علامہ اقبال اور ٹیلی پورٹیشن ٹیکنالوجی
علامہ اقبال نے جدید کوانٹم دور کی آمد تک اپنے بیٹے جاوید اقبال کو لندن خط لکھتے ہوئے کیا خوب فرمایا تھا کہ:
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر،
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر۔
خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو،
سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر۔
8جب کوانٹم فزکس کے تجربات کا آغاز ہوا تو یہی راز لالہ و گل سے آراستہ فطرت کی کوکھ سے آئرش نژاد سائنس دان شروڈنگر کے بلی والے “تھاٹ ایکسپیریمنٹ” سے دریافت ہوا جس کے مطابق دنیائیں ایک سے زیادہ ہیں۔ اس مد میں علامہ محمد اقبال نے فرمایا تھا کہ:
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں،
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔
تہی، زندگی سے نہیں یہ فضائیں،
یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں۔
قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بُو پر،
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں۔
اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم،
مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں۔
تو شاہیں ہے، پرواز ہے کام تیرا،
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں۔
اسی روز و شب میں اُلجھ کر نہ رہ جا،
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں۔
گئے دن کہ تنہا تھا مَیں انجمن میں
یہاں اب مِرے رازداں اور بھی ہیں۔
یہ سچ ہے کہ سائنسی دریافتیں اور ایجادات ادب سے جنم لیتی ہیں کیونکہ مفکرین، شعراء اور ادباء اپنی تخلیقات میں نئی دنیاوں کے خواب دیکھتے ہیں اور اس کی اشکالات پیش کرتے ہیں جن کی تعبیر کو عملی شکل سائنس دان دیتے ہیں۔
شروڈنگر کے مطابق ایک دنیا وہ ہے جس میں اس کے بلی والے تجربے کی روشنی میں بلی مر جاتی ہے اور دوسری دنیا وہ ہے جس میں بلی پہلی دنیا میں مرنے کے باوجود زندہ رہتی ہے۔ اس تجربے کے تحت ہم جس دنیا میں ہوں گے ہمیں بلی وہیں نظر آئے گی اور دوسری دنیا ہماری نظروں سے اوجھل رہے گی کیونکہ ہم نے اس کی سپر پوزیشن Super Position کو تبدیل یا ختم کر دیا یعنی کولیپس Collapse کر دیا۔ وہ حقیقت جو ہر وقت، ہر کہیں، ہر جگہ تھی وہ ہمارے دیکھنے کی وجہ سے ہمارے لئے ایک وقت میں صرف ایک جگہ خود کو ظاہر کرنے لگتی ہے کہ اقبال کی زبان میں: “جہاں ہے تیرے لیئے تو نہیں جہاں کے لئے۔”
اگرچہ آئن سٹائن نے اس نظریئے کو کبھی قبول نہیں کیا تھا۔ ان کا دعوی تھا کہ، “حقیقت خارج میں ہم سے الگ وجود رکھتی ہے”۔ جبکہ کوانٹم سائنس کے ایک اور سائنس دان نیل بوہر کا کہنا تھا کہ، “حقیقت ایک لفظ ہے اور ہمیں سیکھنا ہو گا کہ اس لفظ کو استعمال کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟” نیل بوہر کا حقیقت کے بارے یہ خیال بھی تھا کہ،”حقیقت نامعلوم بھی ہے اور ناقابل معلوم بھی ہے۔” جبکہ مشہور سائنس دانوں سٹیفن ہاکنگ اور پین روز کے بلیک ہولز کے بارے نظریات اس سے بھی زیادہ چونکا دینے والے تھے۔ بلیک ہولز سے جو ریڈی ایشنز خارج ہوتی ہیں یا ان میں جن ورم ہولز کی پیش گوئی کی گئی ہے وہ نئے ستاروں اور نئی کائناتوں کی تخلیق کا باعث بنتے ہیں یا وہاں سے ہم دوسری متوازی کائناتوں Parralel Universes میں چھلانگ لگا سکتے ہیں مثلا ہندووں کے نظریہ تناکس یا آواگون عقیدے کے مطابق ہم اس کائنات میں مرنے کے بعد ان دوسری کائناتوں میں سے کسی ایک کائنات میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ اسی لئے جسم سے روح کے پرواز کرنے کو “انتقال” بھی کہا جاتا ہے یا پھر ہم نیا جسم حاصل کر کے اس دنیا میں دوبارہ واپس آ جاتے ہیں۔
گو کہ یہ سائنسی اور مذہبی نظریات محض زندگی کی حقیقت کو سمجھنے کے لیئے ہیں اور حقیقت اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے جس کے الہامی عقائد خصوصا دین اسلام میں زیادہ واضح پرتو نظر آتے ہیں۔
اگر علامہ اقبال جیسے عظیم مفکروں اور سائنس دانوں کے طبیعاتی نظریات کی صحت کو سچ مانا جائے تو حقیقت بطور حقیقت کوئی معانی ہی نہیں رکھتی ہے اور اسلامی روحانیت کو پڑھنے سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کائینات، کائینات سے بھی کسی بڑی اور عظیم ترین ہستی کی تخلیق ہے اور اس کا امر ہونا ایک یقینی اور سائنسی حقیقت ہے۔
ان سائنسی نظریات کی روشنی میں آئن سٹائن کا سپیشل ریلیٹوٹی کا یہ مفروضہ بھی خاک میں ملتا نظر آتا ہے کہ،” ہم روشنی کی رفتار سے سفر نہیں کر سکتے ہیں”۔ آئن سٹائن کے عہد میں کوانٹم سائنس نے ابھی تک زور نہیں پکڑا تھا۔ اب چھوٹے اجسام مثلا روشنی کے ذرات فوٹانز وغیرہ کو کوانٹم ٹیلی پورٹیشن Quantum Teleportation کے زریعے دور دراز منتقلی کا طریقہ دریافت ہو گیا ہے اور امید پیدا ہو گئی ہے کہ ایک دن کلاسیکل ٹیلیپورٹیشن Classical Teleportation سے بڑے مادی اجسام کو بھی لاکھوں، کروڑوں اور اربوں میل دور پلک جھپکنے میں نہ صرف اسی کائنات کے ستاروں پر منتقل کیا جا سکے گا بلکہ انہیں دوسری کائناتوں میں بھی دھکیلا جا سکے گا۔
بڑے اجسام مثلا خود انسان کو اس سفر کے لئے کسی جہاز یا راکٹ کی ضرورت نہیں پڑے گی اور وہ حرکت کئے بغیر اس کائنات یا کسی دوسری کائنات کے کسی حصے میں فورا اور بآسانی آ جا سکے گا. اس طریقہ سفر میں مادی اجسام کے پھیلنے، ٹوٹنے یا سکڑنے کا کوئ خطرہ بھی نہیں ہو گا کیونکہ کوانٹم ٹیلی پورٹیشن میں چیزوں کی منتقلی کا عمل کوئ سفر طے کئے بغیر پلک جھپکنے میں مکمل ہو جاتا ہے جس کی مثال قرآن عظیم کے “واقعہ تخت صبا” میں بھی اشارتا و تمثیلا بیان کی گئی ہے۔
آسمان کی وسعتوں میں رات کو چمکتے اجرام فلکی تک پہنچنا انسان کا ہزاروں سال پرانا خواب ہے۔ اس نوع کی ٹیلی پورٹیشن کا ذکر مذہبی اسطورہ Religious Myth، دیومالائ لوک داستانوں اور اسٹار ٹریک کی فلمی کہانیوں میں بھی ملتا ہے۔ شیکسپیئر کے ڈرامے The Tempest، اریبئن نائٹس اور حتی کہ یہودی تلمد Talmud میں بھی اس کا ذکر موجود ہے۔
میشئو کاکو Michio Kako کی مشہور زمانہ کتاب ناممکن کی طبیعات Physics of Impossible کا زیادہ حصہ اسی موضوع پر ہے۔ کاکو انسانی تاریخ کی سب سے پہلی منتقلی ایڈورڈ پیچ مچل Edward Page Mitchell کی کہانی کو قرار دیتا ہے جس میں ایک آدمی جسم کے بغیر The Man Without the Body ہوتا ہے۔ یہ کہانی پہلی بار 1877 میں چھپی تھی۔ حالانکہ انسانی تاریخ کی دور دراز کے ستاروں سے پہلی منتقلی بابا آدم علیہ السلام اور اماں ہوا کی ہے جو جنت یا عرش سے زمین پر منتقل ہوئے تھے۔ بقول اقبال:
باغ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں،
کارِ جہاں دراز ہے، اب مرا انتظار کر۔
روزِ حساب جب مرا پیش ہو دفترِ عمل،
آپ بھی شرمسار ہو، مجھ کو بھی شرمسار کر۔
زمین پر انسانی تہذیب کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق اور خاکی جسم کے ساتھ With a Material Body زمین پر ہجرت کے واقعہ سے ہوا۔ قرآن پاک میں تفصیل سے یہ قصہ بیان کیا گیا ہے۔ یوں بنی نوع انسان کو سیکھانے کے لئے ٹیلی پورٹیشن کا پہلا تجربہ خود خدا نے کیا جب جنت سے آدم کو زمین پر بھیجا۔
میشئو کاکو جس کتاب میں پہلی انسانی ٹیلی پورٹیشن کہانی کا ذکر کرتا ہے وہ 1877 عیسوی میں چھپی تھی جبکہ قرآن مجید اس سے بہت پہلے خلیفہ اول حضرت ابوبکر رضی اللہ کے دور میں 632 عیسوی میں مرتب ہوا تھا۔ جبکہ قرآن کا ایک قدیم ترین نسخہ انگلینڈ کی برمنگھم یونیورسٹی میں آج بھی محفوظ ہے جس کا ریڈیو کاربن ٹیسٹ کیا گیا تھا جس کے مطابق اسکی طباعت کی تاریخ اسلامی کیلینڈر کے لحاظ سے 56 بی ایچ اور 25 اے ایچ کے درمیان بتائ جاتی ہے۔
دنیا میں کوانٹم ٹیلی پورٹیشن کا پہلا اور دوسرا کامیاب تجربہ 2016 اور 2019 میں چینی اور آسٹریئن سائنس دانوں نے کیا۔ ان سائنس دانوں نے روبیڈیم ایٹموں کی شعاع میں موجود تمام اطلاعات کو لے کر روشنی کی شعاع میں بدلا اور پھر اس روشنی کی شعاع کو فائبر آپٹک تاروں سے فائر کر کے اور بغیر کسی دیگر مادی وسیلے کے زمین سے خلا میں 1400 کلومیٹر دور بھیجا جہاں وہ روشنی کی اس شعاع کے ایٹموں اور اسکے تمام اوصاف کو دوبارہ وجود دینے میں کامیاب ہو گئے۔ جبکہ اس سے قبل 2012 میں الائس Alice، چارلی Charlie اور باب Bob نے فوٹانز کو ٹینیریف Tenerife منتقل کر کے ٹیلی پورٹیشن کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔
یہ ناممکن کوانٹم طبیعات کے پہلے کامیاب تجربات تھے۔ اگرچہ اس سے قبل نیل بوہر اور آئن سٹائن کے درمیان تیز ترین مسافت کی بحثیں تو ہوتی رہی تھی اور دونوں سائنس دانوں نے اینٹینگلڈ پارٹیکلز کے وجود کو بھی تسلیم کر لیا تھا مگر نیل بوہر کے برعکس آئن سٹائن کی ضد تھی کہ کوئ بھی جسم روشنی کی رفتار سے سفر نہیں کر سکتا ہے۔
مذہبی سچائی جو ایک زوال شدہ قوم کی جہالت یا دقیانوسیت کی وجہ سے بظاہر ناممکن لگتی ہے وقت آنے پر حقیقت کا روپ دھار لیتی ہے۔ کسی قوم کا کتابی اور عملی تضاد ہمیشہ قائم نہیں رہتا۔ دنیا کا رخ کوانٹم مکینکس کے تجربات سے الہامی مذاہب کی طرف دوبارہ پلٹ رہا ہے۔
اسلامی معجزات دراصل ناممکنات کی ابدی سچائیاں ہیں جس سے پردہ اٹھانے کے لئے اب کوانٹم فزکس میدان میں اتری ہے۔ ایک وقت آئے گا جب انسان قوانین فزکس کو شکست دینے کے قابل ہو جائے گا۔ ٹیلی پورٹیشن کے ذریعے فکر اقبال کی روشنی میں ٹھوس چیزوں یا انسانوں کی دور دراز کے ستاروں پر منتقلی اور آمد و رفت انسانی تہذیب کے راستے اور اقوام کی منزل کو یکسر بدل دے گی۔ اس ٹیکنالوجی کی کامیابی سے کار، ریل گاڑی اور جہازوں کا استعمال صنعتی طریقے، اشیاء کی مارکیٹوں میں رسد اور کھپت، درس و تدریس، بینکنگ، کاروبار، کرنسی، سیاست اور صنعتت وغیرہ کے عہد حاضر کے سب طریقے متروک ہو جائیں گے۔
اس نینو ٹیکنالوجی کے ذریعے چیزوں کی حیرت انگیز الیکٹرانک کاپی کو کو دور دراز منتقل کر کے فوری طور پر دوبارہ اسمبل کر لیا جائے گا۔ سیر و سیاحت کے لئے زمینی مقامات کی بجائے ہم سیاحت کے لئے دوسرے ستاروں پر جایا کریں گے۔ چاند، مریخ، زحل اور پلوٹو سے آگے ستاروں پر اسی طرح لوگ سیر و سیاحت کو جائیں گے جیسے مری، ایبٹ آباد، بارسلونا یا سوئٹزرلینڈ وغیرہ جاتے ہیں:
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا ہے،
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی (اiقبال)۔
Title Image by Genty from Pixabay
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ “خبریں: اور “نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ “اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ “جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔