عاشق علی فیصل سے بات چیت

عاشق علی فیصل صاحب

انٹرویو بسلسلہ ادبی شخصیات فیصل آباد

انٹرویو کنندہ : مقبول ذکی مقبول ، بھکر پنجاب پاکستان
خاندانی نام عاشق علی ہے ۔ جو ان کے دادا جی جمال دین نے رکھا تھا ۔ جبکہ قلمی نام عاشق علی فیصل ہے ۔ 22 نومبر 1971ء کو لوہان بھرائیوالا تحصیل نارووال ضلع سیالکوٹ (اب ضلع نارووال) میں پیدا ہوئے جبکہ سرکاری کاغذات میں ان کی تاریخ پیدائش 2 فروری 1974ء درج ہے ۔ جسمانی طور پر کمزوری اور زبان کا توتلا پن اس کا باعث بنا ۔ جنگی حالات کے باعث انہیں اپنا گائوں چھوڑنا پڑا ۔ ان کے ابا جان سب کو لائل پور لے آئے جہاں وہ لال ملز میں ملازم تھے ۔ ملز کے کوارٹرز میں شفیع چوک کے قریب رہائش پذیر ہوئے ۔ 1982ء میں حالات نے ایک دفعہ پھر پلٹا کھایا ۔ اس بار نارووال واپسی کی بجائے ان کو فیصل آباد سے جانب مشرق 50 کلومیٹر دور اپنے ننھیالی گائوں 644 گ ب صوفی دی کوٹھی میں جا آباد ہوئے ۔ گائوں میں “احاطہ ءِ صوفیا میں رہائش پذیر ہوئے ۔
ان کی امی جان حفیظاں بی بی 7 فروری 1989ء کو اس فانی دُنیا سے رخصت ہوئیں ۔ ان کے چہلم والے دن ان کا دسویں کا پہلا پیپر تھا ۔ جو کہ اول سے لیکر ہر جماعت میں اول یا دوم درجہ میں پاس ہوتا رہا ، دسویں کے امتحان میں سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہوئے ۔ اس کے بعد ان کی تعلیم کا سلسلہ بے قاعدہ ہوگیا ۔

عاشق علی فیصل سے بات چیت


چند روز قبل ان سے ملاقات کرنے کا موقع ملا جو علمی و ادبی گفتگو ہوئی ہے وہ نذر قارئین ہے ۔
سوال : آپ نے تو ایم فل کیا ہوا ہے ۔ ؟
جواب : جی مقبول بھائی! اعلٰی تعلیم کا یہ سلسلہ 25 سالوں پر محیط ہے ۔ میں نے میٹرک کا امتحان 1989ء میں فیصل آباد بورڈ سے کیا ۔ لاہور بورڈ سے ایف اے 1993ء میں پاس کیا ۔ اس کے بعد تعلیمی سلسلہ پھر تاخیر کا شکار ہوگیا ۔
بی اے کا امتحان علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے 2010ء میں جب کہ ایم اے پنجابی 2013ء میں سرگودھا یونیورسٹی سے (810/1000)
نمبر لے کر پاس کیا اور
گولڈ میڈل حاصل کیا ۔ جب کہ ایم فل کے لئیے بھی اوپن یونیورسٹی ہی میرے لیئے مہربان بنی ۔ اسلام آباد آنے جانے کا کرایہ ، یونیورسٹی کی فیس اور ورکشاپس کے دنوں میں ہوسٹل کے اخراجات ۔ ذرائع آمدنی بہت محدود تھے ۔ مگر
اس اعلٰی تعلیم کے سفر میں میرے بچوں اور خصوصاً میری اہلیہ نے میرے حوصلے کو بلند کیا ۔
سوال : ذاتی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیں ۔ ؟
جواب : میری شادی 6 ستمبر 1996ء کو نرگس بی بی کے ساتھ ہوئی ۔ میرے سسرال جڑانوالہ شہر میں ہیں ۔ میری چھ بیٹیاں ہیں جبکہ ایک بیٹا محمد علی فیصل ہے ، جو سب سے چھوٹاہے ۔ میں غزالی سکول چک نمبر 30 گ ب جڑانوالہ میں میں 2009ء سے بطور معلم منسلک ہوں ۔
جبکہ اس کے علاوہ جامعہ مسجد گُلزارِ مدینہ 30 گ ب میں پچھلے 13 سال سے دین کی خدمت کر رہا ہوں ۔
سوال : آپ نے ادب کی راہ کیسے اختیار کی ۔؟
جواب : جب میں نے شعور کی آنکھ کھولی تو گھر میں وارث شاہ کی ہیر ، مولوی غلام رسول عالمپوری کی یوسف زلیخا ، دائم اقبال دائم کا” شاہنامہ کربلا “اور بہت سے پنجابی قصہ جات کے علاوہ منظوم دینی کتابیں اور قصے بھی پڑھنے کو ملے ۔ ادب کے ساتھ ساتھ دین کا فہم بھی ملا ۔ اسکول زمانے میں قلمی دوستی کا شوق پیدا ہوا ۔
پنجابی ڈرامہ نگار اور مزدور کسان پارٹی کے صدر میجر اسحاق محمد ، سلیم تواریخ “تاریخِ آرائیاں “کے مصنف اکبر علی صوفی کا تعلق بھی ہمارے گائوں سے تھا ۔ پنجابی سیوک حنیف شاکر (مسعود کھدر پوش ٹرسٹ والے) کی پنجابی زبان سے لگن نے بھی مجھے متاثر کیا ۔ 1990ء میں پہلی پنجابی غزل ماہنامہ” رویل “میں جب کہ پہلی پنجابی نظم ماہنامہ “لکھاری “میں شائع ہوئی ۔ گورنمنٹ کالج میں جڑانوالا میں پنجابی کے استاد پروفیسر ریاض شاہد صاحب کے توسط سے رفاقت حسین ، ممتاز صاحب کی شاگردی اختیار کی ۔ نثر میں چودھری الیاس گھمن صاحب اور ڈاکٹر جمیل پال صاحب نے میری رہنمائی کی ۔

books


سوال : آپ کا ادبی حوالہ ۔؟
جواب : شاعر ، ادیب ، کہانی کار ، کالم نگار ، ایڈیٹر اور مترجم
سوال : ادبی صحافت میں آپ کی خدمات ۔؟
جواب : مجھے بہت سے ادبی جرائد و رسائل میں کام کرنے کا موقع ملا ۔
سوال : آپ کی ادبی خدمات ۔؟
1: چیف ایڈیٹر پنجابی رسالا “کُوک” جڑانوالا (12 شمارے)
2: اسٹنٹ ایڈیٹر ماہنامہ “رویل” لاہور پنجابی
3: اسٹنٹ ایڈیٹر ماہنامہ “میٹی” لاہور (پنجابی بال رسالہ)
4: اسٹنٹ ایڈیٹر ماہنامہ “پکھیرو” لاہور (پنجابی بال رسالہ)
5: اسٹنٹ ایڈیٹر ہفت روزہ “صدائے عام” سیالکوٹ (اردو)
6: ایڈیٹر الغزالی ستیانہ فیصل آباد ( سکول میگزین)
سوال : آپ کی تصانیف ۔؟
جواب : بار بار کی ہجرت نے میری لائبریری کی سینکڑوں نایاب کتب کے ساتھ ساتھ میری شاعری کے مسودات بھی مجھ سے چھین لیئے ۔ میں شائع شدہ کتب کے نام بتائیے دیتا ہوں ۔
1 “لکیراں” 2018ء پنجابی نظم
2 “گُلزارِ مدحت ” 2022ء اردو نعت
3 ” پیرس دی پیاس” (التھا) سنتوکھ سنگھ سنتوکھ 1998ء
4 “ظُلم کہ انصاف” (اُلتھا) گردیپ سنگھ متھڈا 2008ء

5 ” گلزار ترگڑی” 2023ء (منقبت پیر پنجابی)
سوال : آپ اثر حاضر کے شعراء میں سے کس سے متاثر ہیں ۔؟ اور آپ کے پسندیدہ شعراء ۔؟
جواب : میں سبھی لکھنے والوں کو پسند کرتا ہوں ۔ میرے استاد محترم رفاقت حسین ممتاز پنجابی غزل نظم کے حوالے سے علیحدہ شناخت رکھتے ہیں ۔ سلطان کھاروی ۔ بشیر باوا ، غلام مصطفے بسمل ، خالد محمود عاصی ، واصف علی واصف ، اثر انصاری ، ریاض قادری اور محبوب سرمد کی شاعری سے متاثر ہوں ۔ اس کے علاوہ نقیبی کاروان ادب کے روحِ رواں غلام مصطفٰے آزاد نقیبی صاحب بھی میرے آئیڈیل ہیں ۔
سوال : آپ ایک پنجابی رسالہ ” کوک” کے نام سے نکالا کرتے تھے ۔ وہ کب تک چلا اور کیسے بند ہوا ۔؟
جواب : “کوک” رسالے کا اجراء میں نے 1994 میں کیا تھا ۔ اس کام کے لیئے میرے استاد مکرم ومحترم ڈاکٹر محمد ریاض شاہد صاحب کی ہلاشیری اور پنجابی و ادب کی ترقی اور ترویج کا جذبہ شاملِ حال تھا ۔ وقتاً فوقتاً اس کے 13 شمارے شائع کیئے ۔ “کوک” کا آخری شمارہ 2013 ء میں شائع ہوا ۔
سوال : ادبی زندگی اور مولانا والی زندگی تھوڑا اظہارِ خیال فرمائیں ۔؟
جواب : اللہ پاک کے فضل وکرم سے دونوں ساتھ ساتھ چل رہی ہیں ۔ مسجد نے مجھے ایک پہچان دی ۔ اور مصلٰے ءِ رسول نے مجھے نعت لکھنے کی سعادت بخشی ۔میں اپنی اس خوش بختی پہ نازاں ہوں ۔

تیرے فضل و کرم صدقہ میری ایہ ٹوہر ساری اے
مینوں تیرے مصلے دا سہارا یارسول اللہ

سوال : ادب میں پنجابی زبان اور اردو کو کیسا محسوس کرتے ہیں ۔؟
جواب: ادب تو دُنیا کی ہر زبان میں لکھا جاتا ہے ۔ مگر اپنی زبان میں لکھا ادب اور زیادہ خوبصورت لگتا ہے ۔ پنجابی میری مادری زبان ہے اس نے مجھے ایک شناخت دی ہے ۔ اردو ہماری قومی زبان ہے ۔ الحمد للہ میں نے دونوں زبانوں میں لکھا ہے ۔
سوال : آپ نے اپنی والدہ ماجدہ کی گود میں نعتیں سنا کرتے تھے ۔ اب آپ کے گھر میں بھی میلاد کی محفلیں سجتی ہیں ۔ اس پر آپ کیا کہیں گے ۔ ؟
جواب : یہ سب اللّٰہ پاک کی کرم نوازی ہے ۔ یہ تحفہ مجھے والدین کی طرف سے وراثت میں ملا ہے ۔ میری امی جان بہت درد اور سوز سے نعت پڑھا کرتیں تھیں ۔ نور نامے ، میلاد نامے ، معراج نامے ، شاہنامہ کربلا دائم اقبال دائم وہ مجھ سے شوق سے سنا کرتی تھیں ۔ اُن کی طرف سے ملی یہ انمُلی سوغات میں نے اللّٰہ کے فضل سے اپنے بچوں میں بھی بانٹ دی ہے ۔
سوال : آپ نے کن اصنافِ میں شاعری کو برتا ۔ ؟
میری کتاب “لکیراں” آزاد نظموں پر مشتمل تھی ۔ میری نعتیہ کتاب “گُلزارِ مدحت” غزل رنگ میں ہے ۔ اس کے علاوہ میں نے غزل ، نظم اور گیت وغیرہ میں بھی طبع آزمائی کی ہے ۔
سوال : اپنا نمائندہ کلام عنایت کریں ۔؟
جواب : اپنی کتاب “لکیراں” سے ایک نظم سنائے دیتا ہوں ۔ نظم کا عنوان ہے
لکیراں
لکیراں ماردے پئے ہاں
تے بُتا ساردے پئے آں
آساڈے راہ لکیراں نیں
آساڈے ساہ لکیراں نیں
آساڈے کم لکیراں نیں
آساڈے دم لکیراں نیں
آساڈے دُکھ پئے روندے نیں
آساڈے غم لکیراں نیں
ایہ ڈنگر چاردے پئے ہاں
لکیراں ماردے پئے ہاں
تے بُتا ساردے پئے آں

میرے جہیا مسافر شال جگ تے کوئی نہ تھیوے
اپنے گھر دے وچ وی فیصل پھراں گواچا ہویا

بھلا کیہ کر لیا اے
بھلا کیہ کر گیا واں
میں جین چاہ رہیا ساں
میں تاہیوں مر گیا واں

سوال : آپ کی شاعری کا موضوع کیا ہے ۔؟
جواب : میں نے بچوں کے لیئے بھی لکھا ہے اور بڑوں کے لیئے بھی شاعری کی ہے ۔ عشق محبت پیار ہجر وصال کے علاوہ میں نے اپنے لوگوں کی بات کی ہے ۔ اخلاق و اقدار کی بات کی ہے ۔
سوال : آپ قاری کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ۔؟
جواب : میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے ۔ ادب ہی زندگی ہےں۔ آج ہم نفرتوں کے خریدار بن چُکے ہیں ۔ پیار محبت عقیدت ادب احترام ہماری زندگیوں سے روٹھ چُکے ہیں ۔ بطور مسلم ہمیں اپنے پیارے نبی کی تعلیمات کو اپنانے کی ضرورت ہے ۔

maqbool

مقبول ذکی مقبول

بھکر، پنجاب، پاکستان

تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

پروفیسر ارشد اور وادیء تحقیق و تنقید

بدھ فروری 15 , 2023
خاندانی نام محمد ارشد قادری ہے جب کہ ادبی نام ارشد حسان ہے ۔ 09 اگست 1988ء کو میاں محمد انور شاہ کے گھر ٹھٹھی شریف میانوالی میں پیدا ہوۓ ۔
پروفیسر ارشد اور وادیء تحقیق و تنقید

مزید دلچسپ تحریریں