یومِ تکبیر مبارک ہو!
تحریر صائمہ صمیم
یومِ تکبیر صرف ایک دن نہیں، یہ ایک عہد ہے:
ہم امن چاہتے ہیں، مگر دفاع پر کوئی سمجھوتہ نہیں!
یومِ تکبیر پاکستان کا ایک قومی دن ہے جو ہر سال 28 مئی کو منایا جاتا ہے۔ 28 مئی 1998 کا دن — وہ تاریخ ساز لمحہ جب پاکستان نے دنیا کو بتا دیا کہ ہم نہ صرف زندہ قوم ہیں، بلکہ اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ یہ دن نہ صرف سائنس، عسکریت اور قوم پرستی کی علامت ہے بلکہ یہ ہمت، استقامت اور قربانیوں کی طویل جدوجہد کا نچوڑ بھی ہے۔
"تکبیر” کا مطلب ہے "اللہ اکبر کہنا”، جو کہ قوت، عزم، اور ایمان کی علامت ہے۔ اس دن کو "یومِ تکبیر” کہنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ یہ کارنامہ اللہ تعالیٰ کے بھروسے، قومی اتحاد، اور محنت کا نتیجہ تھا کہ اس دن پاکستان اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بن گیا۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد 1974 میں اس وقت پڑی جب بھارت نے "Smiling Buddha” کے نام سے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ(18 مئی 1974) کیا۔ یہ جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو بگاڑنے کی کوشش تھی۔
پورا خطہ لرز اٹھا۔ اسلام آباد کی فضا میں خاموشی چھا گئی، لیکن وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ایک جملہ کہا جو تاریخ بن گیا:
"ہم گھاس کھا لیں گے، مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے!”
یہ محض الفاظ نہیں تھے، بلکہ پاکستان کی دفاعی خودمختاری کا اعلان تھا۔اور اس کے بعد پاکستان کی کہانی ایک ایٹمی قوت بننے کی دوڑ میں تبدیل ہو گئی۔
اسی سال پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع ہوا۔ایٹمی پروگرام کی ابتدا کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز (KRL) کے قیام سے ہوئی جس کی قیادت ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے سنبھالی۔
ادھر پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC) کے تحت ڈاکٹر ثمر مبارک مند، ڈاکٹر اشفاق احمد، ڈاکٹر محمد نسیم اور درجنوں انجینئرز و سائنسدانوں نے دن رات محنت کی۔
یہ وہ وقت تھا جب پاکستان پر عالمی پابندیاں تھیں،مغربی میڈیا اور خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت, وسائل محدود،اندرونی سیاسی اتار چڑھاؤ اور دشمن چوکس۔
پھر آیا 1977۔
حالات نے پلٹا کھایا۔ مارشل لاء لگا۔
ذوالفقار علی بھٹو قید ہو گئے، اور اقتدار آ گیا جنرل محمد ضیاء الحق کے ہاتھ۔
سوال اٹھا — کیا فوجی اقتدار میں یہ خفیہ ایٹمی مشن زندہ رہے گا؟
جواب آیا عمل سے.
اس دوران کئی سائنسدانوں نے بیرونِ ملک سے واپس آکر اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔ پاکستان نے یورینیم افزودہ کرنے میں مہارت حاصل کی — جو ایک خالصتاً ملکی ترقی یافتہ طریقہ تھا۔
جنرل ضیاء الحق نے ایٹمی پروگرام کو ریاستی راز سے بھی زیادہ خفیہ رکھا۔
جب امریکی دباؤ آیا، جب مالی رکاوٹیں آئیں، جب سازشیں ہوئیں —
ضیاء نے ایک لمحے کو بھی پیچھے ہٹنے کا نہیں سوچا ۔
کہوٹہ میں کام جاری رہا۔
سائنسدانوں کو تحفظ ملا، فنڈنگ ملی، اور آزادی بھی۔
فوجی انجینئرز، ISI، اور خفیہ ادارے ہر قدم پر سائنسدانوں کے ساتھ کھڑے رہے۔
یہ وہ وقت تھا جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے سینٹری فیوج ٹیکنالوجی میں کمال حاصل کیا۔
یورینیم افزودگی شروع ہوئی — دنیا کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔
ضیاء الحق نے عالمی طاقتوں کو چکمہ دے کر، پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بچایا اور پروان چڑھایا۔
بظاہر کہا:
"ہم ایٹمی پروگرام صرف پُرامن مقاصد کے لیے چلا رہے ہیں…”
لیکن پس پردہ، وہ ایک ناقابلِ شکست پاکستان کی بنیاد رکھ رہے تھے۔
کچھ مؤرخین کا ماننا ہے کہ ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کو طوالت دینے کی ایک بڑی وجہ ایٹمی پروگرام کی تکمیل بھی رکھی تاکہ یہ منصوبہ سیاسی افراتفری کا شکار نہ ہو۔
وہ سمجھتے تھے کہ اگر سول حکومتیں آئیں تو وہ بین الاقوامی دباؤ میں آ سکتی ہیں، جبکہ فوجی حکومت دباؤ برداشت کر کے منصوبے کو مکمل کر سکتی ہے۔
1988 — جنرل ضیاء ایک فضائی حادثے میں شہید ہو گئے۔
لیکن اُن کا خفیہ ساتھ، خاموش نگرانی، اور مضبوط حمایت
پاکستان کو ایٹمی منزل کے بہت قریب لے جا چکی تھی۔.
11 اور 13 مئی 1998 کو بھارت نے دوبارہ پانچ اٹیمی دھماکے کیے، جس نے پورے خطے میں خطرے کی گھنٹی بجا دی۔دنیا خاموش رہی ۔لیکن پاکستان کے اندر ایک طوفان اٹھ چکا تھا۔
قوم نے ایک ہی آواز میں کہا:
"اگر بھارت دھماکہ کر سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں؟”
افواجِ پاکستان، بالخصوص آرمی انجینئرنگ کور اور سپیشل سروسز گروپ (SSG) نے ایٹمی تجربات کی جگہ یعنی چاغی، بلوچستان میں مکمل خفیہ انتظامات کیے۔
دھماکوں کے مقام کی حفاظت، سیکیورٹی، زیرِ زمین سرنگیں بنانا — سب کچھ عسکری مہارت سے مکمل ہوا۔
جنرل پرویز مشرف، جو اس وقت آرمی چیف تھے،انہوں نے یہ مشورہ دیا کہ پاکستان کو فوری طور پر دھماکے کرنے چاہئیں۔
افواج اور حکومت کی باہمی ہم آہنگی اس اہم ترین فیصلے میں نظر آئی۔
پھر پاکستان نے جواب دینے کا فیصلہ کیا… ایک ایسا فیصلہ جس نے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔”
بالآخر 28 مئی 1998 کو دوپہر 3 بجکر 16 منٹ پر، بلوچستان کے چاغی پہاڑ سنہری ہو گئے اور لرز کر اعلان کیا:
پاکستان، دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قوت بن چکا ہے!”
یہ لمحہ تھا: یومِ تکبیر!
اللہ اکبر کی صدائیں گونج اٹھیں۔
یہ پانچ دھماکے تھے جو انتہائی تکنیکی مہارت سے کیے گئے۔ ان کے بعد 30 مئی کو چھٹا دھماکہ خاران میں کیا گیا (چاغی-II)۔
پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے سفر میں بہت سی دشواریاں، قربانیاں، اور عالمی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ایک ایسا سنگ میل تھا جو صرف ٹیکنالوجی نہیں بلکہ قوم کے حوصلے، اتحاد، اور خفیہ محنت سے عبور ہوا۔وہ چیلنج کیا تھے کچھ ان پر بھی بات کرتے ہیں ۔
- عالمی مخالفت اور دباؤ
امریکہ، یورپ، اور اقوام متحدہ کی جانب سے مسلسل دباؤ تھا کہ پاکستان ایٹمی پروگرام ترک کر دے۔
جب بھارت نے مئی 1998 میں ایٹمی دھماکے کیے، تب بھی امریکہ نے پاکستان کو دھماکے نہ کرنے پر راضی کرنے کے لیے بڑی مالی امداد اور رعایتوں کی پیشکش کی، مگر پاکستان نے قومی سلامتی کو ترجیح دی۔ - معاشی کمزوری
پاکستان اُس وقت ایک کمزور معیشت رکھتا تھا۔ ایٹمی پروگرام پر سرمایہ لگانا مشکل تھا، مگر قوم نے "گھاس کھا لیں گے” والے فلسفے پر عمل کیا۔
ایٹمی دھماکوں کے بعد سخت معاشی پابندیاں لگیں، بیرونی امداد بند ہو گئی، مگر قوم نے صبر و استقامت دکھائی۔ - تکنیکی و سائنسی رکاوٹیں
ابتدائی دنوں میں پاکستان کے پاس سائنسدان، آلات اور مواد کی شدید کمی تھی۔
تمام تحقیق اور ترقی خفیہ طور پر کرنی پڑی تاکہ دشمن کو اطلاع نہ ہو۔
یورینیم کی افزودگی (enrichment) ایک بڑا چیلنج تھا، جسے کہوٹہ لیبارٹریز نے حل کیا۔ - دشمن کی جاسوسی اور حملے کا خطرہ
اسرائیل اور بھارت کی ایجنسیاں پاکستان کے نیوکلیئر پلانٹس کو تباہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی تھیں۔
پاکستان نے سخت سیکیورٹی رکھی، تمام سائنسدانوں کو محفوظ رکھا، اور تمام تنصیبات کو خفیہ رکھا۔ - اندرونی اختلافات اور سیاسی مسائل
ملک کے اندر مختلف سیاسی ادوار میں قیادت تبدیل ہوتی رہی، مگر ایٹمی پروگرام کو مسلسل جاری رکھا گیا۔
کئی بار قیادت کے اندر تحفظات ہوئے، لیکن تمام جماعتیں اس معاملے پر متفق تھیں کہ ایٹمی پروگرام قومی دفاع کا ضامن ہے۔ - سائنسدانوں کی محنت اور قربانی
ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم نے سالوں تک دن رات کام کیا۔
ان پر ذاتی حملے، تنقید، اور بعد میں عالمی الزامات بھی لگے، مگر ان کا جذبہ کم نہ ہوا۔
تمام سائنسدانوں نے زندگی کی آسائشیں ترک کر کے قوم کے لیے عظیم کارنامہ انجام دیا۔
پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں افواجِ پاکستان کا کردار انتہائی فیصلہ کن، مضبوط اور قابلِ فخر ہے۔
یہ سفر صرف سائنسدانوں تک محدود نہیں تھا، بلکہ افواجِ پاکستان نے ہر مرحلے پر قومی سلامتی، خفیہ کاری، تکنیکی معاونت، اور تحفظ میں بنیادی کردار ادا کیا۔ - حکمتِ عملی (Strategic Vision) –
بھارت کے 1974 کے ایٹمی دھماکے کے بعد، افواجِ پاکستان نے فیصلہ کن انداز میں دفاعی خودکفالت کی حمایت کی۔
اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل ضیاء الحق، اور بعد میں آنے والے جرنیلوں نے ایٹمی پروگرام کو قومی بقاء کا مسئلہ سمجھ کر اسے ہر ممکن تحفظ دیا۔ - خفیہ منصوبہ بندی اور سیکیورٹی
ایٹمی پروگرام کو شدید عالمی دباؤ، جاسوسی اور دشمن ممالک کی سازشوں سے بچانے کے لیے فوج نے بھرپور انٹیلی جنس اور خفیہ اقدامات کیے۔
آئی ایس آئی( ISI) نے ایٹمی سائنسدانوں، تنصیبات اور مواد کی حفاظت کے لیے اعلیٰ درجے کی سیکیورٹی فراہم کی۔
کہوٹہ، چاغی اور دیگر مقامات کی ملٹری زون میں نگرانی کی جاتی رہی۔ - چاغی ایٹمی دھماکوں کی براہِ راست نگرانی
28 مئی 1998 کو ہونے والے ایٹمی دھماکوں کے وقت:
چاغی کے پہاڑوں پر فوجی انجینئرز نے سرنگیں بنائیں
پاک فوج کی ٹیموں نے سائنسدانوں کے ساتھ مل کر دھماکوں کی جگہ پر انسٹالیشن اور ٹیسٹنگ مکمل کی
DG SPD (Strategic Plans Division) اور اعلیٰ فوجی افسران براہِ راست موجود تھے - فیلڈ سیکیورٹی اور لاجسٹک سپورٹ
فوج نے ایٹمی مواد کی ترسیل، مشینری، اور سائنسدانوں کی نقل و حرکت کو محفوظ رکھنے کے لیے لاجسٹک نیٹ ورک فراہم کیا۔
یہ سب کچھ انتہائی رازداری اور عالمی اداروں کی نظروں سے بچا کر کیا گیا۔ - Strategic Command & Control
بعد ازاں، اسٹریٹیجک پلانز ڈویژن (SPD) کی بنیاد رکھی گئی، جو فوجی نگرانی میں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کا نگران ادارہ ہے۔
اس میں SPD کا تعلق براہِ راست چیف آف آرمی اسٹاف اور وزیراعظم سے ہوتا ہے۔
فیصل مسجد اسلام آباد کے پاس یومِ تکبیر یادگار تعمیر کروائی گئی ۔
یوم تکبیر پاکستان کی تاریخ کا وہ دن ہے
جب ایک چھوٹا ملک دنیا کی سپرپاورز کو یہ پیغام دینے میں کامیاب ہوا۔
"ہماری خاموشی کمزوری نہیں، ہمارا صبر بے بسی نہیں۔
جب وقت آئے گا، تو ہم گونج سے جواب دیں گے!”
بحثیت پاکستانی ہمیں اپنےنوجوانوں کو سائنسی تعلیم کی طرف راغب کرنا چاہیے ۔
پاکستان کی ترقی اور بقا میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے ۔
سائنسدانوں اور شہداء کی قربانیوں کو یاد رکھنا چاہیے۔
28 مئی کو فخریہ منانا چاہیے —
پاکستان زندہ باد!
یومِ تکبیر پائندہ باد!

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |