سربراہ کانفرنس کا متضاد بیانیہ
دوحہ مسلم سربراہی کانفرنس اپنے اختتام کو پہنچی۔ اجلاس میں عزت مآب سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، ترک صدر رجب طیب اردوان، پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف، ایرانی صدر مسعود پزشکیاں اور دیگر نے شرکت کی۔ اجلاس کے اختتامی مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ قطر کے ثالثی عمل پر حملہ اور گریٹر اسرائیل کا ایجنڈا عالمی امن کوششوں پر حملہ ہے۔ قطر کی خود مختاری اور دفاع کے لیے مکمل حمایت کا اظہار کیا گیا اور قطر پر بزدلانہ اور غیر قانونی حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی۔
اسلامی دنیا کی اس ہنگامی کانفرنس میں نیٹو کی طرز پر "اسلامک ٹاسک فورس” کے قیام کی تجویز بھی سامنے آئی مگر اس کا عملی اطلاق اپنے آغاز ہی میں ایک خواب اور فسانہ دکھائی دیا۔ اول اسرائیل کے حملے کے فورا بعد امریکہ سے رجوع کرنے ہی سے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ قطر اسرائیل پر واپس حملہ کرنے کی بجائے قطر کو دوبارہ حملہ کرنے سے روکنے اور غزہ میں جنگ بندی رکوانے کے لیئے مذاکرات کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ اس میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پاکستان کی رائے بھی شامل تھی کیونکہ ان کے سربراہان نے اسرائیلی حملے کے فورا بعد قطر کا دورہ کیا تھا اور بظاہر اسی ایجنڈے پر کام کرنے کو حتمی شکل دی تھی۔
سربراہی اجلاس میں اس سوال پر قطعا غور کیا گیا اور نہ ہی اس کا کوئی لائحہ عمل طے کیا گیا کہ عرب اور مسلم دنیا ایک ساتھ کھڑی بھی ہے یا نہیں؟ قطر پر اسرائیلی حملے کے ایک ہفتہ بعد دوحہ میں عرب لیگ اور دیگر اسلامی ممالک کا یہ مشترکہ اجلاس منعقد ہوا۔ لیکن کیا یہ حسن اتفاق ہے کہ یہ اجلاس اس دن طلب کیا گیا جو "ابراہم ایکارڈ” کے دستخط کی پانچویں سالگرہ کا دن تھا۔ یہ وہی معاہدہ ہے جو 2021ء میں ہوا تھا جس کے نتیجے میں اسرائیل اور عرب ممالک نے معمول کے تعلقات قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس وقت بھی یہ سربراہی اجلاس تب ہوا ہے جب مشرق وسطیٰ کے اسلامی ممالک اور اسرائیل کے درمیان سیاسی تناؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ اسرائیل کی غزہ میں جنگی تباہی پھیلاتے ہوئے 3 سال ہونے جا رہے ہیں۔ اسلامک ٹاسک فورس اگر قائم ہو بھی گئی تو اس کی کسی شق میں فلسطین کی آزادی کے لیئے اسرائیل سے جنگ کرنا شامل نہیں بلکہ اس کا بنیادی مقصود ممبران ممالک پر اسرائیلی حملے کے خلاف دفاع کرنا شامل ہے تاکہ کسی ایک ملک پر اسرائیلی حملہ دیگر ممبران ممالک پر حملہ متصور کیا جا سکے، حالانکہ اسرائیل خطے کے دیگر ممالک پر پہلے ہی حملوں اور وہاں تباہ کاریاں پھیلانے کا مرتکب رہا ہے جس میں لبنان، ایران، یمن اور شام پر حملے شامل ہیں۔
یہاں تک کہ اسرائیل نے گذشتہ ہفتے قطر پر بھی بے دھڑک حملہ کیا جو غزہ جنگ کے خاتمے کی کوششوں کے لیے ثالثی کا کردار ادا کر رہا تھا۔ اس کے باوجود قطر سمیت سربراہی اجلاس میں اسرائیلی حملے کے باوجود دوحہ نے غزہ جنگ کو روکنے کے لیے قاہرہ اور واشنگٹن کے ساتھ اپنی کوششیں جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔ اس کا اعادہ قطر کے وزیرِ اعظم عزت مآب شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے دوحہ میں عرب اور اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے بند کمرے کے اجلاس کے دوران بھی کیا اور اجلاس میں بھی اس پر زور دیا، اور بین الاقوامی برادری سے بھی کہا کہ وہ اپنا "دوہرا معیار” ترک کریں۔
اس کانفرنس میں "مشترکہ عرب فورس” کے قیام اور لائحہ میں شامل بنیادی چیز خطے میں اسرائیلی منصوبہ بندی کی نگرانی اور اس کے توسیع پسندانہ منصوبوں کی مؤثر روک تھام کے لیے ہم آہنگ اقدامات اٹھانا ہیں مگر اجلاس میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے اور عرب و اسلامی ممالک سے اسرائیلی سفیروں کو بے دخل کرنے کا عملی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ کیا حماس کے اس مطالبے پر عمل ہو گا کہ تمام مسلم ممالک اسرائیل کا بائیکاٹ کریں اور اسے سیاسی اور اقتصادی طور پر تنہا کرنے کے لیے کام کریں۔ کانفرنس کے روز حماس کی جانب سے جاری ایک میمورنڈم میں غزہ، مغربی کنارے اور یروشلم میں اسرائیلی "جارحیت اور فلسطینیوں کی نسل کشی کو روکنے” اور اسرائیلی رہنماؤں کے خلاف بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمہ چلانے کے لیے دباؤ ڈالنے کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔ حماس کے رہنما عزت الرشق نے دوحہ سربراہی اجلاس کے شرکا پر زور دیا تھا کہ وہ غزہ میں نسل کشی اور مغربی کنارے، یروشلم، لبنان، شام، یمن، تیونس اور قطر میں صیہونی قبضے کے جرائم کو روکنے کے لیے تاریخی اتفاق رائے کا اظہار کریں۔
لیکن اجلاس کے مجموعی اقدامات کو ایسی کوئی حتمی و عملی شکل نہیں دی گئی کہ جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ اسرائیل اور امریکہ کو ان کی زبان میں عرب یا دیگر مسلم حکومتیں مل کر جواب دے سکتی ہیں۔
ایسی سربراہی کانفرنس سے بہتر تو اقوام متحدہ کا "نیو یارک ڈیکلریشن” تھا، جس کے ذریعے دو ریاستی حل پر اکثریتی ووٹ سے اتفاق کیا گیا تھا۔ البتہ اس قراد سے حماس کو نکال دیا گیا تھا یا شامل ہی نہیں کیا تھا۔ اس کے بدلے میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کو اہمیت دی گئی۔ البتہ یہ قرار داد جو 142 ووٹوں کی اکثریت سے منظور ہوئی، چند ماہ قبل فرانس اور سعودی عرب کی مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے منعقد کی گئی انٹرنیشنل کانفرنس کی قرادداد کا اعادہ ضرور تھی۔ جنرل اسمبلی کی قرار داد میں اسرائیل اور امریکہ سمیت 10 ممالک نے قراد داد کی مخالفت میں ووٹ ڈالے تھے جن میں ارجنٹائن، ہنگری، پیراگوئے، نیرو، مائیکرونیشیا، پاولو، پاپو نیوگوانیا اور ٹانگو سرفہرست ہیں، جبکہ اپنا ووٹ کاسٹ نہ کرنے والوں میں چیک رپبلک، کیمرون، گانگو، آکواڈور، ایتھوپیا، البانیہ، فجی، گرانتا مالا، ساموعہ، نارتھ میسوڈونیا، مالڈووا اور ساوتھ سوڈان شامل تھے۔ جبکہ اسلامی سربراہوں نے جو قرار داد منظور کی اس میں بھی "حماس” کو شامل کرنے کی ہمت نہیں دکھائی گئی۔
فلسطین کے نائب صدر اور پی ایل او کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر حسین الشیخ نے جنرل اسمبلی قرارداد کی تعریف کرتے ہوئے وضاحت کی تھی کہ اگرچہ یہ قرار مکمل نہیں مگر اسے ایک اچھی پیش رفت کہا جا سکتا ہے، کیونکہ اس سے 1967 کی سرحدوں کے مطابق دو ریاستی حل میں فلسطینی ریاست کے قیام کی کوئی صورت نکل سکتی ہے۔ لیکن سربراہی کانفرنس میں اس کے مطابق فلسطینی ریاست کے قیام کو ڈسکس کرنے کا کوئی ایجنڈا تھا اور نہ ہی اس کے اختتامی اعلامیہ میں اس کا کوئی ذکر شامل کیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کی قرارداد کے فورا بعد برطانیہ اور فرانس سمیت کئی مغربی ممالک نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اشارے دیئے تھے جس سے اسرائیل کو سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اقوام عالم کی اس قرارداد کو اسرائیلی وزیراعظم نے رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ، "فلسطینی ریاست قائم نہیں ہو گی۔”، بلکہ نیتن یاہو نے ویسٹ بنک میں اسرائیلی آباد کاری کو تیز کرنے کے احکامات جاری کیئے تھے۔
یوں دیکھا جائے تو دوحہ اسلامی سربراہی کانفرنس جہاں متضاد مذمتی بیانات سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے وہاں اس سے اسرائیل اور امریکہ پر مسلم دنیا کی کمزوریاں اور ان کا کھوکھلا پن واضح ہوا ہے۔ ایک ہوتا ہے بھرم ہم مسلم دنیا عزت و وقار کے ساتھ وہ بھی نہیں رکھ پا رہے ہیں۔
اس سے بہتر مسلم لیڈران ایک حقیقت پسندانہ لائحہ عمل یہ طے کر سکتے تھے کہ وہ اس خلا کو پر کریں اور ان شعبوں کو بہتر بنانے کی تجاویز پر بحث کریں کہ جن کے ہوتے ہوئے اسرائیل کو بلا خوف و تردد قطر پر حملہ کرنے کا موقعہ ملا۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |