شہزاد اسلم راجہ سے گفتگو

شہزاد اسلم راجہ

انٹرویو بسلسلہ ادبی شخصیات ، لاہور

انٹرویو کنندہ : مقبول ذکی مقبول ، بھکر پنجاب پاکستان

شہزاد اسلم راجہ کا تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع بہاولپور کی تحصیل احمد پور شرقیہ سے ہے ۔ ان کی تاریخ پیدائش 4 اپریل 1984ء ہے ولدیت محمد اسلم ۔ تعلیم ایم اے پنجابی ہے ۔ 20 یا 22 برس پہلے روز گار کے سلسلے میں لاہور تشریف لے آئے اور لاہور کے ہی ہو گئے ہیں ۔ ایک پرائیویٹ انجینئرنگ فرم میں بطور ایڈمن منیجر روزی روٹی کما رہے ہیں ۔ ادبی دنیا میں بچوں کا ادب ہو یا صحافت کا شعبہ ، ان میں اگر سرسری نظر دوڑائی جائے تو ہمیں ایک ابھرتا ہوا نام”شہزاد اسلم راجہ” نظر آتا ہے ۔ شہزاد اسلم راجہ روہی کی دھرتی جنوبی پنجاب کی تحصیل احمد پور شرقیہ ضلع بہاولپور کے روشن ستارہ ہے ۔ 90 کی دہائی میں شہزاد نے ادبی میدان میں بچوں کے ادب سے اپنی ادبی زندگی کا سفر شروع کیا جو آج بھی جاری و ساری ہے ۔ اگرچہ شہزاد اسلم راجہ لاہور میں بستے ہیں ۔ لیکن اپنی جنم بھومی کو نہیں بھولتے ۔ اپنا تعلق احمد پور شرقیہ سے ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔ گزشتہ روز شہزاد اسلم راجہ سے ملاقات ہوئی تو ان سے ہونے والی گفتگو قارئین کی نذر کرتا ہوں ۔

شہزاد اسلم راجہ  سے گفتگو

سوال : آپ نے لکھنے کا آغاز کب اور کیسے کیا ۔؟
جواب : 90 کی دہائی سے قلم سے جڑا ۔ آوارگی کے نام سے کالم لکھتا ہوں ۔ لکھنے لکھانے کا آغاز 1996؁ء میں بچوں کے رسائل میں لکھنے سے کیا جن میں سر فہرست روزنامہ نوائے وقت کا ہفتہ وار بچوں کا صفحہ ”پھول اور کلیاں“، بچوں کا پاکستان اور ماہنامہ طفل کوکب ملتان ہیں۔
سوال : آپ کی کتابوں کے نام ۔؟
جواب : میرے کالموں کا مجموعہ ”آوارگی“ کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے جسے دا رالشعور پبلیکیشنز نے بڑے اہتمام سے شائع کیا اور میرا پنجابی سفر نامہ”ٹردے ٹردے“ کے نام ہے منظر عام پر آیا ہے جو پنجابی ادب میں بچوں کا پہلا سفر نامہ ہے ۔اس سفر نامے کو ادارہ پنجابی بال ادبی بورڈ لاہور نے شائع کیا ہے اور پنجابی ادب کے معتبر ادارہ مسعود کھدر پوش ٹرسٹ کی طرف سے اس سفر نامہ کو سال 2018 کا پہلا ایوارڈ بھی ملا ۔ اس سال2022ء میں میری مجموعی طور پر تیسری کتاب جو کہ میرے کالموں کا دوسرا مجموعہ ”پھر آوارگی“ ہے منظر عام پر آئی ۔ اس کے علاوہ لاہور سے کوئٹہ بچوں کے لئے سفر نامہ اردو زبان اور پنجابی زبان میں لکھ رہا ہوں اور بچوں کے لئے پیارے نبی ﷺ کی سیرت پنجابی زبان میں لکھ رہاہوں۔
سوال : آپ کو کیسے پتا چلا کہ آپ کے اندر تخلیق کار موجود ہے ۔؟
جواب : مجھے توآج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ مجھ میں ایک تخلیق کار موجود ہے ۔ بس جب دل اور دماغ میں کوئی سوچ ہو تو اس کو صفحہ قرطاس پر بکھیر دیتا ہوں ۔ کم لکھتا ہوں مگر اچھا لکھنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ اب یہ معلوم نہیں کہ مجھ میں تخلیق کار موجود ہے یانہیں اس بات کو بہتر طور پر میرے قارئین ہی جانتے ہوں گے ۔
سوال : کالم کی تعریف کیا ہے ۔؟ کالم لکھنے کے لئے کن باتوں کو مد نظر رکھنا چاہیئے ۔؟
جواب : معروف کالم نگار جناب عطاء الحق قاسمی کالم کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں ”کالم ایک تحریر ی کارٹون ہے“ تو کارٹون کو دلچسپ بنانے کے لئے اس کی شکل و صورت اس کی زبان اس کا قد کاٹھ سب کو مدِ نظر رکھنا ضروری ہے ۔ آج کل اچھا کالم نگار وہی ہے جسے کالم نگاری کے ساتھ ساتھ کالم لکھاری پر بھی عبور حاصل ہو ۔ جو کالم نگار اپنے کالم میں حکمرانوں سے اپنے مراسم کا حوالہ دے تو وہ بہترین کالم لکھاری کر رہا ہو گا ۔ پھر بھی بطور کالم نگاری کے طالب علم کے کالم نویسی کے لئے میری ناقص عقل کے مطابق جن باتوں کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیئے وہ عرض کیئے دیتا ہوں ۔

(1) جس بھی عنوان پر کالم لکھنا مقصود ہو اس کے متعلق ضروری معلومات اور اعدادو شمار آپ کے پاس ہونا انتہائی ضروری ہے ۔

(2) اپنی علمی قابلیت کی قاری پر بلاوجہ دھاک بٹھانے کی خاطر مشکل الفاظ اورمشکل جملوں کا استعمال نہیں کرنا چاہیئے بلکہ آسان اور سادہ زبان میں اپنی بات کو بیان کریں ۔ ضرورت کے تحت مشکل الفاظ اور جملوں کا استعمال کیا جاسکتا ہے ۔

(3) اگر آپ اپنے کالم میں کسی فرد یا کسی ادارے کے بارے میں لکھ رہے ہیں تو اپنی الفت یا دشمنی کو بالائے طاق رکھ کر لکھیں کسی ایک طرف جھکاؤ نہ ہو ۔

(4) ان تمام باتوں پر عمل کرنے کے لئے لازمی ہے کہ آپ کا مطالعہ وسیع ہو ۔ وسیع مطالعہ ہی کالم نویسی کی جڑ ہے ۔ مطالعہ ہی سے آپ کے پاس وافر معلومات ، الفاظ اور جملوں کا ذخیرہ ہو گا ۔ لہٰذا مطالعہ کالم نویسی میں سب سے پہلا اور اہم جُزو ہے ۔

(5) کالم یا تحریر لکھ کر لازمی ہے کہ 2 یا 3 بار ضرور پڑھیں جس سے آپ کو اپنے کالم میں کچھ اہم پوائنٹ لکھنے یاد آجائیں گے یا پھر کوئی غیر موزوں بات یا جملہ جو لکھا گیا ہو وہ بھی نکل سکے گا ۔

آج کل کمپیوٹر نے کالم یا تحریر کو خوبصورت لکھنے کے لئے آسانی پیدا کر دی ہے ۔ ضرور اس سے استعفادہ کرنا چاہیے مگر میرا یہاں مشورہ ہو گا کہ کالم یا تحریر لکھتے وقت آپ اپنے ہاتھ میں قلم لے کر کاغذ پر لکھیں اس سے آپ کو لکھتے وقت بہت سی باتیں تحریر کے عنوان کی مناسبت سے لاشعور سے شعور میں عود آئیں گی اور کاغذ پر روشنائی سے تحریر بنتی جائیں گی ۔ ہاتھ سے لکھنے کے بعد پھر کمپیوٹر جیسی مشین مشین پر ٹائپ کریں ۔ تحریر ٹائپ کرتے وقت بھی بہت سی تحریر کی کمی یا کوتاہی نظر میں آجائے گی ۔ کالم لکھنے کے بعد اگر آپ کا کالم کسی بڑے اخبار میں نہیں چھپتا تو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں کیوں کہ بڑے اخباروں میں بہت سے چھوٹے لوگ چھپتے ہیں جبکہ چھوٹے اخباروں میں بہت سے بڑے لوگ چھپتے ہیں ۔ کیونکہ کسی بھی جماعت میں پڑھنے کے لئے آپ کو پہلے نرسری کلاس میں تو پڑھنا پڑتا ہی ہے ۔
سوال : آپ کے کالم کون کون سے اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔؟
جواب : مختلف قومی اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں جن میں سر فہرست روزنامہ” آفتاب”لاہور ، روزنامہ “پاکستان” ملتان ، روزنامہ “نوائے وقت” ملتان ، روزنامہ” سماء” لاہور ، گوجرانوالہ ، اسلام آباد ، کراچی ، روز نامہ “دفاع” رحیم یار خان اور اس کے علاوہ روزنامہ “حریف “لاہور شامل ہے ۔
سوال : لاہور میں آپ کو 22 سال سے زیادہ عرصہ ہوا ہے ۔ ادب کے حوالے سے لاہور کو کیسا پایا ۔؟
جواب : لاہور نے جہاں مجھے رزق کمانے کے مواقع فراہم کئے وہاں مجھے ادبی حلقہ میں متعارف بھی کروایا ۔ لاہور ایک بڑا شہر ہے اور یہاں ادب سے جڑے بہت بڑے بڑے نام آباد ہیں ان سے ملاقات اور سیکھنے کا موقع بھی ملا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ لاہور میں ادب کے حوالے تعمیر ی کام ہوتا رہا ہے ، ہو بھی رہا ہے اور امید ہے مستقبل میں بھی اسی طرح ہوتا رہے گا ۔ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ لاہور میں ماضی کی نسبت اب بہت سی ادبی تنظیمیں بن چکی ہیں ۔ جس سے کچھ احباب کا خیال ہے کہ یہ دھڑے بندی ہو رہی ہے ۔ ہر ایک نے اپنی اپنی پسند کا گروہ بنایا ہوا ہے ۔ لیکن میرا اپنا ذاتی خیال ہے کہ یہ بہت سی ادبی تنظیمیں جو ادبی کام کر رہی ہیں وہ بہت حد تک تعمیری ادب تخلیق کرنے میں اپنا اپنا کردار نبھا رہی ہیں ۔
سوال : ادبی تنظیم”القلم رائٹرز فورم پاکستان“۔ آپ اور چند دوستوں نے اس کی بنیاد1999ء میں رکھی اس کے کام سے قارئین کو آگاہ کریں ۔؟
جواب : جی بالکل القلم رائٹرز فورم پاکستان کی بنیاد میرے ادبی استاد اور دوست شہزاد عاطر کے ہمراہ شبیر فراز عباسی ، مامون الرشید بھٹی ، ڈاکٹر آصف اسلم راجہ اور میں نے مل کر 1999ء میں رکھی ۔ اس ادبی تنظیم کا مین مقصد طلباء و طالبات اور نوجوانوں میں چھپی ہوئی ادبی قابلیت منظر عام پر لانا تھا ۔ اس مقصد کے لئے ہم نے بہت سے ادبی مقابلہ جات منعقد کئے جس میں مقابلہ قرات ، نعت ، ملی نغمہ اور تحریری مقابلے شامل تھے ۔الحمد للہ ان مقابلہ جات میں نمایاں پوزیشنز حاصل کرنے والوں کو روزنامہ” نوائے وقت “ملتان کے بچوں کے صفحہ ”پھول اور کلیاں“ کے زیر اہتمام ہر مقابلہ میں پہلی دو پوزیشن ہمارے شہر کے ان بچوں کے حصہ میں آتی تھیں ۔ ہمارے شہر احمد پور شرقیہ کے ٹاؤن ہال جسے ”جناح ہال“ کہتے ہیں وہاں سال 2000ء میں ہم نے 24 ادبی پروگرامز منعقد کئے ۔ یعنی ہر ماہ دو ادبی پروگرامز ۔ ہمارے شہر کا یہ اعزاز ہماری ادبی تنظیم القلم رائٹرز فورم پاکستان کے ماتھے کا جھومر ہے ۔ جب ہم نے اس تنظیم کی بنیاد رکھی تھی تب ہم خود اس عمر میں تھے جس عمر میں ہمیں انعام حاصل کرنے تھے لیکن ہم خود بچوں کو انعامات دے رہے تھے ۔آج الحمد اللہ القلم رائٹرز فورم پاکستان کے زیر اہتمام کتب کی اشاعت بھی ہو رہی ہے ۔ القلم رائٹرز فورم پاکستان ایسے شاعر اور ادیب حضرات کو صاحب کتاب کرنے میں مدد کرتا ہے جو کتاب کی اشاعت کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے ۔ القلم رائٹرز فورم نے اس حوالے سے ایسا پیکج بنایا ہے کہ جو حضرات اپنی کتاب96 سے 160 صفحات کی کتاب شائع کرنا چاہتے ہیں ان کی تعداد 100ہو گی لیکن وہ اپنی ضرورت کے مطابق 10 سے 15کتابوں کی قیمت ادا کر کے اقساط میں اپنی 100 کتابیں حاصل کر سکتے ہیں ۔
سوال : آپ شعر و شاعری کی طرف کیوں نہیں آئے ۔؟
جواب : شاید مجھے شعر کی آمد نہیں ہوتی اس لئے شاعری نہیں کر پاتا ۔ ویسے اچھی شاعری مجھے پڑھنا اور سننا بہت پسند ہے ۔
سوال : آپ ادبی شخصیات کے حوالے سے کس سے متاثر ہیں ۔؟
جواب : بچپن میں مجھے منو بھائی کی تحریر جب بھی پڑھنے کا موقع ملتا میں ضرور پڑھتا تھا اور پھر ساتھ ساتھ کرنل اشفاق احمد صاحب کی تحریریں بھی پڑھیں اور ان کی ہی تحاریر پڑھ کر مجھے لکھنے کا شوق پیدا ہوا اس لئے آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں منو بھائی اور کرنل اشفاق احمد سے متاثر ہوں ۔اس کے علاوہ شاعری میں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ؒ کے ساتھ ساتھ جناب زاہد شمسی ؔ، پروفیسر ڈاکٹر عاصم درانی اور شہزاد عاطر کی شاعری مجھے بہت پسند ہے ۔
سوال : سفرنامہ تحریر کرتے ہوئے کس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔ جس سے سفرنامہ کی روح زخمی نہ ہو ۔؟
جواب : ذکی صاحب ! یہ سوال تو کسی ماہر سفر نامہ نگار سے ہونا چاہئے ۔ میں نے تو ایک ہی سفر نامہ لکھا ہے وہ بھی بچوں کے لئے اور دوسرا بھی بچوں کے لئے لکھ رہاہوں ۔ میں اس سفر نامے میں جو سفر کرتا ہوں وہ بچہ بن کر کرتا ہوں ۔ جس جگہ سے گزر ہوا اس کا تاریخی حوالہ اور مقام بتاتے ہوئے سادہ اور عام فہم الفاظ استعمال کرتا ہوں تاکہ بچوں کی طبیعت پر گراں نہ گزرے اور سفر کے واقعات کو بچوں کی زبان میں دلچسپ بنانے کی کوشش کرتا ہوں ۔
سوال : علامہ اقبال ؒ کے کلام میں زیادہ تر فلسفہ پایا جاتا ہے ۔ آپ کیا کہتے ہیں ۔؟
جواب : علامہ اقبال ؒہمارے قومی شاعر اور مفکرِ پاکستان ہیں۔آپؒ کی شاعری انسانیت ،اخوت و بھائی چارے کا درس دینے کے ساتھ ساتھ خودی کی پہچان کا سبق بھی دیتی ہے ۔”فلسفہ خودی“ تصوف (معرفت)کی ابتدا بھی ہے اور انتہا بھی ۔رسول پاک صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا ارشاد ہے ”من عرف نفسہ فقد عرف ربّہ“ ترجمہ: جس نے اپنے نفس (ذات) کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا ۔ معلوم ہوا کہ اللّٰہ کی پہچان کا ایک ذریعہ اپنی ”ذات“ پر غور و فکر کرنا بھی ہے ۔ علامہ اقبالؒ کی شاعری انسان کو اپنی ذات اور کائنات کے اسرار و رموز پر”غور و فکر“کرنے پر مائل کرتی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ”اس کائنات اور تمہارے اپنے نفوس میں میری نشانیاں ہیں“(سورۃ الذاریَات 2) ۔ اکثریت ، علامہ اقبالؒ کو صرف قومی شاعر کی حیثیت سے جانتی ہے ۔ اقبال ؒکی حقیقت سے آشناوہی ہیں جو اُن کی شاعری کو پڑھتے اور سمجھتے ہیں ۔ جو اقبالؒ ناآشنا ہیں ، وہ مزارِ اقبالؒ پر علامہ اقبالؒ کو قومی شاعر یا مفکرِ پاکستان سمجھ کر حاضر ہوتے ہیں اور جو اقبالؒ آشنا ہیں ، وہ اقبال ؒکو مردِ خود آگاہ ، عارف باللہ،حق آشنا اور ولی اللّٰہ سمجھ کر بڑے ادب کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں ۔ علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری میں کائنات اور اس کے اسرار و رموز بیان کیے ہیں ۔انسان ،کائنات اور خدا ،علامہ اقبال ؒکی شاعری کا موضوع نظر آتے ہیں ۔
سوال : آپ کا احمد پور شرقیہ (بہاولپور) کے لکھاریوں سے کیا رابطہ رہتا ہے ۔؟
جواب : جی آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے ۔ احمد پور شرقیہ کے لکھاری احباب سے سوشل میڈیا کے ذریعے سے رابطہ میں رہتا ہوں ۔ جن لکھاری دوستوں سے قریبی تعلق ہے ان سے تو ٹیلی فون پر اکثر ادبی گفتگو ہوتی رہتی ہے ۔
سوال : بہاولپور۔۔۔۔ سے ادب کی کس درجہ خدمت ہو رہی ہے ۔؟
جواب : جی احمد پور شرقیہ اور بہاولپور میں ماضی میں بھی ادب تخلیق ہوتا رہا اور اب بھی ہو رہا ہے آپ شہزاد عاطر کی کتاب”احمد پور شرقیہ کی ادبی تاریخ“ اٹھا کر پڑھ لیں یا شیخ عزیزالرحمان کی کتاب”مشاہیر ریاست بہاولپور“ پڑھ لیں آپ کو احمد پور شرقیہ کی ماضی اور حال میں ادب کی خدمت روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی ۔
سوال : آخر میں ہم یہ کہ آپ کو لاہور کا کہیں یا احمد پور شرقیہ کا ۔؟
جواب : جناب اگر روزی روٹی اور مزدوری کے حوالے سے کہیں گے تو لاہور کا کہہ سکتے ہیں اوراگر میری جنم بھومی ، میری مٹی ، میری مٹھڑی روہی ، میرے شباب کے دن، میری تعلیم و تربیت کے حوالے سے میں پہلے بھی احمد پور شرقیہ کا تھا اور آج بھی احمد پور شرقیہ کا ہوں ۔ میں آج بھی جب کسی ادبی کانفرنس میں شرکت کے لئے اپنے فارم پُر کرتا ہوں تو اپنا تعلق احمد پور شرقیہ کا ہی بیان کرتا ہوں ۔مجھے فخر ہے کہ میں نوابوں کے شہر احمد پور شرقیہ (ڈیرہ نواب صاحب) کی دھرتی کا بیٹا ہوں ۔

maqbool

مقبول ذکی مقبول

بھکر، پنجاب، پاکستان

تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

دوسرا سالانہ کتاب میلہ 2022 اٹک

منگل دسمبر 20 , 2022
بلدیہ اٹک سے زیر اہتمام دوسراکتاب میلہ ان دم توڑتی روایات کو زندہ رکھنے کی بہت احسن کاوش ہے
دوسرا سالانہ کتاب میلہ 2022 اٹک

مزید دلچسپ تحریریں