میڈیکل تعلیم کی نجکاری: ایک سنگین قومی المیہ
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
پاکستان میں میڈیکل تعلیم کے شعبے کو ہمیشہ سے ایک ممتاز اور حساس مقام حاصل رہا ہے۔ ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس جیسے پروفیشنل پروگرام نہ صرف ملک کے صحت عامہ کے نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں بلکہ ہزاروں نوجوانوں کے خوابوں کا مرکز بھی ہیں۔ تاہم گزشتہ چند دہائیوں سے نجی میڈیکل کالجوں کی غیرمتوازن فیس پالیسیوں نے ان خوابوں کو سنگین حقیقتوں میں بدل دیا ہے۔
پاکستان میں میڈیکل تعلیم کا آغاز 1947ء کے بعد سرکاری اداروں سے ہوا، جن کا مقصد قوم کو اعلیٰ طبی ماہرین فراہم کرنا تھا۔ ابتدا میں میڈیکل کالجوں کی تعداد نہایت محدود تھی، مگر بڑھتی ہوئی آبادی اور صحت کے شعبے میں ضروریات کے باعث وقت کے ساتھ نجی شعبے کی شمولیت ہوئی۔ 1990ء کی دہائی کے بعد ملک بھر میں نجی میڈیکل کالجوں کے قیام میں نمایاں اضافہ ہوا، جن کا دعویٰ تھا کہ وہ معیاری تعلیم فراہم کریں گے اور صحت کے شعبے کو تقویت دیں گے۔
مگر بدقسمتی سے نجی اداروں کی اکثریت نے اسے تعلیم کے بجائے منافع کا ذریعہ بنا لیا۔ فیسوں میں مسلسل اضافے نے تعلیم کو اشرافیہ کا حق بنا دیا، جبکہ متوسط اور نچلے طبقے کے باصلاحیت طلبہ کے لیے یہ خواب قابل رسائی نہ رہا۔
دو ماہ قبل، 25 رکنی حکومتی کمیٹی نے ایک نہایت اہم فیصلہ کیا کہ نجی میڈیکل کالجوں کی کل فیس پانچ سالوں کے لیے تمام واجبات سمیت زیادہ سے زیادہ 18 لاکھ روپے ہوگی۔ یہ فیصلہ لاکھوں طلبہ اور ان کے والدین کے لیے ایک امید کی کرن تھا۔ تاہم، حالیہ میڈیا رپورٹس کے مطابق، نجی میڈیکل کالجوں کی اکثریت نے اس پالیسی کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی پرانی فیس یعنی 35 سے 40 لاکھ روپے فی طالب علم بدستور وصول کرنا جاری رکھا ہے۔
یہ صورت حال صرف قانون کی خلاف ورزی ہی نہیں بلکہ ریاستی رٹ کی ناکامی اور طالب علموں کے حقوق کی پامالی بھی ہے۔ حکومت کی خاموشی یا کمزور عملداری نے ان اداروں کو مزید بے لگام کر دیا ہے۔
اس وقت پاکستان میں کل 187 میڈیکل و ڈینٹل کالج موجود ہیں، جن میں 66 سرکاری اور 121 نجی ادارے ہیں۔ ہر سال لاکھوں طلبہ میڈیکل میں داخلے کے لیے کوشش کرتے ہیں، مگر سرکاری ادارے صرف چند ہزار امیدواروں کو داخلہ دیتے ہیں، جس کے بعد دیگر امیدوار نجی کالجوں کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
سرکاری کالجوں میں پانچ سالہ تعلیم کی مجموعی لاگت تقریباً 90 ہزار روپے ہے، جبکہ نجی کالجوں میں یہ خرچ کم از کم 35 لاکھ سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس عدم توازن نے تعلیم کو اشرافیہ تک محدود کر دیا ہے۔
نجی میڈیکل اداروں کی اس استحصالی روش نے طالب علموں اور ان کے والدین کو معاشرتی سطح پر کئی گہرے زخم دیے ہیں۔ غریب اور محنتی طلبہ جو میرٹ پر پورا اترتے ہیں، صرف وسائل کی کمی کے باعث تعلیم سے محروم ہو جاتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق اب تک لاکھوں بلکہ کروڑوں ذہین اور محنتی نوجوان میڈیکل کے شعبے سے باہر ہو چکے ہیں۔ یہ صرف ایک تعلیمی المیہ نہیں بلکہ قومی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بھی ہے، کیونکہ ہم ایسے نوجوانوں سے محروم ہو رہے ہیں جو مستقبل میں بہترین ڈاکٹر، سرجن اور ماہرین صحت بن سکتے تھے۔
یہ صورت حال محض نجی کالجوں کی خودسری کا نتیجہ ہی نہیں بلکہ حکومتی ناکامی کا عکس بھی ہے۔ اگر متعلقہ وفاقی و صوبائی ادارے اور ریگولیٹری باڈیز جیسے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) اپنی ذمہ داریاں بروقت اور مؤثر انداز میں ادا کریں، تو نجی اداروں کی من مانیاں روکی جا سکتی ہیں۔
اس سلسلے میں مندرجہ ذیل سفارشات پر عمل کیا جائے: حکومت نجی میڈیکل کالجوں کے خلاف فوری قانونی کارروائی کرے جو مقررہ فیس سے تجاوز کر رہے ہیں۔ ایک شفاف مانیٹرنگ سسٹم تشکیل دیا جائے جو ہر ادارے کی فیس، داخلوں اور اخراجات کی نگرانی کرے۔ سرکاری میڈیکل کالجوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ طلبہ کو سستی اور معیاری تعلیم فراہم کی جا سکے۔ مالی طور پر مستحق طلبہ کے لیے اسکالرشپس اور قرضہ جاتی سہولتوں کو وسعت دی جائے۔ میڈیکل فیکلٹی میں معیار اور احتساب کو یقینی بنایا جائے تاکہ نجی ادارے صرف دولت کے بل پر داخلے نہ دیں بلکہ علمی و اخلاقی اصولوں کی پاسداری کریں۔
میڈیکل تعلیم کی نجکاری، اور اس میں موجود غیر متوازن فیس ڈھانچہ ایک ایسا المیہ ہے جو پاکستان کے تعلیمی، معاشی اور سماجی ڈھانچے کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ اگر فوری اور جرات مندانہ اقدامات نہ اٹھائے گئے تو ہم ایک ایسی نسل تیار کریں گے جو نہ صرف تعلیم سے دور ہوگی بلکہ احساس محرومی کا شکار ہو کر سماجی بے چینی کو جنم دے گی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اور دیگر حکومتی ادارے خوابوں کے سوداگر بننے والوں کو روکیں اور قوم کے مستقبل کو تعلیم کا حق واپس دلائیں۔ اس حق کے بغیر کوئی بھی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔
Title Image by Halcyon Marine Healthcare Systems from Pixabay
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |