وقت کی لچک اور العصر کی قسم
دورانیہ زندگی کے بارے سورت بقرہ کی آیت نمبر 36 اور سورت یاسین کی آیت نمبر 44 میں ذکر آیا ہے۔ ان دونوں جگہوں پر حیات انسانی کے تعین وقت پر بات کی گئی ہے کہ وہ کتنے مختصر ترین وقت کے لیئے دنیا میں بھیجا جاتا ہے۔ ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت انسان دنیا میں ایک انتہائی قلیل ترین وقت کے لیئے آتا ہے۔ اگر انسان اس کم ترین وقت کو بھی ضائع کر دے یا غیرتعمیری، فضول اور غیرمنافع بخش کاموں میں صرف کر لے، تو انسان سے زیادہ بدترین اور بدنصیب دوسری کوئی مخلوق نہیں ہو سکتی ہے۔
بنی نوع انسان کی زندگی کا وقت کتنا مختصر ترین ہے اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہم بچے کی پیدائش کے بارے میں تو جانتے ہیں کہ وہ 9 ماہ کے بعد پیدا ہو جاتا ہے مگر دنیا کے کسی بھی انسان کو یہ معلوم نہیں ہے کہ، وہ بچہ دنیا میں کتنی مدت تک زندہ رہ سکتا ہے۔ قبل از وقت یہ راز کوئی انسان نہیں جانتا کہ اس نے کب اور کیسے مرنا ہے؟ البتہ کچھ امراض ایسی ہیں مثلا کینسر وغیرہ کہ ڈاکٹرز بتا دیتے ہیں کہ کوئی مریض کتنے عرصہ تک زندہ رہ سکتا ہے۔ اس کے باوجود اب کینسر کا علاج بھی ہو جاتا ہے اور کوئی انسان اس سے مرتا بھی ہے تو اس کی بقیہ زندگی کی عین نینو سیکنڈز میں درست پیش گوئی کرنا تقریبا ناممکن ہے۔ کسی انسان کو نہیں معلوم کہ وہ کتنے وقت کی مہلت لے کر دنیا میں آیا ہے۔ زندگی کے انتہائی قلیل ہونے کی تقسیم سالوں دنوں، مہینوں، گھنٹوں اور سیکنڈز میں نہیں کی جا سکتی ہے۔ اس کا پتہ صرف اس وقت چلتا ہے جب بنی نوع انسان اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے کہ فلاں شخص اس تاریخ کو پیدا ہوا اور اس تاریخ کو اس کی وفات ہوئی۔
سورت بقرہ کی آیت نمبر چھتیس میں زندگی کے بارے جو آخری عربی لفظ استعمال ہوا ہے وہ "حِینٍ” ہے جس کا مفہوم ناقابل تقسیم کے بارے میں ہے یعنی جس کا بین مطلب یہ ہے کہ انسان کی زندگی اتنی مختصر ہے کہ اسے وقت کے کسی بھی پیمانے سے تقسیم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک سال 11 مہینوں، مہینہ 28, 29، 30 یا 31 دنوں، ہفتہ 7 دنوں، ایک دن 24 گھنٹوں، ایک گھنٹہ 60 منٹوں اور ایک منٹ مزید 60 سیکنڈز پر تقسیم ہو جاتا ہے۔ لیکن قرآن کے مطابق "حِینٍ” وقت کا اتنا مختصر ترین دورانیہ ہے کہ جسے سائنسی زبان میں "مائیکرو” یا "نینو” سیکنڈز (یعنی تقریبا ایک سیکنڈ کے دس ہزارویں حصے مائیکرو اور ایک لاکھویں حصے نینو سیکنڈز) میں بھی تقسیم نہیں کیا جا سکتا ہے اور اسی نینو سیکنڈز کے آخری حصہ کو "حِینٍ ” کہا جا سکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر انسانی زندگی کا دورانیہ اور وقت اتنا مختصر ترین ہے کہ اسے وقت پر ہی تقسیم نہیں کیا سکتا، تو وہ سالوں، مہینوں اور گھنٹوں پر مبنی اتنی لمبی زندگی کیوں اور کیسے گزارتا ہے؟ اس بات کی وضاحت قرآن پاک کی سورت العصر میں کی گئی ہے جس کی پہلی ہی آیت میں رب کائنات وقت کی قسم کھا کر فرماتے ہیں کہ، "وقت عصر (یعنی ڈھلتے ہوئے وقت) کی قسم کہ بے شک انسان گھاٹے میں ہے۔”
سائنسی لحاظ سے دیکھا جائے تو وقت ایک مغالطہ یا مطابقاتی پیمانہ ہے جس کو البرٹ آئنسٹائن جیسے بڑے سائنس دان نے بھی تسلیم کیا تھا بلکہ ان کی مشہور زمانہ "ریلیٹوٹی تھیوری” وقت ہی کے بارے میں ہے جس میں انہوں نے ٹرین میں سفر کرتے مسافروں اور زمین پر کھڑے افراد کی مثالیں دی تھیں اور "ٹائم ڈیلیشن” کی تھیوری بھی پیش کی تھی کہ جس کے مطابق ایک تیز ترین رفتار راکٹ میں سفر کرنے والا جوان پائلٹ اگر چند گھنٹے یا چند سال سفر کر کے زمین پر دوبارہ اترتا ہے تو اس دوران زمین پر موجود لوگ صدیوں تک کا وقت گزار کر بوڑھے ہو چکے ہوتے ہیں، جبکہ راکٹ کا مسافر ابھی بھی جوں کا توں جوان ہوتا ہے۔
وَقت یا سَاعَت جسے انگریزی زبان میں ٹائم کہتے ہیں پیمائشی نظام کا ایک جزء ہے جس سے دو واقعات کا درمیانی وقفہ معلوم کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی نظام اکائیات میں وقت کی اِکائی ثانیہ یعنی "سیکنڈ” ہے، جبکہ گھنٹہ، دِن، ہفتہ، مہینہ اور سال اِس کی بڑی اِکائیاں ہیں۔ وقت کو انسانی ایجاد گھڑی اور کیلنڈر سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ قواعدی لحاظ سے گھڑی وقت کی اکائی کے چھوٹے سے حصہ کو ظاہر کرنے کا ایک آلہ ہے۔ یہ وقت کا وہ پہلو ہے جو آپ کی کلائی کی باندھی گھڑی، دیوار پر لگا کلینڈر بتا رہا ہے، جس کو "لائنیئر ٹائم” کہا جاتا ہے۔ تاہم وقت کوئی حتمی حقیقت یا اٹل سچائی نہیں ہے کیونکہ "وقت” ہم انسانوں کی طے کردہ مقدار ہے، اور اس کی اہمیت فقط اس لیئے ہے کہ اسے ہم زندگی کے دورانیہ کے لیئے ایک بڑی اصطلاح کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
طبیعی نظریات کے مطابق وقت کی تعریف زمان و مکاں کے لحاظ سے یوں کی جاتی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ وقت دراصل غیر فضائی (نان سپیٹیکل) اور زمانی (ٹیمپورل) واقعات کا ایک تسلسل ہے جو ناقابل واپسی یعنی اریورسبل ہے جو ماضی سے حال اور پھر مستقبل کی جانب رواں دواں رہتا ہے یعنی جس کو روکا نہیں جا سکتا ہے۔
آئن سٹائن نے نظریہ وقت یعنی اپنے تصور زماں کو اپنی تھیوری "ٹائم ڈائیلیشن” (وقت کی لچک) میں پیش کیا۔ ٹائم ڈائیلیشن اس وقت شروع ہوتی ہے جب کوئی آبجیکٹ سپیس یعنی خلا میں روشنی کے قریب ترین رفتار سے سفر کرتا ہے۔ تب اُس آبجیکٹ کا وقت آہستہ گزرتا ہے اور اسی دوران زمین پر موجود اشیاء کا وقت جلدی سے گزر رہا ہوتا ہے۔ مثلاً فرض کریں ایک باپ ہے جس کی عمر بائیس سال ہے اور ایک بیٹا ہے جس کی عمر ایک سال ہے۔ اب اگر باپ کو ہم خلا کے سفر پر روانہ کر دیں یا زمین پر ہی کسی طرح اس کی حرکت کی رفتار بڑھا دینے کا بندوبست کر لیں اور وہ روشنی کی رفتارکے قریب قریب سفر کرے تو ایک سال بعد جب وہ واپس آئے گا تو اس کی عمر بائیس سال سے تیئس سال ہو چکی ہو گی جبکہ اس کے بیٹے کی عمر ہو سکتا ہے اسّی سال ہو چکی ہو۔ اس کا دوسرا مطلب ہے کہ زیادہ رفتار پر واقعی ٹائم ڈائلیشن وقوع پزیر ہوتا ہے، اس حقیقت کو متعدد تجربوں سے ثابت کیا جا چکا ہے جن میں خلائی شٹل میں جانے والے خلابازوں کی عُمروں سے لے کر ہیڈران کولائیڈرز میں مادے کے چھوٹے زرّات کی رفتاروں اور ٹائم تک کے بے شمار تجربات ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ فی الواقع اُونچے درجے کی رفتاروں پر وقت آہستہ گزرنے لگتا ہے۔
اس کے برعکس وقت کے بارے میں کلاسیکی نظریات کی روشنی میں پوری کائنات کا بحیثیت مجموعی کوئی یوم آغاز اور کوئی یوم فنا نہیں ہے کیونکہ کائنات مجموعی طور پر ایک ٹھوس چیز نہیں ہے، جیسا کہ کوئی میز یا کرسی وغیرہ ہوتی ہے، اور نہ ہی یہ ایک بند نظام ہے جیسا کہ ٹھوس اشیاء کا آغاز و انجام ہوتا ہے اور ان کا اپنا وقت اور اپنا زمان مکان ہوتا ہے۔ کیونکہ وقت محض ایک عنصری جزو ہے جو چیزوں کی حرکت اور ان کے درمیان فاصلے سے پیدا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کائنات کے تمام اجسام (یعنی ستاروں اور چیزوں وغیرہ) کی حرکت رک جائے تو وقت خود بخود تھم جائے گا، یعنی وقت کے تینوں زمانے ماضی، حال اور مستقبل بھی چیزوں کی حرکت کے ختم ہونے پر خود بخود ختم ہو جائیں۔ مثلا ایک مادے کے چھوٹے زرات نیوٹران وغیرہ کی زندگی سترہ منٹ ہے۔ لیکن مختلف میسان اور ہائپران عموماً ایک سیکنڈ کا دس کروڑواں حصہ ہی زندہ رہتے ہیں۔ ان کے "نظام زندگی” یا "زمانی ترتیب زندگی” کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا سارا عمل اتنے مختصر وقفے میں ہوتا ہے کہ ہم اس کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ لھذا ہم سب انسانوں کی زندگی کتنی مختصر ہے یا کتنی طویل ہے، ہم میں سے کوئی بھی انسان نہیں جانتا ہے۔
تاہم کائنات کی ہر چیز کا اپنا ایک مقررہ وقت ہوتا ہے، جس کا آغاز اور انجام دونوں ہوتے ہیں۔ اسی طرح انسان کا وقت اس کی اپنی زندگی کے پیمانے سے ہوتا ہے۔ نظام شمسی کا اپنا وقت ہوتا ہے اور سب اوقات محدود اور متعین ہوتے ہیں۔چنانچہ کائنات ہو، چیزیں ہوں یا انسان ہوں ان کا وجود ایک وقت متعین کے اندر ہی قائم ہوتا ہے۔ ہم انسانوں میں سے کوئی ایک بھی وقت کے اس دائرے سے باہر یا اس سے ماورا نہیں ہے۔ ایسا سوچنا خام خیالی ہے کہ ہم متعین اوقات سے کوئی آزادنہ وجود رکھتے ہیں۔ یہ خام خیالی اور محض ایک ذہنی تجرید ہے کہ، "غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی۔”
مابعد الطبیعیات مفکرین ہمیشہ وقت کو ایک مربوط دریا کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں وقت ایک بہتا ہوا دھارا ہے۔ اردو ادب میں اس کے لیئے "لمحہ سیال” کی ترکیب بڑے ذوق و شوق سے پیش کی جاتی ہے۔ ان کے خیال میں لمحہ سیال ازلی ہے جسے سیکنڈ، منٹ، گھنٹہ دن، مہینہ اور سال میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں "ازلی وقت” تقسیم سے ماورا ہے۔ ان کے خیال میں وقت نظام شمسی کی، زمین کی محوری اور مداری حرکتوں سے ناقابل تقسیم اکائی ہے جو "قائم بالذات” ہے۔ مابعد الطبیعیاتی مفکرین یقین رکھتے ہیں کہ وقت مادی سلسلہ ہائے عمل کے اندر یا ان کے حوالے سے وجود نہیں رکھتا ہے۔ بلکہ ہر قسم کے مادی اعمال سے باہر آزادنہ وجود رکھتا ہے۔ یہ وقت کا "مطلق تصور” ہے، جو دنیا اور کائنات کی زندگی کے اعتبار سے سراسر غلط ہے۔ اگر ایسا کوئی ہمہ گیر وقت کا دریا مادی سلسلہ ہائے عمل سے باہر کوئی وجود رکھتا ہے تو وہ یقیناً مادے سے ماورا ہے اور پھر یہ ماننا پڑے گا کہ اس قسم کا وقت خدا کا ہی دوسرا نام ہے۔
زمان یعنی وقت کو اگر دریا ہی کہنا ہے تو پھر اس کی سچی تصویر اس طرح ہو گی کہ یہ دریا یعنی بہتا ہوا لمحہ ہزاروں لاکھوں اوقات سے نکل کر لاکھوں کروڑوں وادیوں، میدانوں سے بہتا ہوا ہی گذرے گا۔ یوں کائنات کا "دریائے وقت” انہی سارے مادی تعینات کے اندر بہہ سکتا ہے، ان سے باہر نہیں۔ تمام مطلق چیزیں اضافی چیزوں کے اندر وجود رکھ سکتی ہیں، ان سے ماورا نہیں۔ یعنی وقت کی لامتناہیت، متعین وقت کے اندر وجود رکھتی ہے۔ اس طرح لاتعداد متعین اوقات کا "مجموعہ” یا "کل” مطلق وقت ہے۔ وقت کی لامتناہیت اور متناہیت کی یہی واحد جدلیات ہے۔
وقت کی جدلیات سے ثابت ہوتا ہے کہ وقت صرف انہی کے لیئے تھمتا ہے جو اس کا اپنے اعمال کے ذریعے بہتر استعمال کرتے ہیں، کیونکہ وہ وقت کو اپنی مرضی سے چلاتے ہیں یا اس پر اپنے اثرات چھوڑ کر تھما لیتے ہیں۔
کوئی واحد کائناتی وقت جو مادی علائق سے آزاد ہو اپنا وجود نہیں رکھتا ہے، سوائے ذہن انسانی میں بطور تجرید کے، جیسے درخت، میز کرسی جیسی چیزیں ہیں۔ کیا اس کائنات کا کوئی آغاز و انجام بھی ہے، دوسرے الفاظ میں کیا وقت کا کوئی آغاز و انجام ہے؟ جدلیاتی سائنسدانوں کا جواب یہ ہے کہ وقت کا آغاز بھی ہے اور آغاز نہیں بھی ہے۔ اس طرح انجام بھی ہے اور انجام نہیں بھی ہے، جو کہ ایک مہمل، مبہم اور ناقابل فہم سا تصور ہے۔
چونکہ ہم انسان ہیں اور کائنات میں ایک ٹھوس حیثیت رکھتے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کا آغاز بھی ہے اور ایک انجام بھی ہے، جیسا کہ نظام شمسی کی ابتدا بھی ہے اور انتہا بھی ہے۔ اس قسم کا وقت جس کا تجربہ ہم دن، مہینے اور سال کی شکل میں کرتے ہیں۔ وقت ایک مطلق حقیقت ہو یا یہ محض ایک تجریدی اور کلاسیکل شے ہو، ان دونوں صورتوں میں انسان کے لیئے وقت سائنسی اصطلاح میں بھی نینو سیکنڈز کی حد تک انتہائی مختصر ترین شے ہے جسے قرآن پاک لفظ "حِینٍ” میں ظاہر کرتا ہے۔ "پھر شیطان نے ان کو وہاں سے ڈگمگایا پھر انہیں اس عزت و راحت سے نکالا کہ جس میں تھے، اور ہم نے کہا تم سب اترو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو، اور تمہارے لئے زمین میں ٹھکانا ہے اور سامان ایک وقت معین (حِینٍ) تک” یعنی نظام شمسی اور کائنات کے پیمانے کے اعتبار سے بھی ہماری زندگی کا "وقت معین” یعنی لفظ "حِینٍ” جتنا مختصر ترین یا نہ ہونے کے برابر وقت ہے، تو اس مختصر ترین زندگی کو جھوٹ، فریب اور دھوکہ دہی میں ضائع کر دینے سے ہمارا کتنا بڑا نقصان ہے اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔
زندگی کا جتنا بھی معین وقت ہمیں ملتا ہے اس میں ہم الٹا اسے ضائع کریں یا برائیاں کرنے میں گزار دیں تو یہ کتنا بڑا غیر دانشمندانہ فیصلہ ہو گا؟ قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے اسی لیئے عصر کے وقت کی قسم کھائی ہے کہ انسان گھاٹے میں ہے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور صالح و نیک اعمال کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو کوئی فکر ہے اور نہ ہی وہ نقصان یا گھاٹے میں ہیں کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو حق پر قائم رہتے ہیں، صبر کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو وصیت کرتے رہتے ہیں۔ جزاک اللہ خیرا۔ یا رب العالمین ہم سب پر سلامتی قائم رکھ۔ آمین!
Title Image by Willgard Krause from Pixabay

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |