قرآن اور خدا پر ایمان، سائنس کی روشنی میں

قرآن اور خدا پر ایمان، سائنس کی روشنی میں!

Dubai Naama

قرآن اور خدا پر ایمان، سائنس کی روشنی میں

حقیقی اور غیر متبدل علم صرف “وحی” ہے باقی سب عقائد اور روحانی علوم ارتقاء پذیر تعلیمات ہیں۔ ہماری حقیقت وہی ہے جو ہماری جذباتی کیفیت ہے جو کہ ہمارے مضبوط ایمان پر مبنی ہے جسے ہم تقدس سے اپنے دل اور دماغ سے جوڑے رکھتے ہیں۔

قرآن اور خدا پر ہمارا ایمان اندھے یقین پر مبنی نہیں ہونا چایئے بلکہ ایسا ہونا چایئے کہ جیسے قرآن کو ہم نے پڑھ لیا ہے اور خدا کو ہم نے دیکھ لیا ہے اور ہمارا پختہ یقین ہے کہ وہ ہے ناکہ ہم امید کریں کہ وہ ہو گا۔

کوئی شخص اپنے ایمان سے زیادہ طاقتور نہیں ہو سکتا اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان ایسا کامل یقین ہے جو دل کی گرفت میں آنے کی بجائے دل کو اپنی گرفت میں لیتا ہے۔

ہر ایسا غیر سائنسی عقیدہ ہماری زندگی کو تباہ کر سکتا ہے جس کے بارے میں ہمارا عقلی علم ناقص ہو۔

کوانٹم لیول پر خدا کو ہم بطور ناظر خدا کی صنائی اور قوانین کے اعتبار سے بہت قریب سے سمجھ سکتے ہیں۔ سائنسی تحقیق کے سفر میں ہم جتنی زیادہ دریافتیں کرتے ہیں خدا کی ذات پر ہمارے یقین کا درجہ اتنا ہی زیادہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس بات کو کلاسیکل اور کوانٹم فزکس کی زبان میں سمجھنے سے پہلے آیئے ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ خدا پر ایمان قائم کرنے کے لئے یقین کے کتنے درجے ہیں:

قرآن کے مفسرین اور اہل حق علماء یقین کے درج ذیل تین درجات بتاتے ہیں:
1۔ یقین
2۔ عین الیقین اور
3۔ حق الیقین

اس کی مثال یوں ہے کہ آپ آگ کو دیکھے بغیر سنتے ہیں کہ آگ حرارت رکھتی ہے اور جلاتی ہے، پھر آپ دھواں دیکھتے ہیں تو آپ یقین کر لیتے ہیں کہ دھواں اس بات کی دلیل ہے کہ آگ جلاتی ہو گی۔ یقین کے اس درجہ میں خدا پر ایمان اقرار کی حد تک ہوتا ہے۔ یہ یقین کا پہلا اور بنیادی درجہ ہے۔ یقین کا دوسرا درجہ عین الیقین کا ہے۔ ایمان کے اس لیول پر پہنچ کر یہ تجربہ ہوتا ہے جس کی مثال یہ ہے کہ آپ آگ کے پاس بیٹھ کر اس کی تپش محسوس کرتے ہیں تو آپکا یقین زیادہ پختہ ہو جاتا ہے کہ آگ حقیقتا جلاتی ہے۔ جبکہ حق الیقین کا تیسرا اور آخری درجہ یہ ہے کہ آپ آگ میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں اور یقین کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ آگ واقعی جلاتی ہے۔

کائنات کو “خدا” نے بنایا ہے، یہ بات ایک مفروضہ، نظریہ یا عقیدہ ہے مگر یہ حق الیقین کے درجہ کا ایمان نہیں ہے۔ تاہم یہ ایمان یقین اور عین الیقین سے ہوتا ہوا حق الیقین میں اسی وقت بدلتا ہے یعنی خدا پر گہرا اور کامل ترین ایمان اسی وقت قائم ہوتا ہے جب آپ کائنات کو جاننے کے لئے سائنس کے علم تشکیک (یقین)، مفروضے و تجربے (عین الیقین) اور قانون (حق الیقین) سے گزرتے ہیں۔

جب آپ سنتے ہیں کہ کائنات خدا نے بنائ ہے تو آپ میں تجسس پیدا ہوتا ہے کہ آخر خدا نے یہ کائنات کیسے بنائ، اب یہ کن اصولوں اور قوانین پر قائم ہے اور اسکے کام کرنے کا ‘طریقہ کار’ کیا ہے؟ اس نوع کے سوالات کا جواب جاننے کے بارے میں آپ کا یہی غور و فکر اور جستجو ‘سائنس’ کا علم ہے۔ جب آپ سنتے ہیں کہ کائنات خدا نے بنائ ہے تو آپ مادے اور اجرام فلکی کی ‘حقیقت’ جاننے کے لئے مزید تحقیق کرتے ہیں اور تجربات کرتے ہیں۔ جب آپ کو پتہ چلتا ہے کہ مادہ تو ننگی آنکھ سے نظر نہ آنے والے چھوٹے چھوٹے ایٹموں سے بنا ہوا ہے، اس میں ایک نیوکلئیس ہے جس میں ایٹم سے بھی چھوٹے زرات پروٹان، نیوٹران، الیکٹران، گلوآن اور کوراک وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ الیکٹران ایٹم کے مدار کے گرد چکر لگاتے ہیں، ہر عنصر کے الیکٹران مختلف تعداد میں ہوتے ہیں، ان الیکٹران میں کچھ مدار کے گرد گھومتے ہیں اور کچھ اپنے مدار سے باہر نکل کر دوسری دھاتوں اور عناصر سے کیمیائ تعاملات وغیرہ کرتے ہیں۔

یہ کلاسیکل اور کوانٹم فزکس کا سائنسی علم ہے جو آپ کو حیرت زدہ کر دیتا ہے کہ سب اٹامک کے اتنے چھوٹے لیول پر یہ سب کچھ کیسے ہو رہا ہے، کیوں ہو رہا ہے اور “کون” کر رہا ہے تو آپ کی حیرت مزید بڑھتی ہے۔ آپ دنیا جہان کی سائنسی کتب، نظریات اور قوانین چھان مارتے ہیں مگر آپکو “کیسے” کا جواب تو مل جاتا ہے مگر “کیوں” اور “کون” کا جواب کہیں نہیں ملتا اور نہ ہی سائنس ابھی تک اس کا کوئ حتمی جواب دے سکی ہے۔

چونکہ آپ مادے کے خواص اور کام کرنے کے اس طریقہ کار کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور آپکا یقین، “عین الیقین” سے ہوتا ہوا “حق الیقین” کے درجے تک پہنچ جاتا ہے تو آپ پکار اٹھتے ہیں کہ: “کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے۔”

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

بڑے دکان داروں کا طریقہ واردات

جمعہ جولائی 7 , 2023
آپ اکثر سوچتے ہوں گے کہ یہ اتنے بڑے بڑے سٹورز جن کا کرایہ لاکھوں میں ہوتا ہے، انھیں اس کاروبار میں کیا بچتا ہو گا۔یہ بھی ایک جادو ہے ۔
بڑے دکان داروں کا طریقہ واردات

مزید دلچسپ تحریریں