مال کے بدلے مال کی تجارت
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
پاکستان میں معاشی خودمختاری، زرمبادلہ کی بچت اور سودی نظام سے نجات جیسے بنیادی اہداف کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے دو سال قبل، یکم جون کو نگران حکومت کے دور میں ایک نہایت اہم فیصلہ کیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ روس، ایران اور افغانستان کے ساتھ کرنسی کے بجائے مال کے بدلے مال کی تجارت (بارٹر ٹریڈ) کے آغاز کا تھا۔ یہ اقدام بین الاقوامی معاشی دباؤ، کرنسی کی کمی اور مغربی معاشی نظام کی اجارہ داری کے خلاف ایک متبادل راہ متعین کرنے کے مترادف تھا، جسے اُس وقت ماہرین معاشیات نے خوش آئند قرار دیا۔
دنیا کی تاریخ میں بارٹر سسٹم کوئی نیا تصور نہیں۔ قدیم دور میں جب کرنسی کا وجود نہ تھا تو اشیاء کے تبادلے کے ذریعے ہی تجارت کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ اسلامی تاریخ کے ابتدائی ادوار میں بھی مدینہ کی منڈیوں میں بارٹر ٹریڈ کا عملی رواج موجود تھا جس میں کرنسی کی بجائے اجناس، مویشی، لباس اور ہنر کے بدلے دیگر اشیاء حاصل کی جاتیں۔
جدید دور میں معاشی بحرانوں کے دوران کئی ممالک نے بارٹر ٹریڈ کو اپنایا۔ خاص طور پر مہاتیر محمد نے ملائیشیا کو 1997 کے ایشیائی مالیاتی بحران سے نکالنے کے لیے بارٹر معاہدوں کا سہارا لیا اور سودی نظام سے اپنے ملک کو بڑی حد تک محفوظ رکھا۔ اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان نے بھی روس، ایران، اور افغانستان جیسے قریبی ممالک کے ساتھ 2023 میں یہ قدم اٹھایا، جو علاقائی تجارت اور کرنسی کے عدم استحکام کے تناظر میں قابلِ تحسین تھا۔
ابتدائی دو برسوں میں بارٹر سسٹم سے وہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے جن کی توقع تھی۔ اس کی بڑی وجوہات میں کئی عوامل شامل تھے جن میں سرفہرست قانونی نقائص تھے۔ سابقہ پالیسی میں اشیاء کی محدود فہرست دی گئی تھی جو بارٹر کی نوعیت کے منافی تھی۔
دوسری بڑی وجہ بین الوزارتی ہم آہنگی کی کمی تھی۔ وزارت تجارت، ایف بی آر، اور اسٹیٹ بینک کے درمیان مربوط لائحہ عمل کی عدم موجودگی۔
تیسری بڑی وجہ بے جا تقاضےتھے۔ مشن کی جانب سے تصدیق کا لازمی ہونا، امپورٹ فرسٹ کی شرط، اور دیگر پیچیدہ تقاضے عمل درآمد میں رکاوٹ بنے۔
ان خامیوں کی موجودگی نے اس انقلابی نظام کو روایتی بیوروکریٹک چکر میں الجھا دیا، جس کا نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلا۔
ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت نے بارٹر سسٹم کو کامیاب بنانے کیلئے اب چار بنیادی اصلاحات کی منظوری دی ہے جن میں سرفہرست اشیاء کی فہرست کی پابندی ختم کی گئی ہے۔ اب مخصوص مصنوعات کی بجائے امپورٹ اور ایکسپورٹ آرڈر پالیسی کے تحت وسیع تر اشیاء کا تبادلہ ممکن ہوگا۔
مشن کی تصدیق کا خاتمہ کیا گیا ہے۔ اس سے وقت اور وسائل کی بچت ممکن ہوگی اور غیر ضروری سرخ فیتے کا خاتمہ ہوگا۔
حلف نامہ کی شرط ختم کی گئی ہے۔ سادہ دستاویزی کارروائی سے عمل میں آسانی پیدا ہوگی۔ اور کنسورشیم ماڈل کی منظوری دی گئی ہے۔ اب کمپنیوں کا مشترکہ اتحاد (Consortium) بارٹر ٹریڈ کے تحت معاملات چلا سکے گا، جو B2B نظام سے زیادہ شفاف اور بااعتماد ہوگا۔
ان اصلاحات کے نتیجے میں پاکستان کو درج ذیل فوائد حاصل ہونے کی توقع ہے جن میں سرفہرست زرمبادلہ کی بچت ہے۔ ڈالر یا دیگر کرنسیوں پر انحصار کم ہوگا۔ سودی نظام سے آزادی ملے گی۔ بینکوں کے بغیر لین دین ممکن ہونے سے اسلامی معاشی اصولوں کی مطابقت بڑھے گی۔ مقامی صنعتوں کو فروغ ملے گا۔ اشیاء کے بدلے اشیاء کے لین دین سے مقامی پیداوار کی مانگ بڑھے گی اور علاقائی تجارت کو فروغ ملے گا۔ قریبی ممالک کے ساتھ مضبوط تجارتی روابط قائم ہوں گے جو مغرب پر انحصار کم کریں گے۔
ان تینوں ممالک کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کا فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ سب ممالک کسی نہ کسی طور پر مغربی معاشی پابندیوں یا غیر یقینی حالات کا شکار رہے ہیں۔ کرنسی کے بجائے مال کے بدلے تجارت ان کے لیے بھی سودمند ہے۔ ایران اور روس کے ساتھ توانائی، پیٹرولیم مصنوعات، گندم، کیمیکل اور افغانستان کے ساتھ خشک میوہ جات، قالین، جڑی بوٹیاں جیسی اشیاء کی تجارت ممکن ہے۔
تاہم چند خدشات بھی اپنی جگہ موجود ہیں جن میں سرفہرست شفافیت کی کمی کا امکان ہے۔ بارٹر ٹریڈ میں مالیاتی دستاویزات نہ ہونے سے کرپشن کا اندیشہ بڑھ سکتا ہے۔مارکیٹ ریٹ کے برعکس لین دین کی صورت میں نقصان ہو سکتا ہے۔ وزارت تجارت، ایف بی آر اور دیگر متعلقہ اداروں کی اہلیت اور کارکردگی اس منصوبے کی کامیابی کے لیے فیصلہ کن ہوگی۔
بارٹر ٹریڈ سسٹم پاکستان کے لیے معاشی خودمختاری کی جانب ایک اہم قدم ہے، بشرطیکہ اسے سنجیدگی، شفافیت اور پائیدار پالیسیوں کے تحت نافذ کیا جائے۔ حکومت نے جو حالیہ اصلاحات متعارف کرائی ہیں وہ قابلِ تحسین ہیں اور اگر انہیں مکمل عمل درآمد کے ساتھ لاگو کیا گیا تو یہ نظام نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی رول ماڈل بن سکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سرمایہ دارانہ جکڑبندیوں سے نکل کر خود انحصاری اور انصاف پر مبنی معیشت کی طرف بڑھیں،بارٹر ٹریڈ اس سمت ایک مضبوط قدم ہو سکتا ہے۔
Title Image by günter from Pixabay
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |