سرمایہ داری بمقابلہ انسانی اقدار
روسی ناول نگار فیودر دوستوئیفسکی نے کہا تھا کہ غربت سادہ چیزوں کو پیچیدہ اور تکلیف دہ بنا دیتی ہے. اس کی وجہ یہ ہے غربت جب انسان کی بقا کو وسائل کی کمی کی وجہ سے خطرے میں ڈالتی ہے تو معاشرے میں انسان کی عزت و وقار بھی داو’ پر لگ جاتے ہیں۔ اس پس منظر میں غربت جب مزید بڑھتی ہے اور ناقابل برداشت ہو جاتی ہے تو ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ غربت زدہ انسان کا دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، اسے چیزیں و مسائل لاینحل اور پیچیدہ نظر آنے لگتے ہیں، اس کے اعصاب کمزور ہو جاتے ہیں اور بالآخر وہ غربت دور کرنے کے ناجائز یا متبادل راستے تلاش کرنے کے بارے سوچنے لگتا ہے۔
دنیا میں زیادہ تر جرائم مجبور اور غربت کے مارے لوگ کرتے ہیں یا بڑے جرائم میں وہ متوسط طبقہ ملوث ہوتا ہے جو غربت کی لکیر سے نیچے جانے کا خطرہ محسوس کرتا ہے۔
سرمایہ داری کے مقابلے میں اسلامی سوشلزم زرائع کی مساوی تقسیم پر زور دیتی ہے تاکہ معاشرے میں غربت پیدا ہونے کے امکانات کو کم سے کم سطح پر لایا جا سکے۔ الہامی مذاہب کے انبیاء اور صالحین کی تعلیمات اور زندگیوں کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اختیارات اور طاقت ہونے کے باوجود انہوں نے اپنی زندگیوں میں سادگی اور انسانی خدمت کو فروغ دیا تاکہ غربت اور طبقاتی تقسیم کی وجہ سے معاشرے میں جو بگاڑ پیدا ہوتا ہے اسے ختم کیا جا سکے۔ یہاں تک کہ ان عظیم ہستیوں نے امن و امان اور صالح معاشرہ قائم کرنے کے لیئے "ایثار” سے کام لیا یعنی اپنے حصہ کی دولت اور وسائل کو بھی اپنی ضرورتوں کو روک کر دوسروں کے لیئے وقف کر دیا۔
الہامی مذاہب کی اصل تعلیمات کا یہی کمال ہے کہ یہ دنیا میں غربت کے خاتمہ کے لیئے سرتوڑ کوششیں کرتی ہیں۔ تمام انبیاء اور اولیائے کرام نے اس مقصد کے لیئے اپنی پوری پوری زندگیاں مختص کر دیں تاکہ غربت کا خاتمہ کر کے بحیثیت مجموعی انسانی عظمت و وقار اور عزت نفس کو بحال کیا جا سکے کیونکہ غربت میں بعض اوقات اپنا اور بچوں کا پیٹ پالنا بھی مشکل ہو جاتا ہے اور کچھ لوگ بھیک مانگنے یا عصمت فروشی جیسی معاشرتی برائیوں میں مبتلاء ہو جاتے ہیں۔ روسی سوشلزم اور کمیونزم کو بھی دنیا میں اسی بنیاد پر فروغ ملا کہ اس میں امارت اور ذرائع کی برابر تقسیم کے نظام پر زور دیا گیا تھا۔ سرمایہ داری کے خلاف کارل مارکس کے نظریات کو آج بھی اسی لیئے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ وہ اپنے نظریات میں سرمائے کی مساویانہ تقسیم پر زور دیتے ہیں۔
پنجابی کا ایک محاورہ ہے جس کا اردو ترجمہ ہے کہ دنیا میں جنگ و جدل اور انسانی خون بہنے کی وجہ "زن”، "زر” اور "زمین” ہیں جن میں زر یعنی سرمایہ اور زمین سرفہرست ہیں۔ انسان زمین پر ان دونوں صورتوں میں قدرت کی دولت، وسائل اور زمین پر "قبضہ گیر” ہے۔ جن ممالک اور معاشروں کے پاس جتنی زیادہ طاقت ہے وہ اتنے ہی وسائل اور زمین پر زیادہ قابض ہیں۔ دنیا میں سرحدوں اور زمین کی ملکیت کا تصور بھی "غربت” کے اسی خوف کا نتیجہ ہے۔ انسان اپنی اور اپنی نسل کی بقا کے لیئے خود کو زیادہ سے زیادہ محفوظ کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ اس کی یہ خواہش دولت کے زیادہ سے زیادہ "ارتکاز” پر منتج ہوتی ہے۔
دنیا میں بلاشرکت غیرے رائج "کیپیٹل ازم” کا یہی المیہ ہے کہ وہ دولت اور ذرائع کی غیرمساوی تقسیم کی وجہ سے "غربت” کو فروغ دیتی ہے۔ اب روس اور چین جیسے ممالک بھی دولت اور ذرائع کے بارے کمیونزم کے تصورات کو ترک کر کے سرمایہ داری کی دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں۔ امریکہ کے بعد ہر سال دنیا کے سو امیر ترین انسانوں میں چینی اور روسی شخصیات بھی شامل ہوتی ہیں۔ ذرائع اور دولت کے دنیا کے محض چند سو افراد میں جمع ہونے کی اس دوڑ میں اتنی تیزی آتی جا رہی ہے کہ ترقی پذیر ملک میکسیکو جیسے ملک سے کارلوس سلم روز جیسا بزنس مین بھی دنیا کا امیر ترین شخص بن جاتا ہے۔
دراصل سرمائے کی منڈی میں انسان اب ایک "جنس” بنتا جا رہا ہے کہ دنیا میں اب کسی بھی شخص کی کوئی بھی قیمت لگائی جا سکتی ہے اور انسانوں کی اکثریت اچھی قیمت ملے تو اس پر بکنے کے لیئے ہر وقت تیار رہتی ہے۔
اس سرمایہ دارانہ پس منظر میں انسانی اقدار اور احساس بہت پیچھے جاتے نظر آ رہے ہیں۔ اگر دنیا کو اپنا مستقبل انسانوں ہی کے ہاتھوں سے تباہ ہونے سے بچانا ہے تو دنیا کے معیشت دانوں اور درد دل رکھنے والے دانشوروں کو سرمایہ داری نظام کا نیا متبادل نظام دنیا میں متعارف کروانا ہو گا۔ اسلام کی اخلاقی تعلیمات اور معاشی نظام میں وہ طاقت ہے کہ زمین پر سرمائے اور ذرائع کی اہلیت و استعداد کی بجائے انسانی اقدار کی بنیاد پر عادلانہ تقسیم کی جائے۔ دنیا میں انسانی جان اور اس کی بقا سے زیادہ کوئی چیز قیمتی نہیں ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہم کا بھی ایک قول ہے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے بھوک سے ایک کتا بھی مرے گا تو بطور خلیفہ اس کی ذمہ داری میرے کندھوں پر آئے گی۔ انسانی اقدار سے مراد خالصتا انسانی قدر و قیمت ہے کہ اس بناء پر دنیا بھر میں بھوک اور پیاس یا غربت کی وجہ دنیا میں کسی ایک انسان کی بھی موت ہو گی تو اس کا بوجھ پوری انسانیت پر پڑے گا۔
یا رب کائنات سال 2025ء کو اپنی رحمت کے صدقے پوری دنیا کے لیئے غربت کے خاتمے اور امن و سلامتی کی بحالی والا سال بنا آمین
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |