بھوک

بھوک

بھوک کا تذکرہ ہی کیوں جبکہ سال گزشتہ امریکی موجد و تاجر ایلون مسک نے دنیا سے بھوک کا نام و نشان ہی مٹا دیا تھا , ہوا یوں کہ ایک روز ایلون نے ٹویٹ کیا کہ میرے پاس 6 بلین ڈالر ہیں جو میں نے فلاحی کام کیلئے مختص کئیے ہیں تو انہیں کہاں اور کیسے کسی فلاحی کام میں استعمال کیا جاسکتا ہے جس سے دنیا سے بھوک کا خاتمہ ممکن ہو ؟ اس سوال / ٹویٹ پر ایک نوجوان نے جواب دیا کہ آپ ان 6 بلین ڈالر سے دنیا سے بھوک تو ختم نہیں کر سکتے لیکن تقریبا 42 ملین لوگوں کو فاقوں سے بچایا جاسکتا ہے ۔ اس کے جواب میں ایلون نے ان سے ان کا پلان مانگا اور یہ ٹویٹ کافی پاپولر ہونے کے بعد اچانک خاموشی کے گہرے سیاہ بادلوں میں کہیں کھو گئی اور پھر ایک دن اخبار کی سرخی پڑھ کر معلوم ہوا کہ ایلون نے کسی نومولود فلاحی ادارے کو 5.7 بلین ڈالر ہدیہ کر دئیے ہیں اس مد میں کے دنیا سے بھوک ختم کی جائے اور جس شخص / فلاحی ادارے نے پہلے مشورہ دیا تھا انہیں کچھ نا ملا اور اس خبر کے کچھ عرصے کے بعد سراغ رساں اداروں سے یہ پتہ چلا کہ یہ صرف ٹیکس سے بچنے کی اسکیم تھی اور صرف باتیں تھیں غربت وہیں کی وہیں دھری رہ گئی کیوں کہ باتیں سب کرتے ہیں عملا اس بارے کوئی کچھ کرنا نہیں چاہتا کیوں کہ دنیا کا نظام ڈیمانڈ اور سپلائی کے اصولوں پر جو چلانا ہے ۔

تو آیا اگر کیا ایک دن مستحقین کو کھانا کھلا دیں تو کیا ان کے مسائل حل ہو جاہیں گے انہیں دو وقت کی روٹی مستقل طور پر میسر ہو جائے گی ؟ نہیں ! بلکہ یہ مسئلہ تب تک حل نہیں ہو گا جب تک مساوات نہیں لائیں گے ، کھانے کیلئے مچھلی لا کر دینے کے بجائے مچھلی پکڑنا نہیں سکھائیں گے بھوک پر صرف پرچار کرنے کے بجائے صاحب قرار اسے محسوس کریں تب کہیں ان کے خالی پیٹ کے ڈھول اس انداز سے بجیں گے کہ ارباب اختیار کے کانوں تک یہ آواز پہنچے گی ۔ اسلامی قوانین کے مطابق سائل کی مدد سب مل کر ایسے کریں کہ وہ آئندہ کسی سے کچھ نہ مانگے بلکہ خود مختار ہو جائے لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے بلکہ لوگوں کو پسماندہ رکھا جاتا ہے تاکہ ان کو اپنے سیاسی اور دیگر مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کیا جائے ان کے مسائل کبھی ختم نا ہوں اور یہ لین دین اور حاکم و محکوم کا تعلق بنا رہے ۔ لغویات کے مطابق بھوک کے لفظی معنی سے تو ہم سب واقف ہیں بچپن سے یہ جملہ دھراتے اور اس کو محسوس کرتے آئے ہیں اور پیٹ بھرنے کو ہی بھوک سمجھتے رہے لیکن جب بڑے ہوئے تو پتا چلا کہ اس نیرنگی دنیا میں بھوک کی اور بھی کئی اقسام ہیں مثلا آنکھوں کی بھوک ، شہرت کی بھوک ، اقتدار اور کرسی کی بھوک یہ وہ اقسام ہیں جن کا علاج پیٹ بھرنے سے نہیں بلکہ نفسیاتی علاج سے ہی ممکن ہے ۔ یہ ایسا عفریت ہے جو ہمارے اندر موجود ہے اور موقع ملتے ہی ہمارے اوسان پر قابض ہو جاتا ہے اور ہم انگریزی کی اصطلاح کے مطابق ہیک ہو جاتے ہیں پھر یہ عفریت جو چاہتا ہے ہم سے کرواتا ہے آج کل تو کنفیکشنری بنانے والی کمپنیاں اشتہاروں میں کچھ ایسا ہی دکھاتے ہیں کہ ایک خونخوار درندہ ہے جو دھاڑ رہا ہے اور نقصان پہنچا سکتا ہے تو ریسکیو والے اس کے سامنے چاکلیٹ پھینکتے ہیں جسے کھاتے ہی وہ خونخوار درندہ انسان بن جاتا ہے اور پتا یہ چلتا ہے کہ موصوف کو بھوک لگی تھی تو آپے سے باہر ہو کر اشرف المخلوقات سے درندہ بن بیٹھے اور یہ حقیقت کئی ہزار مشاہدات کے بعد تسلیم کی جا چکی ہے کہ بھوک ایک ایسا عنصر ہے جو ہمیں کیا سے کیا بنا دیتا ہے کفر تک لے جاتا ہے قتل اور دیگر سنگین جرائم تک کے ہم مرتکب ہو جاتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی حدیث مبارک بھی ہے کہ ~

” اللهم إني أعوذ بك من الجوع ، فإنه بِئْسَ الضَّجِيعُ “
ترجمہ : اے اللہ میں بھوک سے تیری پناہ مانگتا ہوں ، یہ بہت بُری ہم نشین ہے ۔

تاریخ پر نظر ثانی کریں تو انقلاب فرانس سے منسوب ایک واقعہ یاد آگیا جب فرانس کی ملکہ ” میری انتونیت ” کو بتایا گیا کہ فقیر روٹی نہ             ملنے پر ناراض اور پریشان ہیں تو انہوں نے کہا کہ اگر روٹی نہیں ہے تو کیک کھا لیں یہ غیر حساس رویہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ انہوں نے کبھی بھوک ، افلاس ، پسماندگی ان عناصر کا نہ تو سنا تھا نہ کبھی محسوس کیا اور یہ سمجھتی ہوں گی کہ جیسے ان کا کھانے کا دسترخوان یا میز کھانوں کی مختلف انواع و اقسام سے سجا رہتا ہے فقیروں کا بھی قدرے اس جیسا ہو گا تو اگر ایک مخصوص چیر تناول کیلئے میسر نہیں ہے تو اس جیسی دوسری تناول فرما لیں اور یہ اساطیری جملہ صرف فرانس کی ملکہ سے ہی منسوب نہیں بلکہ تاریخ میں اس جیسی کئی مثالیں ملتی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اتنی بے حسی کیوں ؟ روز مرہ کی زندگی میں ہمارے کھانے کے اہتمام میں ذرا سی تاخیر ہو جائے تو ہم تمام ادب آداب بھول جاتے ہیں والدہ ہوں یا بیگم یا خانساماں ہم بنا لحاظ ان کیخلاف اعلان جنگ کر دیتے ہیں ۔ بات آداب کی ہوئی تو کیا بھوک یا بھوکوں کے لئیے بھی آداب ہوتے ہیں ؟ بیسویں صدی کے معروف شاعر ساحر لدھیانوی کہتے ہیں ~

مُفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے ،
بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی ۔۔

آپ کئی روز کی فاقہ کشی کے بعد کسی سے یہ توقع نہیں کر سکتے کہ وہ ہاتھ دھو کر اہتمام سے بیٹھ کر گہرے چمچ سے پہلے سوپ پئیے یا کھانے کیلئے چھری کانٹے کا استعمال کرے یا پینے کیلئے گلاس کا استعمال کرے بلکہ وہ یا تو بوتل کو منہ سے لگا لے گا یا ہاتھوں کی اوک سے پئیے گا ۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ہمارے سیاسی جلسوں کو دیکھ لیجئے جہاں لوگوں کو بھوکا رکھا جاتا ہے اور یہ لالچ دے کر لایا جاتا ہے کہ آپ کو بریانی اور کیک کھانے کو ملے گا اور جب کیک کاٹنے کا وقت آتا ہے تو ایسے یاجوج ماجوج کیطرح حملہ آور ہوتے ہیں کہ کیک کیساتھ میزبان کو بھی لیر و لیر کر دیتے ہیں اور کیوں نا کریں کہ وہ اس قدر بھوکے ہوتے ہیں کہ ہر بار دھوکہ کھا کر آجاتے ہیں ۔ کسی شہر میں مردم شماری کے دوران قطار بنا کر لوگ اپنا اندراج کروا رہے تھے وہاں سے کسی شخص کا گزر ہوا جو کئی روز کی فاقہ کشی کا ستایا ہوا تھا وہ یہ قطار دیکھ کر اس میں لگ گیا کہ شاید کھانے کو کچھ مل جائے اور جب اس کی باری آئی اور پوچھا گیا کہ کون ہو تو کہا ” بھوکا ہوں صاحب ” ایسے دل دھلا دینے والے واقعات کے علاؤہ ہم اگر اپنی ذات کا محاسبہ کریں تو رمضان المبارک کا با بارکت مہینہ دن بھر اسی سوچ میں گزر جاتا ہے کہ آج افطار میں کیا کھائیں گے کتنا کھائیں گے اور دل کو بہلاتے ہیں یہ سوچ کر کے تب تک کھائیں گے جب تک پیٹ تندور نہ بن جائے آج یا تو کھانا نہیں بچے گا یا ہم نہیں بچیں گے ۔

بھوک
Image by billy cedeno from Pixabay

عزیزان گرامی ہمیں یہ سوچ خود بدلنی ہوگی ورنہ ایک دن آئے گا جب ہم روٹی کو نہیں بلکہ روٹی ہمیں کھا جائے گی اور اس بھوک کی حوس خواہ وہ کھانے کی ہو یا اقتدار کی ہم سے ایسے ہولناک کام کروا جاہے گی کہ پھر پیچھے پلٹنا مشکل ہو گا یہاں تک کہ تاریخ گواہ ہے اقتدار کی بھوک میں لوگ جان تک لے لیتے ہیں اور یہ سب کب تک ؟ اصل بھوک تو معرفت الٰہی کی ہونی چاہیے اپنے ہونے کا مقصد تلاش کرنے کی ہونی چاہیے ان دنیاوی چیزوں میں مستغرق ہونے کی نہیں ۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اکثر بڑی عمر کے لوگ جن کو صحت کے مسائل لاحق ہیں وہ نہیں بلکہ وہ جو معرفت کی منزلیں طے کرتے عرفان حاصل کر لیتے ہیں وہ عارف لوگ بہت کم تناول فرماتے ہیں سارا دن مطالعہ ، عبادات اور فلاح کے کاموں میں لگے رہتے ہیں گھر والے فکر مند ہو کر ان کے پیچھے پڑے رہتے ہیں کہ کچھ کھالیں اور وہ دو نوالوں پر اکتفا کر کے پورا دن گزار دیتے ہیں بالکل ایک چھوٹے بچے کیطرح جس کی ماں رو رو کر ہلکان ہوتی رہتی ہے کہ میرا بچہ کچھ نہیں کھاتا وہ اسے پیار سے چمکارتی بھی ہے اور کبھی فرط جذبات کو قابو میں نا رکھتے ہوئے چھنڈ پھوک دیتی ہے اور پھر روتی بھی ہے لیکن یہ سادہ دل مائیں یہ نہیں جانتیں کہ یہ بچہ قدرت اور فطرت یزداں پر چل رہا ہے اسے دنیا اور اس لذیذکھانے سے رغبت نہیں وہ صرف دودھ پی کر خوش ہے وہ تو صرف پیار کرنا ، خوش رہنا ، بے فکر رہنا اور احساس اپنائیت کا طالب ہے اور زندگی کا حاصل بھی یہی بات جب تک ہمیں سمجھ آتی ہے کوچ کرنے کا وقت آ جاتا ہے ۔

غالبا حمايت علي کا شعر ہے ~

مشتِ خاک ہوا نے جسے بکھیر دیا
سمیٹنے کی تگ ودَو ہے، آدمی کیا ہے

مدیر اورسیز | تحریریں

مسقط، سلطنت عمان

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

رباب عائشہ کی لاجواب کتاب

منگل اکتوبر 31 , 2023
خاک کے آس پاس محترمہ رباب عائشہ کے گیارہ افسانوں اور سترہ کالمز پر مشتمل ایک ایسی کتاب ہے کہ جس کو پڑھ کر یہ فیصلہ کرنا
رباب عائشہ کی لاجواب کتاب

مزید دلچسپ تحریریں