وارث: عہدِ حاضر کی جھلک
ڈاکٹر فرہاد احمد فگار،مظفرآباد
"وارث "پروفیسر سید عاصم بخاری کے افسانچوں کا دوسرا مجموعہ ہے۔ قبل ازیں ان کا پہلا مجموعہ "اثاثہ” علمی و ادبی حلقوں میں من چاہی مقبولیت حاصل کر چکا۔ وارث 2025 میں ارسلان پبلی کیشنز، لاہور کے زیرِ اہتمام شائع ہوا۔ یہ کتاب اپنی ترتیب، اندازِ پیش کش، اور فکری جہت کے لحاظ سے اردو ادب میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔ اس مجموعے کا انتساب عدیم الفرصتی کے اس دور کے ہر قاری کے نام کیا گیا ہےجو نہ صرف عاصم بخاری کی قاری دوستی بلکہ ان کی عصری شعور کی علامت بھی ہے۔ کتاب کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں افسانچوں کی فہرست مرتب نہیں کی گئی جس سے قاری کو مطالعے کی آزادی میسر آتی ہے اور ہر کہانی ایک خودمختار تخلیقی تجربے کے طور پر سامنے آتی ہے۔
کتاب کے حوالے سے معروف ادبی شخصیات نے اپنے تبصرے بھی پیش کیے ہیں جو مجموعے کی ادبی اہمیت میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ پروفیسر رئیس احمد عرشی، نسیم سحر، پروفیسر منور علی ملک، شاعر علی شاعر، ڈاکٹر رانا خالد محمود قیصر اور صفدر علی حیدری نے وارث کے لیے اپنے اپنے تاثرات لکھے ہیں۔ ان کے تبصروں میں زبان و بیان کی روانی، موضوعات کی تازگی، اور کرداروں کی حقیقت پسندی پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ ان آرا سے ظاہر ہوتا ہے کہ وارث صرف کہانیوں کا مجموعہ نہیں بلکہ اردو افسانچوں کے ارتقائی سفر میں ایک نمایاں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ کتاب کے آغاز میں ڈاکٹر مشرف حسین انجم کا منظوم خراج بھی شامل ہے جو اس مجموعے کو ایک فکری اور ادبی وقار عطا کرتا ہے۔
وارث کے افسانچے حقیقت کے اس قدر قریب محسوس ہوتے ہیں کہ قاری کو یوں لگتا ہے جیسے وہ خود ان مناظر کا مشاہد بن گیا ہو۔ عاصم بخاری کی نثر میں وہ تخلیقی بصیرت موجود ہے جو روزمرہ زندگی کے معمولی واقعات کو معنی خیز تجربات میں بدل دیتی ہے۔ ان کے افسانچوں کا پلاٹ محض کہانی سنانے کا ذریعہ نہیں بلکہ انسانی نفسیات، سماجی تضادات اور عہدِ حاضر کی پےچیدگیوں کو اجاگر کرنے کا وسیلہ ہے۔ بخاری صاحب کی تحریر میں جو سادگی، روانی اور سچائی ہے وہ قاری کو نہ صرف کہانی میں کھینچ لیتی ہے بلکہ اسے دیر تک اپنے اثر میں رکھتی ہے۔
عاصم بخاری نے اپنے افسانچوں میں دورِ جدید کی علامتوں کو نہایت مؤثر انداز میں برتا ہے۔ خاص طور پر موبائل فون جیسی جدید ایجاد کو بہ طور علامت استعمال کرنا ان کی فکری گہرائی اور مشاہدے کی وسعت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ علامتیں صرف تکنیکی ترقی کا حوالہ نہیں بلکہ انسانی تعلقات، تنہائی اور بدلتے سماجی رویوں کی علامت بن کر ابھرتی ہیں۔ ان کہانیوں میں موبائل ایک طرف رشتوں کی قربت کا ذریعہ بنتا ہے تو دوسری طرف اجنبیت اور فاصلوں کی دیوار بھی قائم کرتا ہے۔
زبان و بیان کے اعتبار سے عاصم بخاری کا اسلوب نہایت سادہ مگر پُراثر ہے۔ ان کے ہاں منظر نگاری، کردار نگاری اور جزئیات نگاری کی ایسی ہم آہنگی ملتی ہے جو کہانیوں کو زندگی سے قریب کر دیتی ہے۔ ان کے کردار عام لوگوں کی طرح محسوس ہوتے ہیں ۔وہ محبت کرتے ہیں، الجھتے ہیں، خواب دیکھتے ہیں اور ٹوٹتے ہیں۔ یہی انسانی پہلو ان افسانچوں کو روحانی اور فکری گہرائی عطا کرتا ہے۔
پروفیسر عاصم بخاری کی اس تصنیف میں اگرچہ کہیں کہیں تکرار کا احساس بھی ہوتا ہے مگر وہ زیادہ تر موضوعی تسلسل یا فکری استقامت کی علامت معلوم ہوتی ہے۔ یہ تکرار کہانیوں کو ایک وحدت فراہم کرتی ہے اور بخاری صاحب کی مخصوص فکری سَمت کو اجاگر کرتی ہے۔ ان کی تحریروں میں ترقی پسندانہ رجحانات واضح طور پر نظر آتے ہیں جو فرد اور سماج کے باہمی تعلق، طبقاتی فرق اور انسانی مساوات کے نظریے پر استوار ہیں۔
ایک اور قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ عاصم بخاری نے اپنے افسانچوں میں اپنے اشعار کو بھی برمحل شامل کیا ہے۔ یہ اشعار نثر میں جذب ہو کر کہانی کے جذباتی اور فکری تناؤ کو مزید گہرا کر دیتے ہیں۔ کہیں یہ اشعار کردار کی داخلی کیفیت کی ترجمانی کرتے ہیں اور کہیں کہانی کے انجام کو شاعرانہ تاثر عطا کرتے ہیں۔
مجموعی طور پر "وارث” ایک ایسا مجموعہ ہے جس کے افسانچے عہدِ حاضر کی حساسیت، انسانی رشتوں کی نازکی اور سماجی شعور کو ایک ساتھ سمیٹتے ہیں۔ عاصم بخاری کے یہ افسانچے اردو ادب میں ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہیں جو قاری کو نہ صرف سوچنے پر مجبور کرتے ہیں بلکہ اسے اپنے اندر کے انسان سے دوبارہ جوڑتے ہیں۔ یہی اس کتاب کی سب سے بڑی کامیابی اور اس کے مصنف کی تخلیقی بصیرت کا ثبوت ہے۔

ڈاکٹر فرہاد احمد فگار کا تعلق آزاد کشمیر کے ضلع مظفرآباد(لوئر چھتر )سے ہے۔ نمل سے اردواملا اور تلفظ کے مباحث:لسانی محققین کی آرا کا تنقیدی تقابلی جائزہ کے موضوع پر ڈاکٹر شفیق انجم کی زیر نگرانی پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔کئی کتب کے مصنف ہیں۔ آپ بہ طور کالم نگار، محقق اور شاعر ادبی حلقوں میں پہچانے جاتے ہیں۔ لسانیات آپ کا خاص میدان ہے۔ آزاد کشمیر کے شعبہ تعلیم میں بہ طور اردو لیکچرر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ کالج میگزین بساط اور فن تراش کے مدیر ہیں اور ایک نجی اسکول کے مجلے کاوش کے اعزازی مدیر بھی ہیں۔ اپنی ادبی سرگرمیوں کے اعتراف میں کئی اعزازات اور ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں۔آپ کی تحریر سادہ بامعنی ہوتی ہے.فرہاد احمد فگار کے تحقیقی مضامین پر پشاور یونی ورسٹی سے بی ایس کی سطح کا تحقیقی مقالہ بھی لکھا جا چکا ہے جب کہ فرہاد احمد فگار شخصیت و فن کے نام سے ملک عظیم ناشاد اعوان نے ایک کتاب بھی ترتیب دے کر شائع کی ہے۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |