عاصم بخاری کی شاعری میں انگریزی الفاظ

عاصم بخاری کی شاعری میں انگریزی الفاظ کا برتاؤ

تحقیق۔ مقبول ذکی مقبول

حسب ِ معمول میں اپنی اِس تحریر کا آغاز بھی عاصم بخاری کے ہی ایک شعر سے کرنا چاہتا ہوں۔

اپنا معمول ہے ، یہی عاصم
نِت نئے تجربے میں کرتا ہوں

عاصم بخاری کی شاعری کا اگر تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیا جائے تو ان کے ہاں نِت نئے شعری تجربے ملتے ہیں۔کبھی یہ مقامی زبان کے الفاظ استعمال کرتے ہیں تو کبھی موضوعاتی کسی نظم شعر میں ان کے ہاں موضوعاتی تجربے ہیں تو کبھی اسلوبیاتی تجربے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔لسانی اور ہئیتی تجربہ کارے بھی ان کا روز کا معمول ہے۔اسی طرح ان کے ہاں جدید موضوعات کے ساتھ ساتھ جدید الفاظ کا برتاؤ بھی ان کے وسیع ذخیرہ ء الفاظ اور فن ِ شعر پر ان کی مہارت کی خبر دیتا ہے۔عاصم بخاری بیدار تخیل اور روشن خیال شاعر ہیں۔جدید تقاضوں کے عین مطابق شعر کہتے ہیں۔
شعر ملاحظہ ہو۔
پَگلے” اِی ۔ لَو” کا دور ، ہے اِس میں
کون جسموں کی بات ، کرتا ہے
حالات سے بھی عاصم بخاری بے خبر نہیں ہوتے۔اور بدیسی زبان کے الفاظ کا بھی بڑی خوب صورتی سے برتاؤ کرتے ہیں۔

یہ الگ کس، حوالے سے عاصم
ذکر تو آیا ” ریڈیو ” کا بھی

عصری شعور بھی عاصم بخاری کے ہاں دیکھیۓ دیدنی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انگریزی الفاظ کا خوب صورتی سے استعمال بھی کیا خوب ہے۔
قطعہ ملاحظہ ہو۔

پڑھ سکیں جس میں پر سکوں رہ کے
وہ علیحدہ نظام ، ممکن ہے ؟
کیا ” خواتین یونی وسٹی ” کا
دیس اپنے ” قیام ” ، ممکن ہے ؟

شاعری میں انگریزی الفاظ

اِسی مزاج کی نمائندگی کرتا ایک اور قطعہ پیش ِ خدمت ہے۔

کیسے مناظر آئے ہیں ، آنکھوں کے سامنے
آسیں ، امیدیں ، قوم کی ، سب خاک ہو گئیں
بیٹی نے “یونی وسٹی” میں ، پڑھنے کی بات کی
والد کی آنکھیں “خوف ” سے ، نمناک ہو گئیں
اِسی طرح ایک اور شعر میں برجستگی مقامیت منظر کشی کے ساتھ ساتھ انگلش کا استعمال بھی خوب صورتی سے کیا گیا ہے۔شعر ملاحظہ ہو

دامن میں یہ کوہستاں کے،” ڈگری کالج کالاباغ”
واقع پہلو میں چغلاں کے،” ڈگری کالج کالاباغ”

عاصم بخاری اگرچہ مشرقی مزاج کے حامل ہیں اور مغرب پر کڑی نظر رکھتے ہیں ۔صرف نظر رکھنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ اس پر کڑی تنقید بھی کرتے ہیں۔
قطعہ میں انگریزی لفظ کا روانی سے استعمال دیکھیۓ
ہم مغرب کی اندھا پیروی میں کیوں پڑ گئے جب کہ ہمارے ہاں اسلامی روایت اور مشرقیت ہے جس میں ماں باپ کا ہر لمحہ خیال رکھنے کو کہا گیا ہے۔قطعہ ملاحظہ ہو۔
” یوم ِ فادر ” رواج ، مغرب کا
ایسا مشرق میں تو ، نہیں ہوتا
دین ِ فطرت میں سارے دن اسکے
باپ کا ایک دن ، نہیں ہوتا

عاصم بخاری کی نظر پوری دنیا پر ہے ۔اور کائناتی منظر نامے پر وہ اپنے رائے بھی دیتے ہیں تجزیہ بھی پیش کرتے ۔اشعار دیکھیں۔

حادثے ذہن میں ، بری بحری
ہر سو خوف و ہراس ، ایسا ہے
ٹائی ٹینک کا ذکر ، بھی اب تو
پر مکوڑے کو لگنے ،جیسا ہے

عاصم بخاری رویوں پر غور کرتے ہیں۔مشرقیت تلاشتے ہیں آدمیوں میں انھیں آدمیت کم اور عہدے خود غرضیاں انھیں دکھائی دیتی ہیں کہ ہم انسان بننے کے لیے کوشش نہیں کرتے بلکہ عہدوں کے حصول کی تگ و دو میں زیادہ رہتے ہیں۔
جاری ہے چار سو یہی ، بس اک مقابلہ
دنیا کو ایک بار ، دکھانا ضرور ہے
انساں اگر نہ بن سکے تو کوئی غم نہیں
بیٹے کو ” ڈاکٹر ” تو ، بنانا ضرور ہے

عاصم بخاری معاشرتی رویوں پر بھی کڑی نظررکھتے ہیں اور شعر کے راستے سماج کو خبردار کرتے رہتے ہیں۔یہی شعر گوئی کا منصب بھی یہی ہے

فیس بکی ہے دوستی عاصم
اس قدر اعتبار ، مت کرنا

عاصم بخاری کے ہاں جدت و قدامت کا بڑا حسیں امتزاج پایا جاتا ہے۔بدیسی زبان کا لفظ کس نفاست سے سے استعمال کیا ہے۔ مگر قطعہ کے حسن کو بھی متاثر نہیں ہونے دیا بلکہ اس سے اس کا حسن اور دوبالا ہوا ہے۔
قطعہ ملاحظہ ہو۔

اچھی سروس ہے یہ مانا
جس نے بھی یہ جاری کی ہے
ہر اِک کے کام ، آنے والی
شکرا” ون ون،ٹو ٹو “بھی ہے

عاصم بخاری کا مشاہدہ منظر کشی مغربی طرز پر چوٹ اور
انگریزی لفظوں کا استعمال نظم کے اس ٹکڑے میں دیکھیۓ۔

ابھی یاں کوئی ” ممی ، ڈیڈی” نہیں
ابھی کہنے والے ہیں سب بابا جان
بزرگوں کا اس میں ابھی احترام
وہی پہلے والا ، ابھی ہے مقام

اسی طرح ایک اور نظم میں جدت اور اندھا دھند تقلید و ترقی پر بھی ایک اور کے ٹکڑے میں تنقید باۓ اصلاح غور و خوض اور انگریزی طرز و اصلاح کے انداز میں جدید انداز و موضوع دیکھیں۔
نظم۔۔۔۔بیٹھکیں
ابھی ” نیٹ ” یہ ” یوز” کرتے نہیں
ابھی ایک دوجے سے ہیں باخبر
ابھی تک ہیں آباد یاں بیٹھکیں
ابھی لوگ مل بیٹھتے ہیں یہاں

درج بالا نظم میں انگریزی الفاظ کا استعمال فطری قدرتی اور بے ساختہ انداز میں انھوں نے کچھ اس مہارت اور روانی سے کیا ہے کہ نامانوسیت کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ یہ ان کی شاعرانہ مہارت ہے۔
آخر پہ حالات ِ حاضرہ کے نمائندہ دو قطعات جن میں مہنگائی اور بجلی کے آئے روز بڑھتے نرخوں کے رونے کی تصویر کشی کے ساتھ انگریزی کے الفاظ کا غیر محسوس انداز میں برتاؤ بھی پڑھنے کے قابل ہے
قطعات ملاحظہ ہوں۔
دن بدن بڑھتے ریٹ ، یونٹ کے
دل کو ہر ایک تھام ، لیتا ہے
سب پہ بجلی سی ایک گرتی ہے
“بِل” کا جب کوئی نام ، لیتا ہے

اور نہیں بس اک ہی سب کے
ارمانوں کا ، قاتل نکلا
صدمے سے مرنے والے کی
جیب سے “بجلی کا بل “نکلا

تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

گرج، چمک اور بجلی کی کڑک

پیر اگست 28 , 2023
شاید اشرافیہ یہ بات سمجھ نہیں پا رہی ہے کہ جب کمزور کا ہاتھ پڑتا ہے تو وہ طاقتور سے پچھلے سارے بقایا جات وصول کر لیتا ہے۔
گرج، چمک اور بجلی کی کڑک

مزید دلچسپ تحریریں