا تقاضا کرتی ہے۔ جو لوگ بچوں کی تربیت کو صرف اسکول کے داخلے، اچھے کپڑے، اور موبائل ہاتھ میں تھما دینے تک محدود سمجھتے ہیں، وہ دراصل اولاد کے ساتھ، اور خود اپنے مستقبل کے ساتھ ظلم کر رہے ہوتے ہیں۔ والدین کی ذمہ داری صرف بچوں کو جنم دینا نہیں، بلکہ ان کو اس دنیا میں اس انداز سے تیار کرنا ہے کہ وہ ایک مفید، بااخلاق، اور ذمہ دار انسان بن کر ابھریں۔ اس میں کامیابی مل جائے تو والدین کے لیے دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔ لیکن اگر وہ اس امتحان میں ناکام ہو جائیں، تو پھر یہی اولاد ان کی آزمائش، شرمندگی اور معاشرتی زوال کا باعث بن جاتی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ جو بچہ ہمارے سامنے کھیلتا، ہنستا، ضد کرتا ہے، وہی بچہ ہماری غیر موجودگی میں ہمارا عکس ہوتا ہے۔ یعنی ہم جیسا اس کو بنائیں گے، ویسا ہی وہ ہمارے پیچھے دکھائی دے گا۔ وہ بچہ صرف ہمارے گھر کا فرد نہیں، بلکہ معاشرے کا ایک مکمل شہری ہے، جو کل کو فیصلے کرے گا، لوگوں سے ڈیل کرے گا، سچ اور جھوٹ کا فرق سمجھے گا (یا نہیں سمجھے گا)، اور جو کچھ اس کے کردار میں ہو گا، وہی معاشرے میں جھلکے گا۔
اب آئیے، دوائیوں کی مثال پر واپس چلتے ہیں۔ بچوں کی پہنچ سے دور رکھنے کا مقصد یہ نہیں کہ دوائی زہریلی ہے، بلکہ اس لیے کہ بچہ ابھی اس کی صحیح مقدار، استعمال اور وقت کو نہیں سمجھتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ ہر میٹھی چیز کھانے کی ہوتی ہے، ہر شیشی میں مشروب ہوتا ہے۔ اگر وہ لاعلمی میں زیادہ دوا لے لے، یا اسے بطور کھلونا استعمال کرے، تو وہی دوا جو کسی بڑے کے لیے شفا تھی، بچے کے لیے جان لیوا بن سکتی ہے۔ یہی اصول زندگی کی بہت سی اور چیزوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
آج کل بچے موبائل فون، انٹرنیٹ، یوٹیوب، سوشل میڈیا اور گیمز کی دنیا میں گم ہو چکے ہیں۔ والدین خوش ہوتے ہیں کہ بچہ خاموش ہے، ضد نہیں کر رہا، مصروف ہے۔ مگر وہ یہ نہیں دیکھتے کہ وہ خاموش بچہ ایک ایسے ڈیجیٹل دلدل میں قدم رکھ چکا ہے جہاں سے نکالنا آسان نہیں۔ ہم نے بچے کو موبائل تو دے دیا، لیکن یہ نہ بتایا کہ اس کا وقت کیسے متعین کرنا ہے، کون سا مواد دیکھنا ہے، اور کیا دیکھنے سے پرہیز کرنا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مفید ایجاد نے نقصان پہنچایا۔ کئی بچے موبائل کی وجہ سے آنکھوں کی بیماریوں، ذہنی کمزوری، چڑچڑاپن، اور سستی کا شکار ہو چکے ہیں۔ سونے سے پہلے تک موبائل، اُٹھنے کے بعد موبائل۔ گویا ایک نشہ، جو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بچوں کو تھما دیا۔
اسی طرح موٹر سائیکل کی مثال لے لیجیے۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی محلہ ہو جہاں تیرہ چودہ سال کا بچہ موٹر سائیکل نہ چلا رہا ہو۔ والدین فخر سے بتاتے ہیں کہ "ہمارا بیٹا تو چھٹی جماعت سے ہی گاڑی چلا لیتا ہے۔” لیکن پھر وہی بچہ ایک دن کسی حادثے کا شکار ہو جائے، کسی اور کی جان لے بیٹھے، یا خود اپاہج ہو جائے، تو وہی والدین کہتے ہیں، "بس وقت ہی خراب تھا۔” اصل میں وقت نہیں، تربیت خراب تھی۔ ہم نے بغیر تربیت، بغیر شعور، بغیر ذمہ داری کے بچے کے ہاتھ میں وہ چیز دے دی جس سے وہ خود اور دوسروں کی جان خطرے میں ڈال سکتا تھا۔
یہ تمام مثالیں ہمیں یہی بتاتی ہیں کہ ہر چیز کا وقت اور طریقہ ہوتا ہے۔ بچوں کو ہر چیز وقت سے پہلے دینا، یا بغیر رہنمائی دینا، گویا خود سے نقصان کروانا ہے۔ والدین اکثر کہتے ہیں کہ "اب زمانہ بدل گیا ہے، بچوں کو سب کچھ دینا پڑتا ہے۔” جی ہاں، زمانہ بدلا ہے، مگر تربیت کا اصول نہیں بدلا۔ آج بھی اگر کوئی ماں باپ شعور اور حکمت سے بچوں کو سہولیات دیں، وقت کی قدر سکھائیں، تو وہ بچہ زمانے کا سب سے کامیاب انسان بن سکتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں تربیت کے فقدان کی وجہ سے بچے نہ ماں باپ کی عزت کر پاتے ہیں، نہ استاد کا ادب، نہ پڑوسی کا لحاظ، نہ کسی کی بات برداشت۔ کیونکہ ہم نے کبھی ان کو یہ سکھایا ہی نہیں۔ انہیں کھلونے تو دیے، لیکن ادب نہیں دیا۔ ان کے اسکول کی فیس دی، لیکن تہذیب کا سبق نہ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے بچے ذہین تو ہیں، لیکن بدتمیز بھی، ماڈرن تو ہیں، مگر بےحس بھی۔
اصل تربیت یہ ہے کہ بچوں کو ہر چیز بتدریج اور ذمہ داری کے ساتھ دی جائے۔ انہیں سہولیات سے پہلے شعور دیا جائے۔ ان کو جذباتی طور پر مضبوط بنایا جائے، ان کی سوچ کو وسعت دی جائے، ان کو نا کہنے کی طاقت سکھائی جائے، ان کو صبر کا مطلب بتایا جائے۔ ہر بات میں ضد پوری کرنا محبت نہیں، بلکہ تباہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اکثر بڑے ہو کر بچے والدین سے کہتے ہیں، "آپ نے ہمیں سمجھایا کیوں نہیں؟” ان کی یہ شکایت اس وقت آتی ہے جب وہ خود زندگی کے کسی موڑ پر پچھتاوے کا شکار ہوتے ہیں۔
اس کالم کا مقصد کسی پر تنقید نہیں، بلکہ ایک اجتماعی شعور کو جگانا ہے۔ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ والدین، اساتذہ، اور بزرگوں کی اصل ذمہ داری یہ نہیں کہ وہ بچوں کو چیزیں فراہم کریں، بلکہ یہ ہے کہ وہ انہیں ان چیزوں کے استعمال کا سلیقہ سکھائیں۔
یاد رکھیے، تربیت کا مطلب صرف مار پیٹ نہیں، صرف نصیحتیں نہیں، بلکہ مستقل مزاجی، محبت، اور مثال کے ذریعے سکھانا ہے۔ جیسے بچے دوا کی مقدار خود نہیں سمجھتے، ویسے ہی وہ زندگی کے مسائل، خطرات، اور اخلاقی قدروں کو بھی خود نہیں سمجھ سکتے۔ انہیں سمجھانا پڑتا ہے، مسلسل، نرمی اور عقل کے ساتھ۔
آج اگر ہم نے اس پہلو پر سنجیدگی سے سوچنا شروع نہ کیا، تو کل یہ نسل ہمیں سوالیہ نشان بنا دے گی۔ پھر ہم کف افسوس ملتے رہیں گے کہ "بچوں کو تو کچھ سمجھ نہیں، نہ ادب ہے، نہ لحاظ۔” لیکن ہم یہ بھول جائیں گے کہ ادب ہم نے سکھایا نہیں، لحاظ ہم نے برتا نہیں، اور شعور ہم نے منتقل کیا ہی نہیں۔
لہٰذا اب بھی وقت ہے۔ بچوں کی تربیت کو دوا کی بوتل کی طرح سمجھیے۔ انہیں ہر چیز سے پہلے شعور دیجیے، ورنہ وہی دوا، وہی موبائل، وہی آزادی، زہر بن جائے گی۔ ہمیشہ کی طرح تجربہ شرط ہے۔ ذرا نہیں مکمل غور کیجے

محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |