عاصم بخاری کی نسائی شاعری
تبصرہ :
مقبول زکی مقبول ، بھکر
اللّٰہ تعالیٰ نے عاصم بخاری کو ایک زرخیر ذہن سے نوازا ہے ۔ کا تخیل بیدار ہے مشاہدہ وسیع ہے ۔ ان کے پاس موضوعات کا تنوع ہے اصنافی تنوع ہے ۔نفسیات سے خوب آشنا ہیں خواہ وہ کسی شہری کی ہوں یا دیہاتی کی کسی چھوٹے بچے کی یا جوان کی بوڑھوں کے بارے ان کا ضرب المثل اور یاد گار موجود ہے ۔ اسی عورت کے موضوع پر اگرچہ ہر شاعر نے لکھا ہے مگر عاصم بخاری نے عورت کے موضوع پر سماجی اخلاقی معاشرتی نفسیاتی اور دیگر ایسےکئی حوالوں سے بڑی کامیابی کے ساتھ لکھا ہے جو گوشے تشنہ تھے ۔ ان پر لکھنے کی ضرورت تھی ۔ عاصم بخاری نے ایسے موضوعات کو لیا اور نہ صرف چھوا بلکہ انہیں خوب نبھایا ۔ ان کا نظمیہ مجموعہ۔۔۔۔ظلم عورت پہ گواہ ہے ۔ عورت کےحوالے سےان کے ایک خوب صورت شعر سے بات کو آگے بڑھانے کی کوشش کروں گا ۔
عورت کو ہی عورت کا نمائندہ بناؤ
عورت ہی سمجھ سکتی ہے عورت کے مسائل
عاصم بخاری نے عورت کی محرومیوں بے بسی لاچاری اور شہری و دیہاتی عورت کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے ۔تقابلی نظم ملاحظہ فرمائیں
عورت
۔۔۔۔۔۔۔
ہے علم اس کے پاس یہ تعلیم یافتہ
رکھتی ہے یہ شعور بھی اپنے حقوق کا
ہیں اس کے پاس ڈگریاں قانون جانتی
شہروں کی اور بات ہے شہروں کو چھوڑ تو
عاصم بخاری گاؤں میں بھی جا کے دیکھ تو
لاچار کتنی ہائے یہ مجبور بے زباں
دکھ درد بھی نہ کر سکے اپنے کہیں بیاں
قابل ہے رحم کے یہ حقیقت تو ہے یہی
کہلو کے بیل جیسے یہ عورت جتی ہوئی
عاصم بخاری کی نسائی شاعری میں دیگر شعرا کی طرح صرف اس کے لب و رخسار کے قصے ہی نہیں ملتے بلکہ کہ فکر انگیز انداز بھی پایا جاتا ہے جس کی جانب عموماً مرد کی نظر کم جاتی ہے یا پھر بے اعتنائی برتی جاتی ہے ۔ نظم کا آغاز اور اٹھان دیکھئے
گندم
۔۔۔۔۔۔۔۔
(نظم
اس کی جرات پہ اس کی ہمت پر
اس کے شرم و حیا پہ بنتا ہے
ناز اس کی وفا پہ بنتا ہے
پاؤں کی جوتی کہنے والے سن
کتنی مخلص یہ ساتھ ہے تیرے
کتنا مشکل یہ کام گرمی میں
اعتراف اس کا لازمی عاصم
باوجودیکہ صنفِ نازک بھی
داد بنتی ہے اس کی محنت کی
کھیتوں میں کاٹتے ہوئے گندم
تو نے دیکھا نہیں ہے عورت کو
تیرے گھر کے اناج کی خاطر
ہاتھ زخمی ہیں پاؤں بھی جس کے
پاؤں زخمی ہیں ہاتھ بھی جس کے
بار بھاری اٹھاتے دیکھ اس کو
روپ قربان کر دیا جس نے
گوری اب کے وہ کب رہی گوری
ہاڑ کی دھوپ کھا گئی جس کو
سانولی جس کی ہو گئی رنگت
عاصم بخاری کے ہاں عورت کی نفسیات کا بڑی گہرائی سے مشاہدہ ملتا ہے وہ صرف اس کی مظلومیت کے ہی پرچارک نہیں ہیں بلکہ اس مصرع کے مصداق کہ کبھی کبھی اس کو بھی آئینہ دکھاتے ہیں کہ عورت کی ایک خامی جذباتیت اور انتقام بھی ہے جو کہ عورت کو طلاق تباہی اور بربادی کے دہانے تک لے جاتا ہے۔
نظم دیکھیں
عورت
۔۔۔۔۔۔۔
(نظم
الاماں الاماں ہی کہتا جا
توبہ شدت پسند ہے کتنی
انتقام اس کا اور بیر اس کا
داستانیں کیا بتاتی ہیں
ناولوں میں نہیں پڑھا تو نے
دیکھا عاصم نہیں ڈراموں میں
سنگ دلی اور اس کی بے رحمی
تو تصور بھی کر نہیں سکتا
مرد کے حصے یوں ہی بدنامی
مردوں کے بھول جائے افسانے
تو نے دیکھا نہیں ابھی شاید
ظلم عورت کو کرتے عورت پر
دیکھا جاتا ہے صرف عورت کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جموعی طور پر بخاری عورت کے لیے ہمدردی کا گوشہ اور جذبہ رکھتے ہیں ۔ ایک نظم میں عورت کی بے بسی کا رونا روتے دکھائی دیتے ہیں
(نظم)
دیکھا جاتا ہے صرف عورت کو
کوئی پڑھتا نہ اس کی محرومی
کوئی سنتا نہ اس کی مظلومی
کرب اس کے نہ جانتا کوئی
عذر اس کے نہ مانتا کوئی
کس کو دکھڑے سنائے یہ اپنے
زخم کس کو دکھائے یہ اپنے
گھورتے ہیں فقط سبھی جس کو
جسم نظروں کے تیروں سے چھلنی
کیسی معذور ہے یہ دنیا میں
کتنی مجبور ہے خداوندا
پروفیسر عاصم بخاری کی شاعرانہ خوبی یہ ہے کہ وہ یک طرفہ ٹریفک نہیں چلاتے صرف عورت کے حق میں ہی نہیں لکھتے اسے جھنجھوڑتے بھی ہیں احساس بھی دلاتے ہیں اسلامیت پاکستانیت آدمیت اور انسانیت کا درس دیتے ہوئے واعظانہ انداز بھی اپنانتے ہیں۔مغربیت سے خبردار بھی کرتے ہیں ۔ خیال انگیز اور انتہائی فکر انگیز نظم دیکھئے ۔
اے حوا کی بیٹی ذرا سوچ تو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(نظم)
ترے ذہن میں کیوں یہ رہتا نہیں
تجھے زیب فیشن، یہ دیتا نہیں
اے حوا کی بیٹی ذرا سوچ تو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تہذیب ہے سب کی سب مغربی
مگر تو ، تو بیٹی ہے اک مشرقی
اے حوا کی بیٹی ذرا سوچ تو
۔۔۔۔۔۔۔
نمائش ہے یہ جسم کی برملا
جسے نام فیشن کا تو نے دیا
اے حوا کی بیٹی ذرا سوچ تو
۔۔۔۔۔۔۔۔
کہوں تو تجھے میں یہ کیسے کہوں
میں اک باپ ہوں ایک بھائی بھی ہوں
اے حوا کی بیٹی ذرا سوچ تو
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے کیا تیرا مذہب ، یہ کہتا بتا؟
پڑھا کیا نہیں ، تو نے شرم و حیا
اے حوا کی بیٹی ذرا سوچ تو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تجھے معنی آتے ہیں مستور کے؟
کہاں آشنا تو ہے دستور سے
اے حوا کی بیٹی ذرا سوچ تو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پلٹنے کا کوئی ، ارادہ نہیں
کیا رب سے تم نے وعدہ نہیں
اے حوا کی بیٹی ذرا سوچ تو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حقیقت سے عاصم ہے کس کو مفر
گھڑی موت کی بھی ذرا یاد کر
اے حوا کی بیٹی ذرا سوچ تو
***
ہمارے معاشرے اور ثقافت پر جو مغربی یلغار ہے جس کا ہدف نوجوان نسل اور خصوصاً جدت ترقی اور روشن خیالی کے نام پر عورت ہے ۔ اس حوالے سے اس نظم میں ان کا لہجہ مقابلتاً زیادہ سخت اور بیدار کن دکھائی دیتا ہے عورت سے استفہامیہ انداز میں مخاطب ہیں ۔
نظم دیکھئے
معنی مستور کے بھی آتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(نظم)
سب سے نظریں ملاۓ پھرتی ہے
کب نگاہیں جھکاۓ پھرتی ہے
روز بازار آئے ، پھرتی ہے
تِل کے درشن، کرائے پھرتی ہے
روپ اپنا ، سجاۓ پھرتی ہے
عشوے غمزے وہ تیر نینوں کے
اہل ِ دل پر چائے پھرتی ہے
جگ کو چہرہ،دکھائے پھرتی ہے
ستر تھوڑی ،چھپائے پھرتی ہے
ناک ہی صرف ، ڈھانپتی ہے تو
غور ملبوس پر بھی کر اپنے
مختصر ہے لباس ، کیوں اتنا
ہو رہی ہے یہ ، پیروی کس کی
دِین ، اسلام اور کہتا ہے
تیرا مذہب ، سلامتی والا
تیرا دیں تو کچھ اور ،کہتا ہے
مسلم امت یہ پوچھتی تجھ سے
معنی مستور کے بھی آتے ہیں؟
مرد کو غیرت کو بھی جھنجھوڑنا کی کوشش کی گئی ہے کہ اے مرد عورت کے حوالے سے اپنے رویے پر غور کر ، کیا اسے اشتہاروں کی زینت تو نہیں بناتا ، کیا سٹیجوں پر اے تو نہیں نچاتا ۔۔۔پھر بھی طوائف کا الزام عورت کو دیتا ہے ایک فکری نظم دیکھئے ۔
عورت
۔۔۔۔۔۔۔
(نظم
تو کیا سمجھا ہے معنی مستور کے
کہ لاچار معذور مجبور کے
کہ اک بھی کوئی جس کی سنتا نہیں
میں عزت ہوں دولت ہوں غیرت تری
ترا پیار چاہت محبت ہوں میں
ترے اشتہاروں کی زینت ہوں میں
سٹیجوں پہ مجھ کو نچاتا ہے تو
بدن میرا جگ کو دکھاتا ہے تو
مجھے میرے گھر سے بھگاتا ہے تو
مجھے وٹٹہ سٹٹہ میں دیتا ہے تو
مرے نام پر پیسے لیتا ہے تو
سمجھتی ہوں چالیں سیاست تری
تری اندرونی خباثت سبھی
مجھے جوتی پاؤں کی کہتا ہے تو
ذرا بھی تجھے شرم آتی نہیں
تجھے تیری غیرت جگاتی نہیں
تو باتیں تو کرتا ہے کتنی بڑی
تجھے مرد کہلانے کا حق نہیں
میں سچ کہہ رہی ہوں کوئی شک نہیں
مرد غالب عاشروں میں مرد خود مختار ہے مگر عورت پر جو الزام دھر دیا جاۓ وہ زمانے کی نظر سے گر جاتی ہے اور اس کی ساری زندگی برباد ہو جاتی ہے۔ جب کہ مرد ساری باتوں کے باوجود مرد ہے پارسا ہے ، قبول ہے۔نظم کے چند اشعار
عورت
۔۔۔۔۔۔۔۔
(نظم)
مرد کے حصے پارسائی سب
بد زمانے میں نام ، عورت کا
تو نےدیکھا ہے ایک رخ شاید
دیکھا کب انتقام ، عورت کا
مرد بھی مرد ہے ، مگر مانا
گھر میں سب انتظام عورت کا
مرد کے حصے کیوں نہ رسوائی
ہر جگہ ذکر عام ، عورت کا
آپ ایمان سے سے بتائیں خود
کیا یہی ہے مقام ، عورت کا
مردو مردانگی ، تمہاری کو
دونوں ہاتھوں سلام ، عورت کا
کس کو عاصم بخاری کہتے ہو
شہر میں احترام ، عورت کا
عاصم بخاری معاشرے کے اطوار پر کڑی نظر رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ مرد اور عورت دونوں کو احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ عورت کو ہمشہ مستور کے معنی یاد رکھنا چاہیے۔اور مرد کی آنکھ میں بھی حیا لازم ہے مگر افسوس کہ
“دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی” تین سطری نظم دیکھیے۔
ثلاثی
۔۔۔۔۔۔۔
معریٰ نظم
فراموش مستور کے معنی کرکے
ادھر سچ تو یہ فتنہ ایجاد عورت
ادھر مرد بھی عاری شرم و حیا سے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔