وفاقی بجٹ ، آئی ایم ایف اور تنخواہ دار طبقہ
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی اعلیٰ سطحی ٹیم کا حالیہ دورۂ پاکستان جمعہ کے روز مکمل ہوچکا ہے اور اس کے فیصلوں کی بازگشت وفاقی بجٹ 2024-25 میں سنائی دینے لگی ہے۔ بجٹ کی تیاری کے پس منظر میں یہ دورہ نہ صرف پاکستان کے اقتصادی مستقبل بلکہ عام آدمی کے مالی بوجھ کے تعین میں بھی فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے
پاکستان کا آئی ایم ایف سے تعلق کوئی نیا نہیں۔ 1958 میں پہلی مرتبہ اس ادارے سے قرضہ لینے کے بعد، اب تک بیس سے زائد مرتبہ پاکستان نے مالی معاونت کے لیے اس ادارے سے رجوع کیا۔ ہر بار آئی ایم ایف کی شرائط سخت تر ہوتی چلی گئیں اور مالیاتی نظم و ضبط کی آڑ میں معیشت پر ایسے فیصلے مسلط کیے گئے جن کا بوجھ زیادہ تر متوسط اور نچلے طبقے پر پڑا۔
آئی ایم ایف کے حالیہ دورے کے دوران جن نکات پر خاص توجہ دی گئی، ان میں درج ذیل اہم ہیں جن میں سرفہرست ٹیکس وصولی ہدف ہے۔ وفاقی محاصل ادارے کا 14.1 کھرب روپے کا ہدف آئی ایم ایف نے حکومت کے غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی سے مشروط کر دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر حکومت دفاع اور انتظامی اخراجات میں کٹوتی نہیں کرتی تو آئی ایم ایف اپنے اہداف کے حصول میں تعاون سے گریز کرے گا۔ جائیداد، مشروبات اور برآمدات کے شعبوں میں ریلیف دینے پر آئی ایم ایف کی جانب سے پس و پیش سامنے آئی ہے۔ یہ وہ شعبے ہیں جہاں پہلے ہی غیر متوازن ٹیکس پالیسیوں کی شکایت رہی ہے۔ سب سے اہم مسئلہ تنخواہ دار طبقے کے لیے آمدنی ٹیکس کی شرحوں میں کمی کا ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ کم آمدنی والوں کو ریلیف دیا جائے، لیکن آئی ایم ایف اس معاملے میں لچک دکھانے کو تیار نہیں۔موجودہ جغرافیائی اور سیکیورٹی حالات کے تناظر میں دفاعی بجٹ کو استثنا دیا گیا ہے۔ یہ سیاسی و جغرافیائی مجبوری تو ہو سکتی ہے، لیکن مالیاتی توازن کے اصولوں کے برعکس ہے۔
آئی ایم ایف کا زور مالیاتی ڈسپلن پر ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک بجٹ خسارے پر قابو، افراط زر پر قابو پان اور محصولات میں اضافہ بنیادی اصول ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان پالیسیوں کا اطلاق ہر ملک میں یکساں ہو سکتا ہے؟ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں مہنگائی کی شرح بلند، بیروزگاری عام اور آمدنی کم ہو، وہاں سخت مالیاتی پالیسیوں کا اطلاق بسا اوقات عوامی ردعمل کو جنم دیتا ہے۔
وزیراعظم اور ان کی معاشی ٹیم کی طرف سے بعض امور پر نظرثانی کی درخواست کی گئی ہے جس پر آئی ایم ایف کی جزوی رضامندی متوقع ہے۔ یہ رویہ دونوں فریقین میں بڑھتے ہوئے اعتماد کو ظاہر کرتا ہے، تاہم اس بات کی ضمانت نہیں کہ تمام رعایتیں مل ہی جائیں گی۔
2 جون کو پیش کیے جانے والے وفاقی بجٹ کی اہمیت اس لیے بھی غیر معمولی ہے کہ یہ آئندہ کئی برسوں کے لیے معیشت کا رخ متعین کرے گا۔ حکومت کو جہاں بجٹ میں مالی نظم و ضبط برقرار رکھنا ہوگا، وہیں عوامی مفادات اور فلاحی اقدامات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ خاص طور پر تنخواہ دار طبقہ، چھوٹے کاروباری ادارے اور غریب شہری کسی بھی بجٹ میں بنیادی اکائی سمجھے جاتے ہیں۔
آئی ایم ایف سے ہونے والے مذاکرات اور ان کی شرائط کی تفصیلات عوام کے سامنے نہیں لائی جاتیں، جو ایک جمہوری سسٹم کے خلاف ہے۔حکومت کی پالیسی اب بھی بالواسطہ ٹیکسوں پر ہے، جو غریب اور امیر کے لیے یکساں بوجھ پیدا کرتا ہے۔ بجٹ میں اگر آئی ایم ایف کی شرائط غالب آئیں تو سماجی تحفظ کے لیے مختص رقوم میں کمی متوقع ہے۔اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟ حکومت کو آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران دو نکات کو ضرور پیش نظر رکھنا ہوگا یعنی عوامی فلاح کو اولین ترجیح دینا اور قومی خودمختاری کا تحفظ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے لیے متبادل مالیاتی ذرائع مثلاً دوست ممالک، چینی یا خلیجی امداد، یا غیر روایتی تجارتی معاہدات کی تلاش ناگزیر ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ تعلق بہت پرانا ہے، لیکن اس حقیقت کو قومی مفاد کے تناظر میں پرکھنے اور ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ آنے والے بجٹ میں جو فیصلے کیے جائیں گے وہ صرف مالی نہیں بلکہ سیاسی، سماجی اور معاشی پہلوؤں کے حامل ہوں گے۔ حکومت اگر حکمت، تدبر اور عوامی اعتماد کے ساتھ آگے بڑھی تو نہ صرف آئی ایم ایف کو مطمئن کیا جا سکتا ہے بلکہ قوم کو ایک نئی اقتصادی سمت بھی دی جا سکتی ہے۔
Title Image by Gerd Altmann from Pixabay
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |