غیر ملکی پاکستانی امراء اور ملک کی حالت زار
لاہور سے اسلام آباد یا راولپنڈی جائیں تو سرائے عالمگیر سے پہلے یا بعد میں جی ٹی روڈ پر دائیں طرف ایک بڑا دلکش اور عجیب و غریب منظر نظر آتا ہے۔ جب موٹر وے نہیں بنا تھا تو میں اکثر اسلام آباد جاتے ہوئے اس روڈ پر یہ حیران کن منظر بڑی دلچسپی سے دیکھتا تھا۔ اس سڑک کے کنارے ایک انتہائی شاندار بنگلہ ہے "جس کی چھت” پر سفید رنگ کی ایک مہنگی پراڈو گاڑی کھڑی دیکھائی دیتا ہے۔ میں نے جتنی بار بھی یہ منظر دیکھا میرے اندر سوالات کا ایک ملا جلا طوفان پیدا ہوا۔ ایک دفعہ مجھے لاہور سے ایک ہائی ایس پر راولپنڈی جانے کا اتفاق ہوا تو ہائی ایس اسی پراڈو والی کوٹھی کے سامنے رکی جہاں سے اس میں کچھ لوکل سواریاں بیٹھ گئیں۔ اس پر میرے دماغ میں اس کوٹھی اور پراڈو کا وہ پرانا تجسس جاگ اٹھا اور میں فورا ان سواریوں کے پاس اس منظر کے بارے سوالات پوچھنے کے لیئے ان کے قریب جا پہنچا۔
امریکہ سے ہمارے ایک دوست محمد زبیر صاحب ہیں، جو عموما امریکہ کے بارے میں بڑی دلچسپ اور علمی معلومات پہنچاتے رہتے ہیں۔ کل ان کی ایک تحریر نظر سے گزری جس کا عنوان تھا کہ، "امریکہ کو خوابوں کی سرزمین کیوں کہتے ہیں؟” چند سال قبل تک تو ان سے وٹس ایپ اور میسنجر پر بھی بات ہوتی رہتی تھی مگر آج کل یہ تعلق ان کی تحریریں پڑھنے تک محدود ہو گیا ہے۔ وہ ایک انتہائی ذمہ دار اور فرض شناس انسان ہیں۔ جہاں تک میں انہیں جانتا ہوں وہ ایک اعلی درجے کے باخلاق اور شریف النفس انسان ہیں۔ ان کے پاس امریکی اور پاکستانی دونوں قومیتیں ہیں۔ خاص طور پر ان کے اندر پاکستان سے حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ ایک دفعہ انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ امریکہ چھوڑ کر پاکستان آئے تھے، اور اپنے آبائی وطن "مملکت خدادا پاکستان” ہی میں مستقل طور پر سیٹل ہونا چاہتے تھے۔ لیکن ان کی زندگی کے بقیہ خواب اپنے آبائی وطن میں پورے نہیں ہو سکتے تھے۔ ہم متوسط طبقے کے کچھ کے لیئے امریکہ واقعی خوابوں کی سرزمین ہے۔ شائد اسلام آباد یا جہلم وغیرہ میں زبیر احمد نے امریکہ سے آ کر ایک گھر بھی خریدا تھا۔ لیکن بعد میں انہوں نے پاکستان میں موجود کرپشن، ہیرا پھیری، انسانی حقوق کی پامالی، عداوتوں، حسد و عناد اور منافقت جیسی معاشرتی برائیوں کو دیکھا تو پاکستان سے ان کا دل اچاٹ ہو گیا اور وہ سب کچھ یہیں چھوڑ کر واپس امریکہ چلے گئے تھے۔
اگر پاکستان میں اتفاق سے آپ کا جہلم یا کھاریاں وغیرہ جانا ہو اور آپ کو اس موضوع پر تحقیق کرنے کا شوق چرائے تو آپ کو وہاں ایسی بے شمار پراڈو ٹائپ کوٹھیاں نظر آئیں گی، جہاں ایک آدھ نوکر اور چوکیداروں کے سوا صرف جنات رہتے ہیں۔ ان کوٹھیوں کے مالکان محمد زبیر جیسے دیار غیر میں رہنے والے وہ محب وطن پاکستانی ہیں جو پاکستان سے حد درجہ محبت تو کرتے ہیں اور اپنی دولت اور صلاحیتوں سے پاکستان کو نوازنا بھی چاہتے ہیں مگر جب وہ یہاں آتے ہیں تو پاکستان کے بدترین حالات دیکھ کر وہ مایوس ہو جاتے ہیں اور یہاں لایا اپنا سب کچھ یہیں چھوڑ کر واپس پردیس سدھار جاتے ہیں کیونکہ پاکستان میں اکثر ان کی کوٹھیوں پر قبضہ ہو جاتا ہے یا اس نوع کے دیگر بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہی غیر ملکی پاکستانیوں کے بارے محمد زبیر کہتے ہیں کہ کچھ احباب پوچھتے ہیں کہ جس بندے کے پاس پانچ ملین ڈالر ہونگے وہ امریکہ کیوں جائے گا؟
انہیں شائد علم نہیں کہ لوگ امریکہ کو خوابوں کی سرزمین کیوں کہتے ہیں؟ پاکستانی طارق فرید کم عمری میں والدین کے ساتھ امریکہ آیا تھا. چند ہزار قرض لے کر اس نے پھلوں کا کھوکھا لگایا. آج اس کے کاروبار کی مالیت 600 ملین ڈالر ہے. شاہد خان بھی امریکہ آنے کے بعد ارب پتی بنا. جین کوم اپنی ماں کے ساتھ یوکرین سے امریکہ آیا تو دونوں کئی برسوں تک سوشل ویلفئیر پر گزارہ کرتے رہے جبکہ اب وہ ارب پتی ہے.
ایلون مسک تعلیم کے لئے امریکہ آیا تو اس کی ماں نے اسے تھوڑی سی رقم دی تھی. تعلیم مکمل کرنے تک اس پر ایک لاکھ ڈالر کا قرضہ چڑھ گیا مگر آج وہ دنیا کا سب سے امیر ترین بندہ ہے. مارک کیوبن نے تعلیم مکمل کی تو کرائے کے لئے رقم نہ ہونے کی وجہ سے جاب ملنے تک دوستوں کے اپارٹمنٹ میں فرش پر سوتا رہا، اور اب وہ بھی ارب پتی ہے.
میں انگلینڈ میں نو سال رہا ہوں اور اس طرح کے بہت سے امیر پاکستانیوں کو ملا ہوں جو خالی ہاتھ آئے اور بعد میں اپنی محنت، لگن اور ایمانداری سے ارب پتی بن گئے۔ ان سیلف میڈ لوگوں میں انگلینڈ اور یورپ میں "بیسٹ ویز کیش اینڈ کیری” کے مالک سر انور پرویز بھی شامل ہیں، جن کا تعلق پاکستان گجر خان سے ہیں۔ ملکہ برطانیہ نے انور پرویز کو ان کی کاروباری خدمات کے عوض "سر” کے خطاب سے نوازا۔ برطانیہ کے مشہور گروپ "یعقوب اینڈ سنز” کے مالکان بھی خالی جیب برطانیہ آئے اور ارب پتی بن گئے۔ میں نے سر ایک بار سر انور پرویز کے پیلس نما دفتر میں بیرسٹر سلیم قریشی کے ہمراہ ان کا انٹرویو کیا تھا جس میں انہوں نے بڑی عاجزی و انکساری کے ساتھ بتایا تھا کہ وہ پاکستان سے اپنے ساتھ کچھ نہیں لائے تھے، انہوں نے ایک عام مزدور اور پھر بس ڈرائیور کے طور پر لندن میں کام شروع کیا، پھر ایک گراسری کی دکان کھولی اور تب اپنے کاروباری جذبے اور دن رات کی محنت کے بل بوتے پر دیکھتے ہیں دیکھتے ارب پتی بن گئے۔
پنجاب کے سابق گورنر چوہدری محمد سرور اور ان کے بھائی محمد رمضان کی سکاٹ لینڈ گلاسگو میں "اتحاد کیش اینڈ کیریز” ہیں۔ چوہدری محمد سرور برطانوی پارلیمنٹ میں پہلے پاکستانی مسلمان پارلیمنٹ ممبر تھے جنہوں نے وہاں تین بار مسلسل منتخب ہو کر ایک منفرد ریکارڈ قائم کیا۔ انہوں نے بھی پاکستان آ کر سیاست میں قسمت آزمائی کی اور دو بار نون لیگ اور پی ٹی آئی کی طرف سے گورنر پنجاب بھی بنے گئ
مگر انہیں بھی پاکستانی ماحول راس نہ آیا اور آجکل وہ گمنامی میں ہیں۔ اسی طرح فرانس میں محمود بھٹی نے کاروبار میں نمایاں ترقی کی اور اربوں ڈالر کمائے۔ ان کا گوگل پر انٹرویو موجود ہے جس میں وہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ وہ پاکستان میں فرش پر سوتے تھے اور انہوں نے بلکل نچلے لیول سے ترقی کی منازل طے کیں، اور آج کل فرانس اور یورپ میں ان کے محل نما گھر ہیں۔ چلی میں گوجرانوالہ کے فیصل ملک رہتے ہیں ان کے پاس کروڑوں ڈالر ہیں مگر ان کا دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ اسی طرح بہت سے پاکستانی کینیڈا, آسٹریلیا اور یورپی ممالک میں بھی رہتے ہیں جو اپنی دولت سمیت پاکستان آنا چاہتے ہیں مگر جب وہ زندگی کے ہر شعبے میں پاکستان کی حالت زار دیکھتے ہیں تو دلبرداشتہ ہو کر واپس چلے جاتے ہیں۔
Title Image by Jürgen Polle from Pixabay

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |