مودی سرکار : دنیا میں رسوائی، اندر سے تباہی
تحریر محمد ذیشان بٹ
بھارت، جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے، اس وقت ایک ایسے نالائق اور ضدی حکمران کے ہاتھوں یرغمال ہے جسے دنیا "نریندر مودی” کے نام سے جانتی ہے۔ یہ موصوف 2014 سے بھارت کے وزیراعظم ہیں اور مسلسل دوسری بار 2019 میں دوبارہ اقتدار میں آئے۔ مگر اب، 2024 کے الیکشن میں جو پھٹکار عوام نے انہیں دی ہے، اُس کے بعد بھی موصوف کے ہوش ٹھکانے نہیں آئے۔ لگتا ہے جیسے پاکستان دشمنی نے مودی جی کو ایسا اندھا کر دیا ہے کہ اب انہیں نہ اپنی عقل نظر آتی ہے، نہ اپنے ملک کا مستقبل۔
مودی سرکار کی بنیاد ہی جھوٹ، پروپیگنڈے اور اقلیت دشمنی پر کھڑی ہے۔ ایک طرف ان کی پارٹی بی جے پی، رام مندر اور گائے ماتا کے نام پر ووٹ بٹورتی ہے، دوسری طرف پاکستان کو دشمن نمبر ایک بنا کر ہر الیکشن میں عوام کو ورغلاتی ہے۔ اور تو اور، اس بار بھی الیکشن میں شکست کے آثار دیکھ کر مودی جی نے وہی پرانا راگ الاپنا شروع کر دیا: "پاکستان کو سبق سکھائیں گے، سرجیکل اسٹرائیک، دہشت گردی کے خلاف کارروائی” وغیرہ وغیرہ۔ جیسے عوام کا کوئی اور مسئلہ ہی نہیں، صرف سرحد پار دشمنی ہی جمہوریت کی معراج ہو۔
مگر ذرا حقیقت کا آئینہ ملاحظہ ہو: آج بھارت اندرونی اور بیرونی، دونوں محاذوں پر عبرتناک رسوائی کا شکار ہے۔ سب سے پہلے اگر ہم خطے کی بات کریں تو وہ بنگلہ دیش، جسے بھارت نے 1971 میں اپنی "کامیابی” سمجھا تھا، اب بھارت سے تنگ آ چکا ہے۔ حسینہ واجد کی حکومت جو برسوں تک بھارت نواز سمجھی جاتی رہی، اب کھل کر بھارتی اثر و رسوخ کے خلاف ہو چکی ہے۔ سرحدی تنازعات، پانی کے مسئلے اور تجارت میں نابرابری نے بنگلہ دیش کو مجبور کر دیا کہ وہ بھارت سے فاصلہ رکھے۔ اور پھر، نیپال اور بھوٹان جیسے ممالک، جنہیں بھارت ہمیشہ اپنی جیب کی چھڑی سمجھتا رہا، اب بھارت کو آنکھیں دکھانے لگے ہیں۔ نیپال نے نقشے میں بھارتی علاقوں کو اپنا قرار دے کر اپنی خودمختاری کا اظہار کر دیا۔ بھوٹان نے بھی چین کے ساتھ بات چیت شروع کر دی ہے، جس سے بھارت کا سر نیچے ہو گیا ہے۔
اب بات کریں چین کی، تو جناب وہاں تو مودی حکومت نے ایسی چوٹ کھائی ہے کہ عقل ٹھکانے آ جائے۔ لداخ میں چینی افواج نے بھارتی فوجیوں کو ایسا سبق سکھایا کہ "چین چین” کی گردان کرتے مودی حکومت کے ترجمان گونگے ہو گئے۔ پینگونگ جھیل کے کنارے چینی فوجیوں کے ہاتھوں بھارتی جوانوں کو جس طرح مار پڑی، اُس پر بھارت آج تک پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مگر عالمی میڈیا نے سچ سامنے رکھ دیا۔
اب ذرا مودی کے بین الاقوامی تماشوں پر نظر ڈالیں۔ امریکہ، جو کبھی بھارت کا اسٹریٹجک پارٹنر کہلاتا تھا، اب بھارت کو طفل مکتب سمجھ کر بات کر رہا ہے۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران امریکہ نے واضح اعلان کیا کہ "ہم نے مداخلت کر کے جنگ روکی”، یعنی بھارت کی بڑھک بازی ناکام ہوئی اور اسے شرمندگی اٹھانی پڑی۔ اور کینیڈا؟ وہاں تو مودی حکومت کو کھلی بے عزتی کا سامنا ہے۔ سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے بعد کینیڈا نے بھارت کو عالمی سطح پر دہشت گرد قرار دینے کی مہم شروع کر دی۔
فرانس میں بھارتی پائلٹس کی تربیت کے دوران ہونے والی نااہلی نے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ رافیل طیارے اڑانے والے بھارتی "ایس” پائلٹ کی کارکردگی پر فرانس کے عسکری ماہرین نے جو تبصرے کیے، وہ مودی کے سینے پر مونگ دلنے کے مترادف تھے۔ بھارت کا غرور خاک میں مل گیا، اور دنیا کو ایک بار پھر یقین آ گیا کہ بھارت صرف بڑھکوں کا بادشاہ ہے، حقیقت میں کھوکھلا سا کاغذی شیر۔
اب ذرا بھارت کے اندرونی حالات کی تصویر دیکھیں تو بات اور بھی ہولناک ہو جاتی ہے۔ مودی حکومت نے آتے ہی مسلمانوں کو نشانے پر لیا۔ کبھی "لو جہاد” کے نام پر، کبھی "گائے کے ذبح” پر، کبھی "شہریت ترمیمی قانون” کے ذریعے، بھارت کے مسلمان مسلسل ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ دہلی کے فسادات، اتر پردیش میں مسلمانوں کی جائیدادوں پر بلڈوزر چلا کر "نیا بھارت” بنانے کا دعویٰ، درحقیقت ایک فاشسٹ ذہنیت کی عکاسی ہے۔
سکھ برادری بھی اس ظلم سے محفوظ نہیں رہی۔ کسان تحریک کے دوران جس طرح مودی حکومت نے سکھ کسانوں پر لاٹھیاں برسائیں، انہیں خالصتانی قرار دے کر بدنام کیا، اس سے پنجاب میں بی جے پی کی زمین بالکل کھسک گئی ہے۔ یہاں تک کہ اب مودی پنجاب جانے سے بھی کتراتے ہیں۔
عیسائی برادری پر بھی چرچ جلانے، مشنری اسکولوں پر حملوں، اور جبری تبدیلی مذہب جیسے واقعات کے ذریعے زہر اگلا جا رہا ہے۔ دلتوں کی تو بات ہی چھوڑیں، وہ تو آج بھی بھارت میں "ان چھوا” ہیں۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جہاں مذہب، ذات اور زبان کے نام پر ظلم ہی ظلم ہو؟
اب بات کرتے ہیں مودی کا سب سے بڑا سہارا: بھارتی میڈیا، جسے پیار سے "گودی میڈیا” کہا جاتا ہے۔ یہ وہ میڈیا ہے جس نے ہر خبر میں پاکستان کا ذکر گھسا کر اپنے ناظرین کو بیوقوف بنایا۔ مگر سچ ہمیشہ چھپتا نہیں۔ سوشل میڈیا نے ان کے جھوٹے پروپیگنڈے کا پول کھول دیا۔ آج ان کے اپنے صحافی، جیسے راویش کمار، سدھیر چودھری، اور دیگر کئی صحافی کھل کر اس میڈیا کی منافقت پر تنقید کر رہے ہیں۔
مودی جی نے اپنے دورِ اقتدار میں صرف ایک ہی کام پوری ایمانداری سے کیا ہے، اور وہ ہے جھوٹ بولنا۔ نوٹ بندی کے وقت کہا "کالا دھن واپس آئے گا”، نہ آیا۔ جی ایس ٹی لایا، کہا "معیشت بہتر ہو گی”، مگر چھوٹے کاروباری برباد ہو گئے۔ کورونا کے دوران لاک ڈاؤن کا حال سب نے دیکھا: مزدور پیدل چل کر اپنے گاؤں جا رہے تھے، اور مودی جی تھالی بجوا رہے تھے۔
اب ان کا آخری ہتھیار رہ گیا ہے انتہا پسندی، پاکستان دشمنی، اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا بھارت کے عوام اب بھی آنکھیں بند کیے رکھیں گے؟ کیا وہ اب بھی "مودی ہے تو ممکن ہے” کے نعرے میں امید ڈھونڈیں گے؟
حالیہ الیکشن نتائج نے بتا دیا ہے کہ عوام اب بیدار ہو چکے ہیں۔ بی جے پی کی نشستیں کم ہوئیں، اتحادی روٹھنے لگے، اور مخالف پارٹیاں مضبوط ہو رہی ہیں۔ اگر بھارت کے سمجھدار لوگ اب بھی ہوش میں نہ آئے، تو آنے والا وقت صرف بھارت کی سیاست کا نہیں، بلکہ بھارت کے وجود کا بھی بڑا امتحان ہو گا۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اگر انتہا پسندی اور نفرت پر چلے گی، تو پھر جمہوریت کہاں باقی رہے گی؟ مودی سرکار کا زوال اب محض وقت کی بات ہے۔ بھارت کو اگر واقعی ترقی کرنی ہے تو اسے اپنی سمت بدلنی ہو گی، بصورت دیگر، یہ آگ جو مودی نے دوسروں کے لیے جلائی ہے، وہ بھارت کو بھی بھسم کر دے گی۔
آخر میں ایک سوال
کیا بھارت کے عوام اب بھی اندھیر نگری میں رہنا پسند کریں گے؟ یا سچائی کو پہچان کر مودی کے طلسم کو توڑ دیں گے؟

محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |