جہاد اور صلیبی جنگوں کا انجام؟

جہاد اور صلیبی جنگوں کا انجام؟

Dubai Naama

جہاد اور صلیبی جنگوں کا انجام؟

گلوبل نیوز کے مطابق “طوفان الاقصی” اور “بیت المقدس” کے حصول کی جنگ میں حزب اللہ کے شہید علی علاوؑالدین کی والدہ اس وقت اظہار تشکر کے لئے سجدے میں گر گئیں جب انہیں بیٹے کی شہادت کی خبر ملی۔ علی علاوؑالدین کی والدہ ایک شہید خاوند کی بیوہ ہیں۔ ان کے خاوند اور علی علاوؑالدین کے والد یوسف علاوؑالدین 2006 میں “الفجر آپریشن” کے دوران شہید ہوئے تھے۔ ایسی کوئی ایک شہادت ہو یا ہزاروں لاکھوں شہادتیں ہوں، وہ اسلامی جہاد کی صورت میں افغانستان میں ہوں، کشمیر میں ہوں، مشرق وسطی میں فلسطین کی آزادی کے لئے ہوں یا یہود و نصاری کی طرف سے صلیبی جنگوں کی شکل میں ہوں، ان دونوں صورتوں میں خون “انسانیت” ہی کا بہتا ہے۔

بیت المقدس دنیا کا وہ واحد مقام ہے جو مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں تینوں مذاہب کے ماننے والوں کے لئے “مقدس مقام” کا درجہ رکھتا ہے۔ ان تینوں مذاہب میں سے جس مذہب کے پاس بھی طاقت آتی ہے وہ بیت المقدس پر اپنا تسلط قائم کر لیتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے عیسائی بادشاہتوں اور رومن ایمپائر کے بازنطینی دور میں عیسوی سال 638 میں بیت المقدس کو فتح کیا۔ 1099ء میں بیت المقدس دوبارہ صلیبیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ اس کے تقریبا 90سال بعد سلطان نورالدین زنگی کے وزیر اور سلطان صلاح الدین ایوبی نے اکتوبر 1187ء میں بیت المقدس کو آزاد کر کے اسلامی حکومت قائم کی۔ اس دوران بیت المقدس کے حصول کے لیئے 8بڑی مذہبی جنگیں لڑی گیئں جن میں پہلی صلیبی جنگ 1097ء تا 1145ء، دوسری 1144ء تا 1187ء، تیسری 1189ء تا 1192ء، چوتھی 1202ء تا 1204ء، پانچویں اور چھٹی 1227ء، ساتویں 1248ء اور آٹھویں 1268ء میں لڑی گئی۔ یہ وہ مذہبی جنگیں ہیں جو صلیبی جنگوں (Crusades) کے نام سے منسوب کی جاتی ہیں حالانکہ یہ مذہبی جنگیں نہیں تھیں بلکہ یہ جنگیں بیت المقدس اور “یروشلم” کے زمینی خطہ پر قبضہ جمانے کے لئے محض “مذہب” کے نام پر لڑی گئی جنگیں تھیں۔

افغانستان پر امریکی حملے کو “9نویں صلیبی جنگ” بھی کہا جاتا ہے جو 9/11 کے واقعہ کے بعد 2001ء میں “دہشت کے خلاف جنگ” (War On Terror) کے نام سے عراق پر امریکی حملے سے شروع ہوئی تھی جو 20سال گزرنے کے باوجود کسی نہ کسی صورت میں تاحال جاری ہے۔ 11سمتبر 2001ء کو جب امریکہ کے شہر نیویارک اور دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی پر اغوا شدہ طیاروں کے ذریعے بالترتیب ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون کی عمارات پر حملہ ہوا تو اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے “قصر ابیض” میں 16سمبر 2001ء کے اپنے ایک خطاب کے دوران اسے “صلیبی جنگ” کا نام دیا تھا۔ اس کے بعد 2003ء میں امریکہ اور اتحادی افواج نے عراق کے ایٹمی ہتھیاروں کے نام سے عراق پر حملہ کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ 22اکتوبر 2012ء میں نیٹو افواج کی موجودگی میں کرنل قذافی کی ہلاکت ہوئی جسے بہت سے تجزیہ کار “قتل” قرار دیتے ہیں اور اسی طرح 2011ء میں شام کی خانہ جنگی شروع ہوئی جس سے شام ابھی تک سنبھل نہیں سکا ہے۔

یہ ہے 7اکتوبر کے حماس کے طوفان الاقصی کا مختصر سا پس منظر، جس میں ایک فلسطینی خاتون اپنے خاوند اور بیٹے کو “شہادت” کے رتبہ پر متمکن دیکھ رہی ہیں۔ قرآن کریم میں جہاد پر زور دیا گیا ہے اور “یہود و نصاری” کے بارے میں بھی قرآن پاک میں آیات ضرور موجود ہیں۔ لیکن قرآن کی اجتماعی فکر اور اسوہ حسنہ حضرت محمد مصطفی رحمت العالمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم انسانیت افروزی پر مبنی ہیں۔ اس کے مطابق نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہودیوں کی خدمت مسجد نبوی میں ٹھہرا کر کرتے نظر آتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں، “کونو عباد اللہ اخوانا” کہ سب عبد (انسان) بھائی بھائی ہیں۔ اسلام ایسا دین نہیں جس طرح اس کی تشریح بعض مسلم مشاہرین قرب قیامت سے پہلے جنگ و جدل اور خون ریزی کا نمونہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح اصل الہامی مذاہب یہودیت اور عیسائیت بھی انسانی خون ریزی یا ایسی صلیبی جنگوں کی ہرگز اجازت نہیں دیتے ہیں جس طرح صلیبی جنگوں کے دعوے دار اس کی تعبیر پیش کرتے ہیں۔ جوں جوں اسرائیل فلسطین کی جنگ کے پھیلنے کا امکان بڑھ رہا ہے۔ ایران کی حماس کے لئے کھلم کھلا فوجی و انسانی حمایت اور امریکہ اسرائیل کی امداد کر رہا ہے اور امریکہ کا فائٹر طیاروں اور اسلحے سے لدا بحری بیڑا حماس کے 7اکتوبر کے حملے کے فورا بعد بحرالکاہل میں پہنچ گیا ہے۔ اگر جنگ نے ایران کو بھی لپیٹ لپیٹ میں لے لیا یا روس اور چین بھی جنگ میں کود پڑے تو بیت المقدس کے قبضے کی یہ جنگ “تیسری عالمی جنگ”  میں بھی بدل سکتی ہے۔ تب  امریکی صدر جوبائیڈن جو اسرائیل کے “فاسفورس” بم چلائے جانے، فلسطینی بچوں اور عورتوں سمیت ہزاروں فلسطینیوں کے قتل اور غزہ  کے ہسپتالوں کو “قبرستان” بنانے پر خوش نظر آ رہے ہیں اور اقوام  متحدہ بھی جنگ بندی نہ کروا سکا تو کچھ زیادہ بعید از قیاس نہیں کہ سابق امریکی صدر جارج بش کی طرح موجودہ امریکہ صدر جوبائیڈن بھی حالیہ اسرائیل فلسطین جنگ کو صلیبی جنگ (Crusade) کا نام دینے کی ناکام کوشش کریں گے۔

صلیبی جنگوں یعنی مذہبی جنگوں کو سب سے پہلے قرون وسطی میں لاطینی کلیسا نے منظور کیا تھا۔ نومبر 1095ء میں پوپ اربن دوم نے اپنے خطبے میں کہا تھا کہ، “عیسائی دنیا یروشلم واپس لینے کے لئے اکٹھی ہو جائے”۔ خاص طور پر مشرقی بحیرہ روم کی مہمات کا مقصد “ارض مقدسہ” (موجودہ یروشلم) کو اسلامی حکمرانی سے آزاد کرانا تھا۔ اگر الہامی مذاہب امن و سلامتی کا نظام ہیں (اور ہیں) تو اس بات کو اس کے تینوں پیروکار “یہودی”، “عیسائی” اور “مسلمان” کب سمجھیں گے؟ کیا اس وقت جب اللہ تعالی اس انسانی نسل کو چھوڑ کر یہاں ایک اور انسانی “مخلوق” آباد کرے گا؟

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

ماہی نیاں وطناں توں

اتوار اکتوبر 15 , 2023
ایک روایت مشہور ہے کہ چھچھ کے کسی گاؤں میں بھیڑیا گھس آیا، لوگ اسے مارنے کے لیے دوڑے تو وہ گاؤں کے ایک حجرے میں آگیا۔
ماہی نیاں وطناں توں

مزید دلچسپ تحریریں