ڈاکٹر مقصود احمد عاجزؔ سے گفتگو

ڈاکٹر مقصود احمد عاجزؔ صاحب ،

انٹرویو بسلسلہ ادبی شخصیات فیصل آباد

انٹرویو کنندہ : مقبول ذکی مقبول ، بھکر پنجاب پاکستان

آج ہم آپ کو جس مہان ادبی شخصیات کا تعارف کروانا چاہتے ہیں وہ شہر نعت حوالے سے معروف مصنف و شاعر اور روحانی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ آپ معروف نعت نگار ہیں اور آپ کا شمار نعتیہ ادب میں بزرگ اور سینئر نعت گو شعراء کرام میں ہوتا ہے ۔ منفرد اور سادہ اسلوب سخن رکھتے ہیں ۔ تین نعتیہ مجموعوں کے خالق ہیں ۔
پہلا نعتیہ مجموعہ کلام “وسیلہء بخشش” 2019ء کو شائع ہوا
دوسرا نعتیہ مجموعہ کلام “امید بخشش”2021ء کو شائع ہوا
تیسرا نعتیہ مجموعہ کلام “زاد بخشش 2022ء کو شائع ہوا جبکہ مزید دو نعتیہ مجموعے تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں ۔ محکمہ زراعت سے ریٹائرڈ سرکاری آفیسر ہیں ۔ سلسلہ طریقت چشتیہ صابریہ سے فیض یافتہ ہیں ۔ آج کل ہومیو پیتھک کلینک چلارہے ہیں ۔ میری مراد محترم جناب ڈاکٹر مقصود احمد عاجز صاحب ہیں ۔
آپ کا خاندانی نام مقصود احمد ملک جبکہ قلمی نام ڈاکٹر مقصود احمد عاجزؔ ہے ۔1954ء میں فیصل آباد شہر میں پیدا ہوئے ۔ جبکہ والدین 1947ء میں شہر لدھیانہ ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے ۔ انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کرنےکے بعد 1973ء میں حکومتِ پنجاب ، محکمہ زراعت میں سروس حاصل کی ۔ دورانِ سروس اکنامکس میں ماسٹر ڈگری حاصل کی اور تقریباً 41 سال سروس مکمل کرنے کے بعد 2014ء میں بطورِ ایسوسی ایٹ ایڈیٹر/ورڈ پروسیسر ریٹائر ہُوئے ۔ دورانِ سروس1999ء میں ہومیوپیتھک ڈپلومہ (ڈی ایچ ایم ایس) کیا اور اب ہومیو پیتھک کلینک چلا رہے ہیں ۔

ڈاکٹر مقصود احمد عاجزؔ سے گفتگو


چند روز قبل ملاقات کرنے کا موقع نصیب ہوا اور علمی و ادبی حوالے سے گفتگو ہوئی وہ نذر قارئین ہے ۔
سوال : آپ ادبی میدان میں کس طرح وارد ہوئے ۔؟
جواب : میرا سارا قبیلہ اور والدین چشتیہ صابریہ سلسلہ کے بزرگوں کے عقیدت مند تھے اور اسی سلسلہ میں وہ بیعت ہوئے ۔ تقریباً 1970ء سے ہمارے آبائی گھر میں سالانہ اعراس اور دیگر دینی محافل کی تقریبات منعقد ہو رہی ہیں ۔ جس میں محفلِ سماع ، محفل ذکر اور محفل نعت شامل ہیں ۔ ہمارے پیر و مرشد حضرت جی سیّد غطریف حسین شاہ صاحبؒ ، سیّد غزیر حسین شاہ صاحبؒ آف گگو منڈی شریف اور باباجی صوفی عاشق حسین ؒآف لاہور اکثر تشریف لایا کرتے تھے اور یہ سلسلہ نسل در نسل جاری و ساری ہے ۔ اس روحانی ماحول نے مجھ میں لڑکپن سے علمی وا دبی اور شعری ذوق پیدا کر دیا اور اشعار کہتے کہتے غزل اورنعت لکھنا شروع کی ۔دوارنِ سروس دفتری مصروفیات کی وجہ سے باقاعدہ شاعری کی طرف توجہ نہ ہو سکی ۔ ریٹائر منٹ کے بعد 2014ء میں اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے عمرہ اور 2015ء میں حج جیسی عظیم سعادت سے بہرہ مند فرمایا ۔ جس کے بعد میں نے باقاعدہ شاعری کا سلسلہ شروع کیا اوراستاد ِ مکرم جناب محمد افضل خاکسارؔ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا ۔
سوال : آپ نے نعت گوئی کا راستہ کیوں چنا ۔ ؟ یہ راہ تو بہت مشکل ہے ۔؟
جواب : مقبول ذکی صاحب!آپ نے درست فرمایا کہ دیگر اصناف بالخصوص غزل کے مقابلہ میں نعت گوئی انتہائی نازک صنفِ سخن ہے ۔ اظہارِ سخن کے لئے راستہ کا انتخاب خود سے نہیں ہوتا اس کا انحصار آپ کے اندر موجود صلاحیت ، دلی کیفیات اور احساسات پر ہوتا ہے ۔ جب ہم برِصغیر کی نعتیہ تاریخ کےمعروف نعت گو شعراء کی طرف نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے بیشتر شعراء صنفِ غزل سے نعت کی طرف آئے اور نعت ہی کے ہو گئےاور وہ اب نعت کےمعتبر حوالہ سے جانے جاتے ہیں ۔ کسی نے درست کہا کہ جب نعت باوضو ہوتی ہے نعت کی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔ لیکن بہت سے ایسے غزل گو شعراء ہیں ۔ جنہوں نے نعت بالکل نہیں کہی یا بہت کم کہی ہے ۔ میرا عقیدہ ہے کہ نعت کی توفیق فقط خداوندِ قدوس کے فضل و کرم اور خود سرکارِ دو جہاںﷺ کی عطا کا نتیجہ ہے ۔ نعت گوئی اس ہستی کی توصیف و ثنا ہے جو محبوبِ خدا ہے ۔ وجہِ تخلیقِ کائنات ہے ۔ سید الانبیاء ہے اور جسکی عظمت اور شان یہ ہے کہ بعد از بزرگ توئی قصہ مختصر، جس پر نہ صرف ملائکہ بلکہ خود خدا بھی دُرود بھیجتا ہے ۔ تو پھر ایسی ہستی کے بارے لب کشائی کی توفیقِ خداوندی اور عطائے مصطفیٰﷺ کے بغیر ممکن نہیں ۔
سوال : نعت کو زیادہ فروغ کس زبان میں ملا ۔؟
جواب : نعت ِ رسولِ مقبول ﷺکو زیادہ فروغ عربی وفارسی زبان کے بعد اردو زبان میں مِلا اور اس پر زیادہ کام برِصغیر پاک و ہندمیں ہو رہا ہے ۔
سوال : غزل کی اپنی ایک روح ہے۔ کیا غزل کی روح زخمی تو نہیں ہو رہی ۔؟
جواب : کوئی بھی صنفِ سخن کسی دوسری صنف سے متاثر ضرور ہوتی ہے ۔ ضروری نہیں کہ وہ منفی اعتبار سے ہو ۔ آپ نے درست فرمایا کہ غزل کی ایک اپنی روح ہے جو اس کا طرہء امتیاز ہے ۔ اگرچہ بہت سے شعراء غزل سے نعت کی طرف آئے اور غزل کے ساتھ ساتھ انہوں نے نعت کہنا شروع کی مگر غزل کی رنگا رنگی اور ہیئت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور یہ صنف ماضی کی طرح پوری آب و تاب سے قرطاسِ سخن پر جلوہ افروز ہے ۔ البتہ غزل نے صنفِ نعت کی ہیئت کو کافی متاثر کیا ہے اور آج کل نعت کا زیادہ تر اظہار غزل کی ہیئت میں ہو رہا ہے اور بہت سے نام ور نعت گو شعراء اسلوبِ غزل کے ترجمان ہیں ۔
سوال : موجودہ دور میں نعت کی ضرورت وافادیت ۔ ؟
جواب : نعت وہ ادب پارہ ہے جس میں حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی مدح و ثنا ہو ، آپ کےسراپا کا بیان ہو ، شبیہ و شمائلِ اقدس کی تصویر کشی ہو ، عادات و اخلاق کا بیان ہو ، فضائل و محاسنِ جمیلہ کا اظہار ہو ، اور آ نحضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی ذاتِ والا صفات سے اپنی قلبی وابستگی ، آپ سے شفاعت طلبی ، استغاثہ و استمداد کا بیان ہو اور سب سے بڑھ کر مقصد ِ نبوت کا تذکرۂ خیر ہو ۔ الغرض نعت وہ صنفِ سخن ہے جو اپنے قاری یا سامع کو جنابِ محمدِ مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی طرف متوجہ کرے اور قرب کا احساس پیدا کرے چاہے وہ نعت نثر کی صورت میں یا نظم کی شکل میں ہو ۔ لہٰذا آج کی نعت اس گئے گزرے دور میں ترویج و تبلیغِ اسلام کے ساتھ ساتھ ہمارے دلوں میں سرکارِ دوجہاںﷺ کے ساتھ محبت و عقیدت کے فروغ اور آپ کے اخلاقِ حسنہ سے آگاہی کا اہم ذریعہ ہے ۔
سوال : آپ کے کلام میں بلا کی روانی اور تخیل کی پرواز بلند ہے ۔ اس کی کیا وجہ ہے ۔؟
جواب : جناب ذکی صاحب ! آپ کی اس محبت کا بے حد شکریہ ۔ ویسے اس کی کوئی خاص وجہ نہیں ۔ ہر شاعر کا اپنا انداز و اسلوب اور ایک الگ رنگ ہوتا ہے اور ہونا بھی چایئے جس سے اس کی پہچان ہو چاہے وہ غزل گو ہو یا نعت نگار ، اور یہ سب کچھ ہر شاعر کے اپنے زاویہء فکر ، ذوقِ مطالعہ ،اور اُس کے ارد گرد کےماحول پر موقوف ہے تا ہم وہ اپنے اساتذہ اور سینئیر شعراء کرام سے بھی سیکھتا ہے ۔ جو اُس کے اپنے انداز میں مزید نکھار پیدا کردیتے ہیں ۔ اِسی نسبت سے میری تخلیق کا انداز انتہائی سادہ ، بے تکلف اور عام فہم ہے جس میں مجھے اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنانے میں مشکل پیش نہیں آتی اور جو میں کہنا چاہتا ہوں کہہ لیتا ہوں ۔شاعری میں ایک مقصدیت ہونی چاہیے نہ کہ محض لفاظی ، تاکہ آپ اپنا پیغام من و عن دوسروں تک پہنچا سکیں ۔
سوال : کہا جاتا ہے کہ نعت کہنا دودھاری تلوار کی مثل ہے ۔ اس پر اظہارِ خیال فرمائیں ۔؟
جواب : واقعی آپ کی بات درست ہے ۔ اس حقیقت پر جب دھیان جاتا ہے تو ایک خوف سا طاری ہو جاتا ہے کہ کسی کلام میں کہیں آپ سرکارﷺ کے کمالات ، خصائصِ کبریٰ اور شانِ بےمثل کے معیارِ بیان میں کوئی کمی یا تفریط نہ ہو جائے یا آپﷺ کےعشق و عقیدت میں ایسی بات نہ کہہ دوں جو صرف اور صرف اُس خالقِ حقیقی اور معبودِ برحق کو روا ہو ۔ دُعا ہے اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اس افراط و تفریط سے محفوظ فرمائے آمین ۔
سوال : آپ” بزمِ مقصود کائنات” کے صدر ہیں ۔ اس بزم کے منشور کیا کیا ہیں ۔؟
جواب : بزمِ مقصودِ کائنات کا بنیادی مقصد فروغِ نعت ہے تا کہ اس پرُ فتن دَور میں لوگوں میں بالخصو ص نوجوان نسل میں اس صنف کے ذریعہ سرکارِ دوجہاںﷺ کے عشق کی شمع گھر گھر جلائی جائے اور سرت النبیﷺ پر عمل کرنے کی تحریک پیدا کی جائے ۔
سوال : آپ کن ادبی شخصیات سے متاثر ہیں ۔؟
جواب : بہت سی شخصیات ہیں جو تہذیبی ادب میں بڑے نمایاں مقام کی حامل ہیں ۔ لیکن جن کی تحاریر ، گفتگو ، ادبی خدمات یا نعتیہ شاعری سے زیادہ متاثر ہُوا ہوں اُن میں امام احمد رضا خاںؒ ، امام حسن رضا خاںؒ ، حفیظ تائبؒ ، مظفر وارثیؒ ،اقبال عظیم ، ؒ ڈاکٹر اسحاق قریشیؒ ، ڈاکٹر ریاض مجید ، محمد افضل خاکسار اور ریاض احمد قادری شامل ہیں ۔
سوال : قصیدہ بردہ شریف پر تھوڑی روشنی ڈالیں ۔؟
جواب : امام بوصیریؒ کے مشہور قصیدے کا نام بردہ ہے اور اسے قصیدہ بردہ اِسی لیے کہا جاتا ہے کہ حالت خواب میں نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے جب آپ سے یہ قصیدہ سُنا تو آپﷺ اپنی چادر مبارک حضرتِ امام بوصیریؒ کے شانوں پر ڈال دی اور جب بوصیریؒ بیدار ہوئے تو چادر ان کے شانوں پر موجود تھی ۔ بوصیریؒ مفلوج تھے ۔ لیکن اس چادر کے اوڑھنے کی برکت سے وہ معجزانہ طور پر شفا یاب ہو گئے چنانچہ اس قصیدہ کو قصیدہ بردہ شریف کہا جانے لگا ۔ عربی کی کسی نظم کو اتنی شہرت حاصل نہیں ہو سکی جتنی قصیدہ بردہ کو ہے آج بھی اِسے ردِآفات و حصولِ برکات کے لئے پڑھا جاتا ہے اس کی نوے سے زائد شرحیں مختلف زبانوں میں لکھی جاچکی ہیں اور فارسی ، اردو ، ترکی ، بربر ، پنجابی ، انگریزی ، فرانسیسی ، جرمن ، سندھی و دیگر بہت سی زبانوں میں اس کے تراجم کیے جا چکے ہیں ۔
سوال : آپ کو نعتیہ مشاعرہ پڑھنے کا اتفاق کہاں کہاں ہوا ۔؟
جواب : الحمد للہ شہرِ نعت فیصل آباد میں ہر بزمِ نعت میں حاضری کا شرف حاصل ہوتا ہے جن میں حلقہ اربابِ ذوق ، انجمنِ فقیرانِ مصطفیٰﷺ، بزمِ مرادیہ نعت ، بزم ِسراجِ منیر ، مجلسِ معینِ ادب ، بزمِ صائم انٹرنیشنل ، منظوم ، المصطفیٰ تھنکرز فورم خاص طور پر قابل ِذکر ہیں ۔ اس کے علاوہ 92 ٹی وی چینل کے پروگرام صبحِ نُور میں بھی مشاعرہ مناقب پڑھنے کی سعادت حاصل کر چکا ہوں ، دیگر شہروں میں لاہور ، حافظ آباد ، چنیوٹ ، سمندری اور دیگر مضافات میں مشاعرے بھی پڑھنے کا موقع ملا ہے ۔
سوال : آپ کی نعت میں فن کے ساتھ ساتھ فکر کی کون سی نئی جہات ہیں ۔؟
جواب : میری فکری جہات کا محور سیّدِ عالم ، غائتِ کائنات فخرِ موجوداتﷺ اور اس کی آل علیہ السلام کی محبت ہے ۔ میری ہر جہت کا ہر ورق اسی سے مزیّن ہے ۔یہی جزوِ ایمان ہے اور یہی نجات کا ذریعہ ہے ۔
سوال : نعت کہتے ہوئے روحانی سکون محسوس ہوتا ہے ۔ آپ کی محسوسات اور کیفیات کیا ہوتی ہیں ۔ ؟
جواب : میرے استاد مکرم جناب محمد افضل خاکسار کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں وہ کہتے ہیں ۔

یہ غلط کہ نعتِ شہِ زمنﷺ فقط ایک بات کی بات ہے
یہ مراقبات کی دین ہے ، یہ مشاہدات کی بات ہے

آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ایک مدحت نگار سرکارِ دو عالمﷺ کے عشق و محبت میں مستغرق ہو کرنعت لکھتا ہے ۔ نعت لکھتے وقت اس کی فکر کا محور حضورﷺ کی شان و عظمت ، آپﷺ کا حسنِ بے مثال ، شانِ رسالت ، آپ کی سیرتِ انور ، سیرتِ صحابہ ، مدینہ اور حرم پاک کی فضائیں ، روضہء انور ، مسجدِ نبوی اور گنبدِ خضریٰ کے نظاروں کے سِوا کچھ نہیں ہوتا ۔ اس طرح وہ جس کیف و مستی اور فکر و نظر کی بلندیوں سے گزرتا ہےاسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ جتنا زیادہ وہ ان کیفیات میں غوطہ زن ہو گا اتنا ہی اس کے کلام میں تاثیرو چاشنی کا عنصر ہو گا چاہے اس کے کلام میں تراکیب ، علامات و استعارات ، رموز و کنایات اور دیگر شعری محاسن بدرجہ اتم موجود نہ بھی ہوں ۔ یہ حالتِ کیف مختلف انسانوں میں مختلف اوقات میں ایک جیسی نہیں ہوتی ۔ ہرثنا گو کو اُس بارگاہ سے اس کی باطنی کیفیت ، وسعت ِدامنِ طلب ، جستجو اور عقیدت و محبت کے مطابق حصہ عطا ہوتا ہے اور اسی کے پیشِ نظر اسے توفیقِ توصیفِ خیر البشر نصیب ہوتی ہے ۔
سوال : آپ اپنی نعت میں مسلمانوں اور انسانوں کو کیا پیغام دیتے ہیں ۔ ؟
جواب : بنیادی پیغام یہی ہے کہ نبیِ مکرمﷺ کی محبت کے بغیر ایمان مکمل نہیں ۔ آپ کی محبت کے سِوا ہر راستہ تنگ ، دشوار اور گمراہ کن ہے ۔ دونوں جہاں میں بھلائیوں کے حصول کے لئے آپ ﷺاور آلِ پاک علیہ السلام کی محبت کو اپنانا ہو گا

maqbool

مقبول ذکی مقبول

بھکر، پنجاب، پاکستان

تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

احمد عطا اللہ کی غزل گوئی

ہفتہ فروری 11 , 2023
اس کتاب نے مجھے بہت متاثر کیا. کتاب نے مجھے اپنی طرف بے ساختگی سے اردو ادب کی چاشنی کے زریعے راغب کیا
احمد عطا اللہ کی غزل گوئی

مزید دلچسپ تحریریں