شنگھائی کانفرنس کا اختتامی اعلامیہ اور پاکستان کی خارجہ پالیسی
شنگھائی تنظیم دنیا کی 40 فی صد سے زیادہ آبادی کی نمائندہ ایک انتہائی طاقتور تنظیم ہے جس کا 25واں سربراہی اجلاس اختمام پذیر ہوا۔ اس تنظیم پر چین کا اثر و رسوخ زیادہ ہے اور چین ہمارا ہمسایہ اور دیرینہ دوست ملک ہے۔ لیکن اس کانفرنس کے اختتامی اعلامیہ میں پاکستان اور بھارت کو نہ صرف برابر اہمیت دی گئی، بلکہ کئی حوالوں سے یہ مشترکہ اعلامیہ ہمارے لیئے مایوس کن رہا کیونکہ اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات کا حوالہ تو دیا گیا مگر بھارت میں پہلگام اور پاکستان میں دہشت گردوں کے حملوں کا ایک ساتھ ذکر کیا گیا۔ اگرچہ اس اعلامیہ میں توازن قائم کرنے کی کوشش کی گئی، مگر اعلامیہ کے مکمل متن سے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں کو دہشت گردی کے ’’شریک مظلوم‘‘ کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس حکمت عملی سے توازن قائم کرنے کی تو کوشش کی گئی مگر ہمارے لیئے جو اہم امور ہیں وہ سردست پس منظر میں چلے گئے ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم ایک ایشیائی سیاسی، اقتصادی اور عسکری تعاون کی تنظیم ہے جسے چین کے شہر شنگھائی میں سنہ 2001ء میں چین، روس، قازقستان، کرغستان اور ازبکستان کے رہنماؤں نے قائم کیا۔ یہ تمام ممالک شنگھائی پانچ کے اراکین کہلائے۔ جب 2021ء کے آخر میں ازبکستان اس میں شامل ہوا، تب اس تنظیم کا نام بدل کر "شنگھائی تعاون تنظیم” رکھ دیا گیا۔ 10 جولائی 2015ء کو اس میں پاکستان اور بھارت کو بھی شامل کیا گیا۔ ہم پاک چین دوستی کا ہمیشہ دم بھرتے ہیں اور ایسا کرنا بھی چایئے۔ پاک بھارت حالیہ جنگ میں پاکستان کی تاریخی کامیابی کے پس پردہ چین کا تعاون بھی شامل تھا۔ اس کے باوجود شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا چین کے شہر تیانجن میں منعقدہ اجلاس ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ پاکستان کو اپنی سفارتی حکمت عملی کو متوان کرنے پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
حالیہ پاک بھارت جنگ میں پاکستانی فتح نے دنیا بھر میں پاکستان کے تشخص کو غیرمعمولی طور پر اجاگر کیا ہے۔ بھارت کے مقابلے میں امریکہ کا جھکاو واضح طور پر پاکستان کی طرف ہو گیا ہے اور امریکی صدر ہر سطح پر بھارت کی سرزنش اور پاکستان کی تعریف کرتے نظر آ رہے ہیں۔ جبکہ مغربی ممالک اور روس میں بھی پاکستان کے لیئے نرم گوشہ پیدا ہوا ہے۔ جبکہ شنگھائی تنظیم کے اجلاس میں بھارت کے ساتھ پاکستان کے تنازعات کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی ہے۔ اعلامیہ میں کہیں بھی پاکستان کے بنیادی مسئلے یعنی بھارت کی جانب سے "آبی جارحیت” اور بالخصوص سندھ طاس معاہدے (آئی ڈبلیو ٹی) کو بھارت کی طرف سے معطل کرنے اور اس میں ردوبدل کرنے کا ذکر نہیں کیا گیا ہے، اور نہ ہی بھارت کی یکطرفہ کارروائی کے تحت آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے مقبوضہ کشمیر کو "بھارتی اکھنڈ یونین” میں ضم کرنے، کا کوئی ذکر موجود ہے۔ یہاں تک کہ کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت، جسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں کے تحت تسلیم کیا گیا ہے، کو بھی نظرانداز کیا گیا ہے۔
اس مشترکہ اعلامیہ میں بھارت کے لئے ان مسائل کا غیر موجود ہونا ایک سفارتی کامیابی ثابت ہوا۔ نہ صرف نئی دہلی کو کشمیر میں اپنی غیر قانونی کارروائیوں پر کسی تنقید سے بچا لیا گیا بلکہ پاکستان کے خدشات کو مؤثر طور پر پس پشت ڈال دیا گیا۔ مئی کی جھڑپ کے دوران بھارت کے پاکستان پر بلااشتعال حملے پر ایس سی او کی خاموشی اور مکمل تحقیقات کی عدم موجودگی نے مزید بھارت کے حق میں پلڑا جھکا دیا ہے۔ اس کے برعکس، پہلگام حملے کو نمایاں طور پر اجاگر کیا گیا تاکہ بھارت کے بیانیئے کو عالمی توجہ ملے جبکہ پاکستان کا مؤقف دب کر رہ گیا۔ بے شک چین اور روس ایک دوسرے کے زیادہ قریب آ رہے ہیں اور بھارت کے روس پر اثرات کی وجہ سے چین نے اعلامیہ کو متوازن رکھا۔ لیکن اس وقتی جھکاو کو انتہائی سنجیدہ لیا جانا چایئے اور ہماری وزارت خارجہ کو سوچنا چایئے کہ چین کے ساتھ خارجہ پالیسی کے میدان میں کہاں کمی بیشی رہ گئی ہے۔ یہ عدم توازن ایک اہم سوال کو جنم دیتا ہے کہ کیا چین واقعی پاکستان کا ’’ہمہ موسم دوست‘‘ ہے؟ پاکستان کے اندر موجود کمیونسٹ نواز لابی طویل عرصے سے بیجنگ کو ایک قابلِ اعتماد اور وفادار شراکت دار کے طور پر پیش کرتی رہی ہے۔ لیکن ایک ایسے فورم میں جہاں چین کا اثر و رسوخ نمایاں ہے، پاکستان کے قومی مفادات، بالخصوص کشمیر اور آبی سلامتی کو نمایاں کیا جانا مقصود تھا۔ یہ کسی بھول چوک کا نتیجہ نہیں بلکہ اس امر کی عکاسی ہے کہ کثیرالجہتی فورمز میں بھارت کتنا وزنی کردار رکھتا ہے اور پاکستان کا ایک ہی شراکت دار پر انحصار کس قدر محدودیت پیدا کرتا ہے۔
یہاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مؤقف کا ذکر بھی ضروری ہے، جنہوں نے کھلے عام تسلیم کیا کہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک تنازعہ ہے اور اس کے غیر حل شدہ ہونے کو واضح طور پر مانا۔ ٹرمپ کے اس مؤقف نے کشمیر کے مسئلے کو دوبارہ عالمی منظرنامہ پر اجاگر کیا اور اسے بین الاقوامی سفارتکاری کے ایوانوں تک پہنچا دیا۔ یہ اعتراف، اگرچہ مختصر ہے، تاہم یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بااثر عالمی رہنماؤں کی وضاحت کسی بھی "بیانئے” کو بدل سکتی ہے۔ یہ ایسا بنیادی کام ہے جو شنگھائی تنظیم کے اعلامیہ میں نظر آنا چایئے تھا۔
خارجہ پالیسی کی از سرِ نو ترتیب ناگزیر ہے، ایسی حکمت عملی جس میں چین کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھتے ہوئے امریکہ، یورپ اور مسلم دنیا کے ساتھ روابط کو مضبوط بنایا جائے تاکہ پاکستان کے قومی مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ اس میں ہمارے لیئے سبق واضح ہے کہ کثیرالجہتی فورمز پر پاکستان کے مسئلے اس وقت تک اجاگر نہیں ہوں گے جب تک اسلام آباد خود انہیں وضاحت، حکمت عملی اور تسلسل کے ساتھ آگے نہ بڑھائے۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |