چوہدری شاہد محمود (بحرین والے)
عبدالرؤف ملک کمالیہ
ہر انسان اپنی ذات میں ایک مکمل کہانی ہوتا ہے۔ اس کی سوچ، کردار، عادتیں، اخلاق، اندازِ گفتگو اور طرزِ زندگی اس کی شخصیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی گفتگو انسانیت کےلیے آسودگی اور ان کا کردار دوسروں کے لیے مشعلِ راہ ہوتا ہے۔
زر پرستی کے اس دور میں بھی کچھ لوگ انسانیت کی خدمت کےلیے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں۔ ان کی باتوں میں ستائے ہوئے پریشان حال لوگوں کےلیے دلاسہ اور عمل میں خلوص ہوتا ہے۔ آج میں جس شخصیت کا ذکر کر رہا ہوں وہ کمالیہ سے تعلق رکھنے والے پاکستان سے ہزاروں میل دور بحرین میں مقیم چوہدری شاہد محمود صاحب ہیں جو سینکڑوں دلوں میں بسنے والی ایک ایسی شخصیت کے مالک ہیں جس کو نہ تو اخبارات و سوشل میڈیا پر پذیرائی حاصل کرنے کا جنون ہے اور نہ ہی سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں میں خودنمائی کا شوق۔
چوہدری شاہد محمود صاحب محلہ بلال گنج کمالیہ میں رہنے والی ایک معزز ہستی حاجی علی محمد صاحب کے سب سے چھوٹے صاحبزادے ہیں۔ آپ ایک منفرد سماجی کارکن اور بہت بڑے بزنس مین ہیں۔ آپ کے بزنس کا دائرہ کار بحرین، سعودیہ اور دوسری عرب امارات میں پھیلا ہوا ہے۔ آپ عرب ممالک میں بہت سی کمپنیوں کے مالک اور ہزاروں کی تعداد میں سمندر پار پاکستانیوں کے روزگار کا ذریعہ ہیں۔ پردیس میں رہنے والے یہ پاکستانی آپ کے زیرِ انتظام مختلف کمپنیوں میں ملازمت کرتے اور اپنے اپنے خاندان کی کفالت کا وسیلہ بنتے ہیں۔ آپ جب بھی پاکستان تشریف لاتے ہیں خود کو عوامی فلاحی کاموں میں مصروف کرلیتے ہیں۔ اسی لیے ان سے ملاقات کرنے والوں کا ہمیشہ تانتا بندھا رہتا ہے۔ دو دن پہلے پاکستان تشریف لائے تو مجھے بھی ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ محترم شاہد صاحب سے پہلے بھی ملاقات ہوچکی ہے لیکن آج ان کی صحبت میں بیٹھ کر ان کی گفتگو سنی تو مجھ پر ان کی شخصیت کے ایسے ایسے راز کھلے جن سے میں پہلے ناآشنا تھا۔ ان کے فلاحی کاموں، انسانی ہمدردی، اعلیٰ اخلاق اور مجبور و بےکس افراد کا سہارا بننے کے اوصاف سے تو میں پہلے ہی واقف تھا لیکن آج ان کی گفتگو سن کر یوں محسوس ہورہا تھا کہ میرے سامنے بیٹھا شخص کوئی بزنس مین نہیں بلکہ ایک مصلح، مبلغ اور موٹیویشنل سپیکر ہے جو مجھے خدمتِ خلق اور مخلوقِ خدا پر رحم اور ہمدردی سے پیش آنے کی ترغیب دے رہا ہے۔ ان کی پوری گفتگو کا محور خدمتِ خلق اور حقوق العباد تھا جس میں مال و دولت، سرمایہ اور دنیاوی نفع و نقصان کا شائبہ تک نہ تھا۔ میں نے جب ان سے دنیاوی نفع و نقصان کے بارے میں بات کی تو چہرے پر مسکراہٹ سجا کر فرمانے لگے کہ جب انسان اپنے نفع و نقصان کی بجائے اللہ کی رضا اور خوشنودی کے حصول کےلیے دوسروں میں آسانیاں بانٹنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی ایسے بندے کو مایوس نہیں کرتا۔ اس کی آخرت تو سنورتی ہی ہے اللہ پاک ایسے بندے کی دنیا بھی سنوار دیتا ہے۔ کسی مجبور کے دل سے نکلنے والی دعا ہی اصل دعا ہوتی ہے جو آسمان کو چیر کر عرش تک پہنچتی ہے۔ اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں بلکہ یہ ہم پہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا خاص انعام ہے کہ ہمیں دوسروں کے رزق کا وسیلہ بنا دیا ہے۔ ایسی سبق آموز باتیں کتابوں سے نہیں ملتیں بلکہ ان کی خوشبو مخلص لوگوں کے کردار سے پھوٹتی ہے۔
چوہدری شاہد محمود صاحب اُن خوش نصیب انسانوں میں سے ہیں جن کے دل میں سمندر پار پاکستانیوں کےلیے ہمدردی، محبت، صلہ رحمی اور خدمت خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ میں اس بات کا چشم دید گواہ ہوں کہ جب بھی ان کے پاس دنیا کا ستایا ہوا کوئی بھی شخص مدد کےلیے آیا انہوں نے ہمیشہ اس کی بےلوث مدد کی۔ وہ صرف ایک فرد ہی نہیں بلکہ انسانی ہمدردی، خداترسی اور بےلوث محبت کا استعارہ ہیں۔ انہوں نے نہ تو کبھی شہرت چاہی اور نہ ہی کسی سیاسی یا مذہبی لبادے میں چھپ کر کام کیا بلکہ وہ جو کرتے ہیں چپکے سے اور خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے کرتے ہیں۔ بلاشبہ پردیس آسان نہیں ہے۔ وہاں کی مشکلات وہی جان سکتا ہے جو خود مشکل حالات سے گزرا ہو۔ وہاں ہر بندے کو اپنی پڑی ہوتی ہے حتٰی کہ قریبی رشتہ دار بھی مشکل وقت میں ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ میرا بیٹا بھی دوسال پہلے تلاشِ روزگار میں عازمِ سفرِ عرب ہوا تو اس جہانِ بےثبات کے خودغرض لوگوں نے اسے تنہا و لاوارث چھوڑ دیا۔ وہ عزیز و اقارب جو دن رات اسے سہارا دینے اور روزگار کےلیے ہر ممکن تعاون کے دعوے کرتے تھے چند ہی دنوں میں بیگانے ہوگئے۔ پرائے دیس میں بغیر رجسٹریشن اور کاغذات کے رہنا کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔ اسی پریشانی کے عالم میں ایک سال گزر گیا۔ پھر محترم شاہد محمود صاحب سے رابطہ ہوا جو ہمارے لیے رحمت کا فرشتہ ثابت ہوئے۔ انہوں نے مجھے اور میرے بیٹے کو تسلی دی اور ذاتی دلچسپی لے کر اس کے نہ صرف کاغذات اور رجسٹریشن کا پراسس مکمل کیا بلکہ اس کےلیے انتہائی مناسب روزگار کا بھی انتظام کیا۔ ایسی ہستی کےلیے دعائیں زبان سے نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے نکلتی ہیں جو بغیر کسی روک ٹوک کے عرش تک پہنچتی ہیں۔ ایسی بیگانی دنیا جہاں سب پرائے ہوں وہاں کسی کے کام آنا اور کسی کے روزگار کا ذریعہ بننا یقیناً بہت بڑا اور عظیم عمل ہے اور جب اس کا مقصد صرف اللہ کی رضا کا حصول ہو تو پھر یہ تمام امور نیکیوں میں شمار ہونے لگتے ہیں۔
عاجزی و انکساری چوہدری شاہد محمود صاحب کا خاص وصف ہے۔ ایک بہت بڑا بزنس مین ہونے کے باوجود آپ نے کبھی بھی دولت یا حیثیت پر فخر نہیں کیا۔ آپ نے نہ تو کسی پر کبھی احسان جتلایا اور نہ ہی کبھی کسی کی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچائی۔ ان کا لہجہ ہمیشہ نرم اور ظرف اتنا وسیع رہا ہے کہ اس میں پوری دنیا سما سکتی ہے۔
چوہدری شاہد محمود صاحب جیسے لوگ دراصل وہ خاموش محسن ہوتے ہیں جن کی موجودگی پردیسیوں کے لیے ایک سایہ دار درخت کی مانند ہے۔ نہ وہ شہرت کے بھوکے ہیں اور نہ کسی انعام کے منتظر۔ ان کا سب سے بڑا انعام اُن کے چاہنے والوں کی دعائیں اور اللہ کی رضا کا حصول ہے۔ ایسے لوگ ہی ہمارے معاشرے کا قابلِ فخر سرمایہ اور سمندر پار پاکستانیوں کا مثبت چہرہ ہوتے ہیں۔
اس تحریر کی وساطت سے میں چوہدری شاہد محمود صاحب کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے دیارِ غیر میں میرے بیٹے کی سرپرستی کی اور اس کےلیے اچھے روزگار کا بندوبست کیا۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت و تندرستی کی دولت سے مالامال کرے اور عمرِ خضر نصیب فرمائے۔ انہوں نے عوامی خدمت کے جذبے سے رفاہِ عامہ کے جو بھی کام کیے ہیں انہیں اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کےلیے توشہ آخرت بنائے۔ آمین

نام: عبدالرؤف ملک (کمالیہ)
تعلیم: ایم۔ اے اردو، ایم اے اسلامیات، ایم۔ ایڈ
پیشہ: پیشے کے لحاظ سے میں بطورِ ٹیچر سرکاری سکول میں خدمات سرانجام دے رہا ہوں۔
ادبی خدمات: تقریباً دس قومی اخبارات میں کالم لکھتا ہوں جن میں پہچانِ پاکستان، روزنامہ طالبِ نظر، کرائم میل نیوز اور روزنامہ راہنما قابل ذکر ہیں۔
اعزازات: برونز میڈل (ایجوکیشن بورڈ فیصل آباد BISE)
طالبِ نظر ادیب اثاثہ پاکستان ایوارڈ 2024
پہچان پاکستان ادبی ایوارڈ 2024
میرا ادب میری پہچان ایوارڈ 2025
روزنامہ طالبِ نظر کی طرف سے اعزازی میڈل
رائٹر ممبر EEFP (ایکسپرٹ ایمرجنگ فورس پاکستان)
اور بہت سے دیگر اداروں اور تنظیموں کی طرف سے بہت سے اعزازی سرٹیفکیٹ اور تعریفی اسناد
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |