ایتھیل کیٹرہام کی طویل ترین عمر کا راز
اس وقت دنیا کی معمر ترین برطانوی خاتون ایتھیل کیٹرہام (Ethel Caterham) جن کی عمر آج کی تاریخ تک 115 سال ہے، نے اپنی لمبی عمر کا راز منکشف کیا ہے کہ وہ زندگی میں بحث اور ہنگامہ خیزی میں نہیں پڑتی ہیں۔ یہ سادہ زندگی گزارنے اور پرسکون رہنے کے لیئے، ان کا عمر افروز کلیہ ہے جس نے انہیں آج کی تاریخ تک زندہ رکھا ہوا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مادہ پرستی اور افراتفری کے اس دور میں، جس قدر زندگی کی ضرورتوں، بھاگ دوڑ اور ہماہمی کی گرد نے زندگی کو آلودہ کر رکھا ہے، اس سے صرف خود کو بچائے رکھنا بھی انتہائی کامیاب اور صحت مند ترین زندگی کی ضمانت یے۔
ایتھیل کیٹرہام کہتی ہیں کہ زندگی کے اس سادہ اور آسان ترین اصول نے انہیں اطمینان قلب سے ہمکنار کیا۔ یہ صحت اور تندرستی کا ایسا سائنسی کلیہ ہے کہ جس کا ذہن اور جسم کی بہترین کارکردگی سے براہ راست کا تعلق ہے۔ اگر ہمارا ذہن اچھے سے کام کرتا ہے تو ہمارے جسم کے تمام اعضاء بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
انسان کا دماغ جسم کی پوری مشینری کو چلانے اور اس پر حکمرانی کرنے کا بادشاہ ہے جس میں دل کو جسم میں ہر جگہ خون بہم پہنچانے میں اس کے معتبر ترین وزیر کی حیثیت حاصل ہے۔ انسان کے دماغ میں کائنات کی تمام کہکشاوں اور ستاروں میں پائے جانے والے کل ذرات کے برابر نیورانز ہیں، جن کا کام انسانی جسم کو چلانا اور دنیا و کائنات سے رابطہ کرنا ہے۔ انسان کا دماغ اور جسم لمبی زندگی پانے کے لیئے کارکردگی کے لحاظ سے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر ان میں سے ایک میں بھی کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے تو لامحالہ طور پر اس کا انسان کی صحت اور عمر پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔
انسان کا طرز زندگی یعنی لائف سٹائل (Life Style) یہ طے کرتا ہے کہ آپ کتنی لمبی زندگی بسر کریں گے۔ اس بات کو سادہ لفظوں میں اس طرح بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ ہم اچھی صحت کے ساتھ لمبی عمر کیسے گزار سکتے ہیں؟ آج کی دنیا میں جتنے ہنگامے ہیں، شور ہے، بے چینی یے، ٹینشن اور مایوسی ہے، اس سے خود کو بچائے رکھنا، اور عمر بھر اپنی مرضی اور پسند کے سیدھے راستے پر چلتے رہنا زندگی کی بہت بڑی کامیابی ہے، اور یہی راز آپ کو لمبی عمر سے بھی نوازنے کا سبب بنتا ہے۔
دنیا کے مشہور "جیرنٹولوجی ریسرچ گروپ” (Gerontology Research Group) کے مطابق یہ برطانوی خاتون جس کو دنیا کے طویل ترین عمر رکھنے والے بنی نوع انسان ہونے کا اعزاز حاصل ہے، وہ جنگ عظیم اول (1914ء تا 1918ء) سے پہلے 21اگست 1909 کو پیدا ہوئیں۔ انہوں نے اپنی اب تک کی زندگی میں دنیا کو بہت بدلتے دیکھا، جنگوں کو دیکھا، ٹیکنالوجی کی ترقی دیکھی، عام لوگوں کی زندگیوں کو بدلتے دیکھا لیکن انہوں نے سادہ و صاف زندگی گزارنے کی اپنی پسند کی یہ عادت کبھی نہ بدلی کہ وہ کہتی ہیں کہ، "میں سب کی سنتی ہوں مگر کسی سے بحث نہیں کرتی اور وہی کرتی ہوں جو مجھے پسند ہے۔” ان کے مطابق ان کی لمبی عمر کا صرف یہی ایک راز ہے کہ وہ اطمینان قلب پانے کے لیئے کبھی کسی سے الجھی ہیں، کسی سے بحث کی ہے اور نہ ہی کبھی کسی سے جھگڑا کیا ہے۔
زندگی کا یہ فلسفہ کہ اپنے کام سے کام رکھنا ہے اور کبھی کسی سے بحث یا جھگڑا وغیرہ نہیں کرنا ہے، خوشگوار اور صحت مند معاشرتی تعلقات کی بنیاد ہے۔ ہماری سماجی پریشانیاں اور دوسروں سے ناخوشگوار تعلقات صحت کے لیئے بھی مسائل پیدا کرتے ہیں کیونکہ سماج کے ساتھ آپ کا منفی تعلق آپ کے اندر ہیجان کی کیفیات پیدا کرتا ہے جو آپ کی صحت و تندرستی کو بری طرح متاثر کرتی ہیں۔ اس فلسفہ زندگی کی آج کے بے ہنگھم دور میں اور زیادہ اہمیت بڑھ گئی ہے۔ جب لوگ ایک دوسرے سے جھوٹ بولتے ہیں، ایک دوسرے کی غیبت کرتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ دھوکہ کرتے ہیں یا ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں تو دراصل وہ اپنی صحتمند زندگی پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ اگر آپ خود کو ان منافقانہ سماجی برائیوں سے بچا لیتے ہیں تو اس کے آپ کی عمر پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ایتھیل کیٹرہام کی زندگی تاریخ ساز ہے کہ وہ انیسویں صدی کے سادہ دور میں پیدا ہو کر آج اکیسویں صدی کے انتہائی پیچیدہ عہد میں زندہ ہیں۔ وہ جنوبی انگلینڈ میں شپٹن بلنگر کے قصبے میں پیدا ہوئیں جن کا 8 بہن بھائیوں میں دوسرا نمبر ہے۔ جب وہ سنہ 1909ء میں پیدا ہوئیں تو وہ گھوڑوں پر چلنے والے کاروانز اور ہاتھ سے لکھے جانے والے خطوط کا دور تک تھا، جبکہ آج دنیا تاریخ ساز "کوانٹم دور” سے گزر رہی ہے۔ ایتھیل کا بچپن انتہائی سادہ تھا، جو کہ عام فہم اور خاندانی اقدار پر مبنی تھا۔ انہوں نے دو عظیم جنگوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، انٹرنیٹ کا عروج دیکھا، اور دنیا کی تاریخ میں انگنت تبدیلیوں کو دیکھا، لیکن انہوں نے اپنی پرسکون زندگی کو کبھی خراب نہیں ہونے دیا۔ اس قسم کا سادہ اور مستقل مزاجی پر مبنی "نظریہ حیات” کہ اپنی اصل فطرت کو بدلنے نہیں دینا اور اس پر قائم رہنا ہے، وقت کے ساتھ انسان کے اعصاب کو مضبوط کرتا ہے، جس کو بہت سارے لوگ محسوس نہیں کرتے مگر یہی لمبی عمر کی ایک اہم ترین وجہ ہے جو ہمارے دماغ اور جسم کو مضبوط رکھتی یے۔
ایتھیل 18 سال کی عمر میں نانی (Nanny) کے طور پر کام کرنے کی غرض سے انڈیا منتقل ہو گئیں۔ یہ محض ایک پیشہ نہیں تھا بلکہ ایتھیل کے تجسس اور بہادری کی علامت تھی۔ وہ 3 سال تک انڈیا رہیں اور پھر شادی کے بعد اپنے خاوند نورمین (Norman) جو کہ برٹش آرمی میں میجر تھے، کے ساتھ ہانگ کانگ اور جبرالٹر چلی گئیں۔ سفر عموما انسان کو تھکا دیتا ہے مگر انہوں نے سفر کو وسیلہ ظفر سمجھا اور اس سے انہیں زندگی کی نئی چیزیں سیکھنے کا موقعہ ملا جس سے ان کے اندر متانت اور سنجیدگی پیدا ہوئی۔ سفر کے دوران انسان کا واسطہ نئی ثقافت اور کلچر سے پڑتا ہے اور کئی نئے چیلنجز درپیش ہوتے ہیں مگر وہ اس دوران بھی اپنی پرسکون فطرت پر قائم رہیں۔ ایتھیل نے 2 بیٹیوں کو جنم دیا۔ سنہ 1976ء میں ان کے خاوند نورمین کا انتقال ہو گیا مگر اس خاتون کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی اور انہوں نے اپنی پروقار زندگی کا سفر ہمیشہ کی طرح اسی انداز میں مضبوطی سے جاری رکھا کہ، "کبھی کسی سے بحث نہیں کرنی ہے۔”
یہ پرانے زمانے کا لمبی زندگی پانے کا ایک بہت ہی سادہ سا اصول ہے۔ جب ایتھیل سے گزشتہ دنوں انگلینڈ سرے (Surrey) میں واقع ان کے کیئر ہوم (Care Home) میں ایک صحافی نے ان کی ناقابل یقین لمبی عمر کا راز پوچھا تو ان کا جواب بہت سادہ مگر بہت زیادہ طاقتور تھا، انہوں نے بڑے اعتماد سے اپنا قدیم اصول دہرایا کہ، "اپنے کام سے کام رکھنا ہے اور کسی سے بحث نہیں کرنی ہے۔” اب جدید نفسیات دانوں نے بھی تحقیق کے بعد یہ راز دریافت کیا ہے کہ پریشانی، غصہ، جذباتی کچھاو’ اور خاص طور پر مایوسی دل کے امراض کا خطرہ پیدا کرتی ہیں، نظام انہضام کو خراب کر دیتی ہیں اور بڑھاپے میں تیزی پیدا کرتی ہیں۔ ایتھیل کا غیرضروری بحث اور ڈرامہ بازی سے پرہیز کرنے کا اصول زندگی کے لیئے فرحت بخش پیغام ہے جس کو اپنا کر انہوں نے زندگی کا دورانیہ بڑھایا ہے جس پر وہ 115 سال کی عمر میں آج بھی قائم ہیں اور صحت مند ذہنی اور جسمانی زندگی گزار رہی ہیں۔
انسان کی پرسکون، صحت مند اور لمبی زندگی کے پیچھے جو سائنس کام کرتی ہے اس کا تعلق انسان کی زہنی حالت سے ہے کہ آپ نے خود کو کس طرح چھوٹی موٹی مشکلات اور رکاوٹوں کو نظر انداز کر کے، حتی کہ بڑے بڑے چیلنجز کو بھی خاطر میں نہ لا کر خود کو پرسکون رکھنا ہے۔ میڈیکل اور ذہنی علوم کی سائنسی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ جو لوگ جگہ جگہ جذباتی ہو کر ردعمل ظاہر کرتے ہیں اس کے ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ جلد موذی قسم کی جسمانی و ذہنی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں، جس سے وہ لمبی عمر پانے سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔
یہ صرف ایتھیل کی لمبی عمر ہی کا قصہ نہیں بلکہ اس کا تعلق ہم سب کی زندگیوں سے بھی ہے کہ دماغ پر پریشانی اور ناامیدی کا بوجھ کبھی نہیں لادنا چایئے۔ زندگی میں جو ہونا ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے۔ ہمارے ٹینشن لینے سے مشکلات کا طوفان کبھی نہیں تھمتا اور نہ ہی ٹلتا ہے، ہاں اگر ہم پرسکون رہیں تو وہ گزر ضرور جاتا ہے۔ گزشتہ روز ایتھیل نے اپنی 115ویں سالگرہ کا کیک کاٹا تو وہ اپنے سٹاف، رشتہ داروں اور دوستوں میں انتہائی صحت مند اور خوش و خرم نظر آ رہی تھیں۔ لیکن ان کی لمبی عمر کا یہ ریکارڈ اتنا اہم نہیں جتنی اہم بات یہ ہے کہ صحت مند اور کامیاب سماجی زندگی گزارنے کے لیئے دوسروں کے کاموں میں خوامخوا ٹانگ کبھی نہ اڑانی چایئے۔ صحت مند اور لمبی زندگی میں جتنی اہمیت خوراک اور ورزش کی ہے اتنی ہی افادیت آپ کے کارآمد انداز زندگی کی ہے۔ لمبی عمر کا راز کام کی نوعیت یا مہنگی چیزیں استعمال کرنے سے بھی نہیں ہے۔ بعض دفعہ اس کا تعلق کم بولنے اور زیادہ سننے سے ہوتا ہے، کبھی کبھار وہ چیزیں کرنی چایئے جن کو کرنے کے لیئے آپ کا من کر رہا ہو مگر اس سے کسی کو تکلیف یا نقصان نہ پہنچتا ہو۔ ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ غیرضروری چیزوں کے پیچھے بھاگ کر خود کو ہلکان نہیں کرنا چایئے، جس سے آپ کے اندر کشمکش پیدا ہوتی ہیں۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |