سپریم کورٹ کا فیصلہ: کے پی میں سیاسی تبدیلی کا امکان
ڈاکٹڑ رحمت عزیز خان چترالی
پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں مخصوص نشستوں کا تصور آئینِ پاکستان 1973 میں خواتین اور اقلیتوں کی نمائندگی کو یقینی بنانے کے لیے متعارف کروایا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس نظام میں کئی آئینی ترامیم ہوئیں، جن کا مقصد جمہوری اداروں کو تقویت دینا اور معاشرتی و صنفی ہم آہنگی کو فروغ دینا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں خواتین کی مخصوص نشستوں میں اضافہ کیا گیا، جبکہ اقلیتوں کی نشستیں مختلف حکومتوں کی سیاسی حکمت عملیوں کے تحت تقسیم ہوتی رہیں۔
یہ نشستیں ہمیشہ سیاسی جماعتوں کے لیے ایک اسٹریٹیجک اثاثہ رہی ہیں، کیونکہ ان کی تقسیم براہِ راست منتخب ارکان کی تعداد کے مطابق کی جاتی ہے۔ تاہم 2024 کے انتخابات کے بعد وجود میں آنے والے سیاسی بحران، آزاد حیثیت کے دعویدار ارکان، اور پی ٹی آئی کے سنی اتحاد کونسل کے ساتھ الحاق نے صورتحال کو خاصا پیچیدہ بنا دیا۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 2023 کے اپنے ہی فیصلے کو کالعدم قرار دے کر ایک نئی سیاسی و آئینی نظیر قائم کی ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے پشاور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو بحال کر دیا ہے جس کے تحت سنی اتحاد کونسل (جو کہ پی ٹی آئی کی سیاسی چھتری تصور کی جاتی تھی) کو مخصوص نشستوں کا اہل نہیں مانا گیا تھا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں ملک بھر میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کی 77 مخصوص نشستیں بحال ہو گئی ہیں، جن میں سے صرف خیبر پختونخوا اسمبلی میں 21 خواتین اور 4 اقلیتوں کی نشستیں شامل ہیں۔
یہ فیصلہ صوبہ خیبر پختونخوا کی سیاسی بساط پر ایک واضح تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے۔ پہلے ہی سے تقسیم شدہ اسمبلی میں اپوزیشن کی مجموعی تعداد 27 تھی، لیکن مخصوص نشستوں کے بحال ہونے سے یہ تعداد 52 ہو گئی ہے، جو حکومتی جماعت پی ٹی آئی (58 ارکان) کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ اگر 35 آزاد ارکان اپوزیشن کے ساتھ شامل ہو جائیں، تو وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی حکومت عملاً اقلیت میں آ سکتی ہے۔
یہ وہی اپوزیشن ہے جس میں مسلم لیگ ن، جے یو آئی (ف)، پیپلز پارٹی، اے این پی اور دیگر جماعتیں شامل ہیں۔ ن لیگ اور جے یو آئی (ف) کو خواتین کی 7، 7 نشستیں ملی ہیں، جبکہ پیپلز پارٹی کو 4، اور اے این پی و پی ٹی آئی پارلیمنٹریز کو ایک ایک نشست ملی ہے۔ اقلیتوں کی 4 نشستوں میں ن لیگ اور جے یو آئی (ف) کو 2، 2 نشستیں دی گئی ہیں۔ یوں عددی لحاظ سے اپوزیشن اب پہلے سے کہیں زیادہ منظم اور طاقتور ہو گئی ہے۔
یہ صورتِ حال ایک اہم سیاسی سوال کو جنم دیتی ہے وہ یہ کہ کیا مخصوص نشستوں پر آنے والے ارکان عوامی مینڈیٹ کے ترجمان ہو سکتے ہیں؟ کیا وہ عددی اکثریت کا توازن بدل کر پارلیمانی جمہوریت کے بنیادی اصولوں کو متاثر نہیں کرتے؟ ان سوالات کا جواب آئینی تشریح، سیاسی اخلاقیات، اور جمہوری روایات میں مضمر ہے۔
بعض حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مخصوص نشستوں پر آنے والے ارکان دراصل جماعتی مفاد کو آگے بڑھاتے ہیں نہ کہ قومی یا عوامی مفاد کو۔ لیکن اس فیصلے سے کم از کم یہ واضح ہو گیا ہے کہ عدلیہ اب پارلیمانی کارروائیوں میں بھی سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن، اتحاد اور علیحدگی کو آئینی اصولوں کے مطابق جانچنے لگی ہے۔
اس عدالتی فیصلے کے بعد آئندہ چند مہینے خیبر پختونخوا کی سیاست میں شدید ہلچل کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں۔ اگر اپوزیشن عددی لحاظ سے متحد ہو جاتی ہے، تو وزیراعلیٰ گنڈاپور کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کی جا سکتی ہے۔ تاہم، آزاد حیثیت رکھنے والے 35 ارکان کا کردار فیصلہ کن ہو گا۔ اگر وہ اپنی وفاداری حکومت کے ساتھ رکھتے ہیں تو پی ٹی آئی بچ نکلے گی، بصورتِ دیگر حکومت کی بساط الٹ سکتی ہے۔
اسی طرح قومی سطح پر بھی ن لیگ اور جے یو آئی کو فائدہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں وفاق میں ان کی پوزیشن مزید مستحکم ہو گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کو بھی سندھ اور مرکز میں تقویت ملی ہے۔ پی ٹی آئی، جو پہلے ہی سیاسی تنہائی کا شکار ہے، اب مزید دباؤ میں آ سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ نہ صرف مخصوص نشستوں کی قانونی حیثیت کو واضح کرتا ہے بلکہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ اب سیاسی جماعتوں کے اتحاد، رجسٹریشن اور ان کے مینڈیٹ کے آئینی دائرہ کار پر گہری نظر رکھتی ہے۔ خیبر پختونخوا میں اس فیصلے سے اپوزیشن کو نئی زندگی ملی ہے اور حکومت کے لیے سیاسی خطرات بڑھ گئے ہیں۔
آنے والے دنوں میں یہ فیصلہ نہ صرف حکومتوں کی تبدیلی بلکہ پارلیمانی اخلاقیات کے نئے مباحث کو بھی جنم دے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں عددی اکثریت کی سیاست سے نکل کر عوامی خدمت اور جمہوری عمل کے استحکام پر توجہ دیں۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |