حماس اسرائیل جنگی بندی معاہدہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کردار
گزشتہ روز فلسطین کی جہادی تنظیم حماس اور اسرائیلی اتھارٹی کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پا جانا مشرق وسطی میں قیام امن کے لیئے ایک انتہائی خوش آئند پیش رفت ہے۔ اسرائیل نے اپنے ہوائی حملوں میں بڑی تعداد میں فلسطینیوں کے قتل کے علاوہ غزہ کا انفراسٹرکچر تباہ کیا، ہسپتالوں، امدادی قافلوں اور عمارتوں وغیرہ کو نشانہ بنایا مگر اس کے مقابلے میں اسرائیل کا بہت کم جانی و مالی نقصان ہوا۔ اسرائیل نے یہ جنگ امریکی اسلحہ اور امداد کے زور پر جاری رکھی اور امریکہ ہی کی مداخلت پر اب ان دونوں متحارب گروپوں میں قطر میں جاری مذاکرات کے نتیجے میں یہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا ہے۔
امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے الیکشن جیتنے کے بعد اپنے پہلے صدارتی خطاب میں مشرق وسطی میں جنگ بندی اور انسانی خونریزی کو بند کرنے کا وعدہ کیا تھا جو ان کے امریکہ کی صدارت کا حلف اٹھانے سے پہلے ہی پورا ہو گیا ہے۔ گو کہ ٹرمپ کا ایک تلخ اور دھمکی آمیز بیان بھی آیا تھا کہ ان کے حلف اٹھانے تک حماس نے اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا نہ کیا تو وہ فلسطین (مشرق وسطی) کو "جہنم کی آگ” میں بدل دیں گے۔ اس بیان کا اشارہ فلسطینی تنظیم کے حمایتی ممالک ایران وغیرہ کی طرف تھا۔ سعودی عرب بھی حماس کی اخلاقی حمایت کرتا ہے اور فلسطین کو امدادی رسد وغیرہ پہنچاتا رہتا ہے۔ البتہ اس بیان کا مثبت نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حماس اور فلسطین کے درمیان قطر میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے جس کا اطلاق 19 جنوری 2025ء سے ہو گا۔
اس جنگ بندی اور امن معاہدے کا اعلان چند روز قبل قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی نے دوحہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا جس کا پوری عالمی برادری نے خیر مقدم کیا ہے۔ پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ معاہدے کا آغاز اتوار 19جنوری سے ہو گا۔ یہ وضاحت حوصلہ افزا ہے کہ امریکہ، مصر اور قطر مذکورہ معاہدے کی نگرانی کریں گے۔ قطر فلسطینیوں کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہتا ہے۔ قطری وزیراعظم نے اس معاہدے میں کردار ادا کرنے پر نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر برائے مشرق وسطیٰ کا شکریہ ادا کیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں 6 ہفتوں کی فائر بندی ہو گی جس دوران 33 اسرائیلی قیدیوں کے بدلے میں تقریباً 2000 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا جن میں 250 وہ فلسطینی بھی شامل ہیں جنہیں اسرائیل نے "سزائے موت” سنا رکھی تھی جو حماس اور فلسطین کے لیئے ایک فتح اور خوشخبری سے کم نہیں ہے۔ اسرائیلی فوجیوں کا غزہ سے انخلا طے شدہ شیڈول کے مطابق مرحلہ وار ہو گا۔ صہیونی افواج مصر اور غزہ کی سرحد فلاڈیلفی کوریڈور (صلاح الدین محور) سے بھی نکل جائیں گی۔
امریکہ کے دوسری بار منتخب ہونے والے صدر محترم المقام جناب ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کے اعلان میں سبقت لی اور اپنے الفاظ کی پاسداری کی۔ راقم خصوصی طور پر انہیں امن پسندی کے اس اقدام پر مبارک باد پیش کرتا ہے۔ مذکورہ معاہدہ امریکہ کی بہترین سفارت کاری کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ انسانیت اور امن پسندی کے اس اقدام کو سرا جانا اخلاقی فرض ہے۔ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتیرس، یورپی یونین اور عالمی برادری کی طرف سے بھی جنگ بندی کے اس قابل تعریف فیصلے پر خیرمقدمی پیغامات سامنے آئے ہیں۔
اس عظیم الشان پیش رفت پر اسرائیل اور غزہ کے علاقوں میں عوامی سطح پر بھی خوشی کا اظہار کیا گیا ہے۔ تاہم ایک افسوسناک بات یہ ہے کہ جنگ بندی کے اعلان سے قبل بدھ کو غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے پر اسرائیلی طیاروں نے بھرپور اور بے رحمانہ حملے کیئے جس میں 67 فلسطینیوں کو شہید کیا گیا جبکہ 7 اکتوبر 2023ء کو شروع کی گئی اس جنگ کے 15ماہ سے زائد عرصے میں 46 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید اور ایک لاکھ دس ہزار سے زائد کو زخمی کیا جا چکا ہے۔ دوسری جانب مزاحمتی گروپوں کی کارروائیوں میں 405 صہیونی فوجی مارے گئے اور اسرائیل کے اندر 1200سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔
فلسطین کی تنظیم حماس اور صہیونی ریاست اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدہ طے پانے کی خبر امن کا ایک مثبت پیغام ضرور ہے مگر کئی حوالوں سے امن پسند حلقوں کو فکر لاحق ہے کہ اسرائیل امن معاہدے کی پاسداری کے وعدے پر کس حد تک اور کتنی مدت تک قائم رہے گا؟ اس کے ماضی کے کردار کی روشنی میں حتمی طور پر اس سوال کا پرامید جواب آسان نہیں ہے۔ تاہم واشنگٹن اس باب میں عالمی امن کے مفاد میں کردار کرنا چاہے گا تو وہ موثر بھی ہو سکتا ہے۔
اس اعتبار سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امن پسند پالیسیوں کو مدنظر رکھا جائے تو وہ تمام سابق امریکی صدور سے زیادہ قابل اعتبار ریکارڈ رکھتے ہیں۔ دنیا بھر کے مسلم ممالک کو بھی چایئے کہ وہ صدر ٹرمپ کے اس خوبصورت کردار کا خیر مقدم کریں۔ ممکن ہے تو اسلامی تنظیم او آئی سی (OIC) کو بھی چایئے کہ وہ جنگ بندی کو مستقل بنیادوں پر قائم رکھنے میں اپنا رول ادا کر سکے۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |