میرا کالج: ٹھیریاں آزاد کشمیر
ایمن معروف
کالج انگریزی زبان کا لفظ ہے اور اردو میں اس کے معنی ” مدرسہ ” کے ہیں ۔ ہر مدرسے کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے کہ فرد کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا جائے اور معاشرت کے ڈھنگ سکھائے جائیں۔
یہ ایک ایسا ادارہ ہے جہاں بچوں کو علم و تہذیب، اخلاق، نظم و ضبط اور معاشرتی رویوں کی تعلیم دی جاتی ہے۔ تا کہ وہ ایک اچھے شہری اور نیک انسان بن سکیں۔
میرا کالج ٹھیریاں گاؤں میں واقع ہے۔ جس کا نام گورنمنٹ بوائز انٹر کالج ہے ۔ اس کالج کے پرنسپل پروفیسرراجا تنویر احمد خان ہیں۔ ان ہی کی کوششوں سے 2018ء میں اس کو کالج کا درجہ ملا۔ پہلے یہ ہائی سکول ہوا کرتا تھا ۔ گاؤں کے لوگوں کی سہولت کے لیے عدالتی فیصلے کے بعد اس کو کالج بنا دیا گیا۔
میرے کالج کی عمارت نہیں بنی ہوئی ابھی اس کے لیے جگہ خریدی گئی ہے۔ جو خستہ حال عمارت ہے اس میں ایک ہال ہے اور پانچ کمرے ہیں۔ ایک پرنسپل آفس ہے۔ اسی میں اساتذہ کے لیے آرام دہ کرسیاں رکھی ہوئی ہیں جہاں فارغ اوقات میں بیٹھتے ہیں۔ کالج میں ایک لائبریری، کمپیوٹر لیب اور لیبارٹری بھی ہے لیکن چوں کہ عمارت نہیں اس وجہ سے یہ مکمل فعال نہیں ۔ کالج کے آگے ایک باغ ہے ، جس میں طرح طرح کے درخت، پودے ، پھل اور پھول لگائے گئے ہیں۔ ہمارے کالج میں کھیلنے کے لیے میدان بھی ہے جہاں کالج کے طلبہ کرکٹ اور دیگر کھیل کھیلتے ہیں۔ میرے کالج میں بیس اساتذہ ہیں۔ تمام اساتذہ میرے پسندیدہ ہیں۔ جن میں سے چند ایک کا ذکر کروں گی ۔ سب سے پہلے ساجد اقبال رشی میرے پسندیدہ سر ہیں جو فزکس کے ایڈہاک لیکچرار ہیں ۔بہت ہی اچھا پڑھانے والے، ہر چیز ایسے سمجھاتے تھے جو فورا سمجھ میں آ جاتی تھی ۔ پھر پروفیسر سفیر حسین بھٹی صاحب ریاضی کے لیکچرار ہیں۔آپ پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ بھٹی صاحب میرے پسندیدہ سر ہیں بہت ہی محنتی استاد جنھوں نے ہمارے ساتھ بہت محنت کی۔ پھر پروفیسر فاروق صاحب، جو انگریزی کے ایڈہاک لیکچرار ہیں۔ میرے پسندیدہ سر جنھوں نے ہمارے لیے سب کے لیے بہت کچھ کیا ۔کالج کے ہر کام میں پرنسپل صاحب کے شانہ بہ شانہ کھڑے رہے۔ پھر پروفیسر طارق بخاری صاحب میرے پسندیدہ اساتذہ میں شامل ہیں ۔مطالعہ پاکستان کے لیکچرار ہیں۔ انھوں نے ہمیں بہت کم عرصہ پڑھایا لیکن بہت اچھا پڑھایا۔ پھر ڈاکٹر جواد رشید اعوان صاحب جو کمپیوٹر کے لیکچرار ہیں۔ جواد صاحب نے کمپیوٹر سائنسز میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔ ہمارے ساتھ بہت محنت کی۔بہت محنتی سر ہیں۔ پھر جماعت یاز دہم میں ہمارے اردو کے لیکچرار عاقب شہزاد تھے میرے پسندیدہ سر تھے ۔جنھوں نے ہمیں بہت کچھ سکھایا۔ان کے اس کالج سے جانے کے بعد سب افسردہ تھے۔لیکن ہمیں کیا معلوم تھا کہ سر عاقب کے جانے کے بعد اللہ پاک ہمیں ایسی شخصیت سے نوازے گا جو ہمارے لیے بہت ہی قابلِ عزت اور قابلِ احترام ہوں گے ۔ جنھوں نے آتے ہی کالج میں بہت سی تبدیلیاں کیں۔پہلی مرتبہ کالج کا پراسپیکٹس چھاپا اور کالج لوگو تیار کیا۔ساتھ ہی کالج میگزین پر بھی کام شروع کیا۔ انھوں نے ہمیں اردو میں وہ کچھ سکھایا جو ہم نے پہلے کبھی نہیں سیکھا تھا اور وہ معروف شخصیت لیکچرر اردو ڈاکٹر فرہاد احمد فگار ہیں۔ آپ کئی کتب کے مصنف بھی ہیں۔فگار صاحب میرے پسندیدہ سر ہیں۔ میرے لیے میرے سب اساتذہ قابلِ فخر ہیں۔ اللہ پاک سب کو سدا خوش رکھے۔
ہمارے کالج میں بہت اچھی پڑھائی ہوتی ہے۔ تمام اساتذہ بچوں کے ساتھ بہت محنت کرتے ہیں اور محبت سے پیش آتے ہیں۔ کالج میں بچوں کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ ان کی تفریح کا بھی خیال رکھتے ہیں۔
ہمارے پرنسپل صاحب جو نہایت ہی محنتی اور عظیم انسان ہیں ۔جنھوں نے اس کالج کو بہتر بنانے کے لیے بہت جدوجہد کی ۔جنھوں نے خود بھی اس کالج سے ( جب یہ ہائی اسکول تھا ) سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ اب اسی کالج میں فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور بیماری کے باوجود اس کالج کی بہتری اور اس کی ترقی کے لیے دن رات محنت کر رہے ہیں۔ ہمارے کالج کی عمارتیں نہیں بنی ہوئی، بہت سے ملحقہ علاقے جیسے کہ بنیہ، نڑاں، چمن کوٹلی اور اردگرد کے تمام علاقوں سے بچے تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔ کالج کی جو عمارت بنی ہوئی ہے اسے کالج کے اسٹاف ، گاؤں کے لوگوں اور کالج کے طلبہ نے مل کر اپنی مدد آپ تحت بنایا۔
کسی بھی کالج کی عمارتیں خواہ کتنی ہی شان دار کیوں نہ ہوں اس کی کام یابی کا اپنا معیار ہوتا ہے کہ وہاں تدریس کا کیا حال ہے اور وہاں کا نظم و ضبط کیا ہے۔
ان باتوں کا عمدہ معیار اساتذہ پر ہوتا ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ میرا کالج ان دونوں اعتبار سے مثالی ہے۔
میرے کالج کا ماحول صاف، پرسکون اور سیکھنے کے لیے بہت موزوں ہے۔ اس کالج میں دور دور سے بچے پڑھنے کے لیے آتے ہیں۔ہمارے کالج میں ہر سال تقریری مقابلے، نعت خوانی، کھیلوں کے مقابلے منعقد ہوتے ہیں۔
مجھے اپنے کالج سے بہت محبت تھی اور ہمیشہ رہے گی۔ کیوں کہ اس نے مجھے علم ،ادب اور عزت دی ۔
مجھے اس بات کا احساس ہے کہ میں نے اپنے کالج کا جو حال لکھا ہے وہ ایک عام آدمی کے لیے ضرور حیرت انگیز ہو سکتا ہےکیوں کہ گاؤں میں شہروں کی نسبت زیادہ سہولیات میسر نہیں ہوتی اور ہمارے کالج میں بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔گاؤں میں ہونے کی وجہ سے زیادہ سہولیات میسر نہیں لیکن امید ہے کہ کچھ ہی عرصے میں یہاں کے پرنسپل صاحب اور اساتذہ کرام کی کوششوں سے ہمارا کالج ضرور ترقی کرے گا۔ محنت کبھی ضائع نہیں ہوتی ایک دن ضرور رنگ لاتی ہے۔
میری دعا ہے کہ میرا کالج ترقی کرے اور یہاں سے نکلنے والے طلبہ ملک و ملت کا نام روشن کریں۔۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |